بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
اقترب للناس حسابہم لوگوں کے قریب آگیا ان کا حساب یعنی گزشتہ زمانے کے مقابلہ میں اب حساب (آخرت) کا زمانہ قریب آگیا۔ للناس میں لام بمعنی مِنْ ہے یعنی لوگوں سے قریب آگیا۔ الناس میں الف لام جنسی ہے عام لوگ یا عہدی یعنی کافر لوگ۔ آئندہ آیت سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ الناس سے مراد کافر ہیں۔ وہم فی غفلۃ اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں یعنی دنیا اور نفسانی خواہشات میں غرق ہونے کی وجہ سے وہ محاسبۂ آخرت سے بھی غافل ہیں اور اس سزا سے بھی جو ان کو دی جائے گی۔ معرضون۔ منہ موڑے ہوئے ہیں یعنی حساب فہمی پر غور کرنے اور اس کی تیاری کرنے سے روگرداں ہیں۔ فِیْ غَفْلَۃٍکے بعد مُّعْرِضُوْنَ کا اضافہ اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ حساب کی طرف ان کا غافل ہونا دنیا میں ڈوبنے کی وجہ سے ہے ‘ یہ بات نہیں ہے کہ وہ اللہ کی یاد میں غرق ہیں اس لئے ان کو آخرت کا خیال نہیں آتا۔ اگر الناس میں الف لام استغراقی والی قرار دیا جائے اور تمام لوگ مراد ہوں تو ہُمْ ضمیر بعض لوگوں یعنی کافروں کی طرف راجع ہوگی اور یہ جائز ہے جیسے آیت (وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ ۔ وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ ) میں المطلقات کا لفظ عام ہے ‘ لیکن بعولتہن کی ضمیر ان مطلقات کی طرف راجع ہے جن کی طلاق رجعی ہے۔
Top