Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 98
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کے لئے ان کے محاسبہ کا وقت قریب آ لگا ہے اور یہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کئے جا رہے ہیں
سابق سورة کے مضمون کی تکمیل یہ سورة بغیر کسی تسمیہ و تمہید کے شروع ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم نے پیچھے اشارہ کیا، یہ ہے کہ یہ درحقیقت اسی انذار کے مضمون کی تکمیل ہے جس پر سابق سورة تمام ہوئی ہے۔ سابق سورة کی آخری آیات اور اس سورة کی ابتدائی آیات نے ایک حلقہ اتصال کی صورت اختیار کرلی ہے۔ سورة برأت کی تفسیر میں ہم اس نوع کے اتصال کی بعض خوبیوں کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔ للناس اسے مراد مشرکین مکہ میں للناس سے مراد، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے مشرکین مکہ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ خدا کی یاد دہانی سے اعراض پر اڑے ہوئے تھے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے اعراض کرتے ہوئے عام لفظ سے ان کا ذکر فرمایا۔ اسلوب بیان سے ایک قسم کی نفرت و کراہت اور حسرت کا اظہار ہو رہا ہے اور اس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ ایک سنت الٰہی کی یاد دہانی لوگوں کے لئے ان کے محاسبہ کا وقت بالکل قریب آگیا ہے، یہ محض ایک دھمکی نہیں بلکہ بیان واقعہ ہے ہم اس کتاب میں جگہ اس سنت الٰہی کی وضاحت کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ وہ ایمان لائے اگر وہ یہ راہ نہیں اختیار کرتی تو اتمام حجت کے بعد وہ لازماً تباہ کردی جاتی ہے۔ اس سنت الٰہی کی روشنی میں فرمایا کہ رسول کی بعثت و دعوت کے بعد ان مشرکین کا یوم الحساب بھی بالکل قریب آ لگا ہے لیکن یہ بدستور غفلت میں پڑے ہوئے، رسول کی تذکیر و تنبیہ سے اعراض کئے جا رہے ہیں۔ یہاں بکق وقت ان کی دو حالتوں کا ذکر ہے، ایکغفلت، دوسری اعراض غفلت یعنی زندگی کے اصل حقائق سے بےپروائی، بجائے خود بھی انسان کی شامت کی دلیل ہے اور ایک بہت بڑا جرم ہے لیکن یہ جرم اس صورت میں بہت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب کوئی اللہ کا بندہ جھنجھوڑنے اور جگانے کے لئے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہو لیکن لوگ ایسے غفلت کے ماتے ہوں کہ اس کی کوئی نصیحت بھی سننے کے لئے تیار نہ ہوں۔
Top