Tadabbur-e-Quran - Hud : 96
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ وَ : اور سُلْطٰنٍ : دلیل مُّبِيْنٍ : روشن
ور ہم نے موسیٰ کو فرعون اور اس کے اعیان کے پاس اپنی آیات اور ایک روشن نشانی کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت : اب آگے کی چند آیات میں حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت کی طرف اجمالاً اشارہ فرایا ہے۔ یاد ہوگا، سورة یونس میں حضرت موسیٰ علہ السلام کی سرگزشت تو تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے لیکن دوسرے انبیاء کا صرف اجمالی حوالہ ہے اس کے برعکس اس سورة میں حضرت موسیٰ کی سرگزشت کی طرف تو اجمالی اشارہ کردیا ہے البتہ دوسرے انبیاء کی سرگزشتیں، جیسا کہ آپ نے دیکھا، تفصیل سے بیان ہوئی ہیں۔ اس طرح یہ دونوں سورتیں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں اور یہی حقیقت ہے سورتوں کے زوج زوج ہونے کی۔ مقدمۂ کتاب میں ہم اس مسئلہ پر گفتگو کرچکے ہیں۔ بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۔ آیات سے مراد تو وہ عام نشانیاں ہیں جو حضرت موسیٰ کے ہاتھوں قدم قدم پر ظاہر ہوئیں اور سلطان مبین سے مراد خاص طور پر وہ نشانی ہے جس سے حضرت موسیٰ کو فرعون، اس کے درباریوں اور اس کے ساحروں پر کھلا ہوا غلبہ حاصل ہوا یعنی معجزہ عصا۔ گویا یہاں عام کے بعد خاص کا ذکر ہے اور اس کو سلطان مبین کے لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حیثیت درحقیقت ایک حجت قاہرہ کی تھی جس کے بعد فرعون اور اس کے درباریوں کی ساری ساکھ خود اپنے آدمیوں کی نگاہ میں اکھڑ گئی۔
Top