بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
قریب آگیا ہے لوگوں کے لئے ان کا حساب اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کر رہے ہیں
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الانبیاء ہے۔ اگرچہ اس میں لفظ ” انبیائ “ کا ذکر تو کہیں نہیں آیا ، تاہم اس میں بہت سے انبیاء (علیہم السلام) مثلا ً حضرت نوح ، ادریس ، یونس ، ایوب ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ (علیہم السلام) اور آخر میں حضور خاتم النبیین ﷺ کا اسم مبارک مذکور ہے اس لئے اس سورة کو سورة الانبیاء کے نام سے موسوم کیا گیا۔ بعض سورتیں جیسے سورة مزمل ، مدث ، نٓ ، فاتحہ وغیرہ تو مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئیں ، مگر یہ سورة مبارکہ مکی دور کے وسط میں نازل ہوئی۔ اس کی ایک سو بارہ آیات سات رکوع ۔ 1138 الفاظ اور 4168 حروف ہیں۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے سورة بنی اسرائیل ، سورة کہف ، سورة مریم اور سورة الانبیاء کے متعلق ارشاد (بخاری ص 683 ج 6 (فیاض) فرمایا انھن من العتاق الاول وھن من تلادی یعنی یہ سورتیں میرا پرانا اور قیمتی مال ہیں جن کی میں حفاظت کرتا ہوں یعنی ان کو دہراتا رہتا ہوں۔ مضامین سورة : اس سورة کے مضامین گزشتہ سورة طٰہٰ سے ملتے جلتے ہیں۔ ویسے بھی تمام مکی سورتیں عام طور پر عقائد کے بارہ میں ہی بحث کرتی ہیں۔ چناچہ اس سورة مبارکہ میں بھی توحید ، رسالت اور قیامت کا ذکر ہے جو کہ اس سورة کے مرکزی مضامین ہیں۔ اس سورة میں رسالت کے ضمن میں بشریت انبیاء کا خاص طور پر ذکر ہے۔ سارے نبی اللہ کے مقرب اور برگزیدہ بندے مگر انسان تھے۔ علاوہ ازیں وحدت ملت انبیاء کا ذکر ہے یعنی اللہ کے تمام نبیوں کی ملت ایک ہی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کی تبلیغ کا ذکر بھی اس سورة میں آیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچاتے تھے ، اور اپنی حاجات میں کس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع کا اظہار کرتے تھے اور کس طرح اس کی مناجات کرتے تھے اور اپنی ضرورتیں پیش کرتے تھے۔ اس ضمن میں رسالت کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے یا اس کا انکار کرنے والوں کا رد بھی ہوگا۔ ضمناً ملائکہ کا ذکر بھی آئے گا۔ یاجوج ماجوج کا تذکر ہ بھی ہے۔ گزشتہ سورة میں حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا طریقہ تبلیغ کا تفصیل کے ساتھ ذکر تھا ، مگر اس سورة میں یہ ذکر اجمال کے ساتھ آئے گا ، البتہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر اس سورة میں تفصیل کے ساتھ آئے گا۔ بعض دوسرے انبیاء کا مفصل ذکر بھی موجود ہے۔ قرب قیامت میں غفلت : اکثر سورة کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے حروف مقطعات سے کی ہے اور بعض کی ابتداء میں تسبیح وتحمید بطور تمہید آئی ہے ۔ البتہ بعض سورتیں بغیر تمہید کے شروع کردی گئی ہیں۔ ان میں یہ سورة اور آگے سورة نور بھی شامل ہے ۔ اس سورة مبارکہ میں نافرمانوں کو ان کے انجام سے براہ راست ڈرایا گیا ہے ، لہٰذا اسے بغیر تمہید کے شروع کیا گیا ہے۔ گذشتہ سورة طٰہٰ کے آخر میں بیان ہوا تھا کہ ہر ایک انتظار کرنے والا ہے ، تم بھی انتظار کرو اور پھر جلید ہی جان لوگے کہ سیدھے راستے پر چلنے والا کون آدمی ہے اور منزل مقصود پر پہنچنے والا کون ہے۔ اب اس سورة کی ابتدائی آیت گزشتہ سورة کی اختتامی آیت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ اقترب للناس حسابھم لوگوں کے لئے حساب کتاب کی منزل قریب آچکی ہے وھم فی غفلۃ معرضون۔ اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کرنیوالے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے بعث بعدالموت اور محاسبہ اعمال کی طرف اشارہ فرمایا ہے حساب کتاب کے قریب آلگنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا آخری نبی حضور خاتم النبیین ﷺ اور اس کی آخری کتاب قرآن حکیم آچکے ہیں تو اب قیامت آنے میں کیا دیر رہ گئی ہے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ علامات آنے کے بعد بھی چودہ صدیاں گزرچکی ہیں مگر ابھی تک تو حساب کتاب کی منزل نہیں آئی۔ اس کے جواب میں اللہ کا یہ ارشاد موجود ہے انھم………قریبا (المعارج 7 , 6) یعنی لوگ قیامت کو دور سمجھ رہے ہیں مگر ہمارے حساب سے وہ قریب آچکی ہے ۔ اللہ کا آخری نبی آچکا ہے ، اس نے اللہ کا آخری پروگرام پیش کردیا ہے ۔ اب نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نئی کتاب۔ صرف محاسبے کی منزل باقی ہے لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ یہ قریب آچکی ہے۔ یہ تو اجتماعی محاسبے کی بات ہے کہ قیامت برپا ہوجائیگی اور پھر تمام لوگوں کو حساب کتاب کے لئے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ البتہ حساب کتاب کی ایک انفرادی منزل بھی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے من مات فقد قامت قیامتہ جو مرگیا اس کی قیامت تو برپا ہوگئی۔ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے تو عالم برزخ میں اس کے حساب کتاب کا سلسلہ تو قبر میں ہی شروع ہوجاتا ہے ، اس لحاظ سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کا محاسبہ تو قریب آچکا ، صرف مرنے کی دیر ہے ، مگر وہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کر رہے ہیں ، گویا انہیں اپنے محاسبہ اعمال کی خبر ہی نہیں ہے۔ وہ نہ صرف اپنے دنیا کے اعمال واشتعال میں منہمک ہیں ، بلکہ اس محاسبے کی منزل کی طرف توجہ دلانے والے کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ نصیحت سے اعراض : آگے اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کی تعدی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے مایتیھم من ذکر من ربھم محدث ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی الا استمعوہ مگر وہ اس کو سنتے ہیں وھم یلعبون مگر کھیل کود میں مشغول ہیں۔ مطلب یہ کہ اللہ کے نافرمانوں نے یہ شیوہ بنارکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے کسی حکم یا نصیحت کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ وہ اسکو سنتے تو ضرور ہیں مگر نہ اس پر غور کرتے ہیں اور نہ عمل کی نوبت آتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ آخرت کی تیاری سے بالکل ہی غافل ہیں۔ فرمایا ، نہ صرف ان کے ظواہر کھیل کود کی طرف راغب ہیں بلکہ لا ھیۃ قلوبھم ان کے دل بھی لہو ولعب میں مشغول ہیں ۔ ان کے دل و دماغ میں کوئی اچھی بات آتی ہی نہیں۔ اس کے برخلاف وہ کھیل تماشے ، گانے بجانے ، کھانے پینے اور دیگر دنیاوی اشغال ہی کے پروگرام بناتے رہتے ہیں اور پھر انہی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ یہ تو قرآن پاک کے نزول کے زمانے کی بات کی ہے ، آج کے دور میں لہو ولعب کے سامان تو ہزاروں گنا بڑھ چکے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں ریڈیو اور ٹیلیویژن کے پروگرام سے فرصت نہیں۔ آدھی آدھی رات تک ان کے سامنے بیٹھنے فحش فلمیں ، گانے اور ڈراموں سے دل بہلاتے رہتے ہیں ، نہ نماز کی فکر ہے ، نہ روزے کی اور نہ کسی دیگر نیکی کے کام کی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی میچوں کی وباء نے دنیا پھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمارے جیسے غریب ملک کے لوگ بھی کئی کئی دن تک کرکٹ میچ سے دل بہلاتے رہتے ہیں اور اس دوران انہیں کسی دوسری چیز کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی ، نہ فیکٹریوں میں کام ہوتا ہے اور نہ دفتروں میں۔ تمام کام ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ ان کے دل بھی کھیل کود میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ بشریت رسل سے انکار : نافرمانوں کی دوسری خصلت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے۔ واسروا النجوی الذین ظلموا اور ان لوگوں نے پوشیدہ میٹنگ کی جنہوں نے ظلم کیا ۔ سازشی لوگ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ حق کو مٹانے کے لئے خفیہ میٹنگیں کرتے ہیں ، ان میں منصوبہ بندی ہوتی ہے اور پھر اس پر عملدرآمد شروع ہوجاتا ہے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش شروع سے ہی چلی آرہی ہے۔ بہرحال ان ظالموں نے نہ تو قرآن پاک جیسے نصیحت نامے کی طرف توجہ کی اور نہ اس نصیحت نامہ لانے والے نبی آخرالزمان ﷺ پر ایمان لائے ، بلکہ یہ کہہ کر ان کا انکار کردیا ھل ھذا الا بشر مثلکم یہ تو تمہارے جیسا آدمی ہے ، بھلا اس معمولی سے آدمی کو ہم کیسے رسول تسلیم کریں مشرکین اور پرانے نافرمان اللہ کے نبیوں پر ہمیشہ سے یہی اعتراض کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان کی مالی پوزیشن اچھی نہیں۔ ان کے پاس کوٹھی اور کار نہیں ، نوکر چاکر اور باغات نہیں ، بھلا ان کو ہم رسالت کی گدی پر کیسے بٹھا دیں۔ مکہ کے مشرک تو خاص طور پر کہتے تھے لو لا نزل………………عظیم (الزخرف 31) بھلا یہ قرآن حکیم مکہ اور طائف کی دو بڑی بستیوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل ہوا۔ مکہ میں ابوالحکم ، مغیرہ اور شیبہ جیسے سردار ہیں۔ طائف میں عبدیالیل موجود ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو ابو طالب کے یتیم بھتیجے کے علاوہ نبوت کے لئے کوئی دوسرا آدمی ہی نہ ملا ، ان کی نگاہ میں مال و دولت ، جاہ واقتدار اور اعلیٰ سوسائٹی ہی معیار نبوت تھا۔ جب کہ اللہ کے نزدیک نبوت و رسالت کا معیار ایمان ، نیکی ، تقویٰ اور اخلاق ہے۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) میں یہ چیزیں کمال درجے کی پائی جاتی ہیں۔ تمام انبیاء سے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کا اخلاق سب سے بلند فرمایا ہے۔ وانک………عظیم (القلم 4) یعنی آپ خلق عظیم کے مالک ہیں انبیاء کا تقویٰ ، نیکی ، عمل ، مخلوق خدا سے ہمدردی اور کلام ایک معیار ہوتا ہے لہٰذا ان کا یہ اعتراض باطل ہے کہ یہ تو ہمارے جیسا ایک انسان ہی ہے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ پر یہی اعتراض کیا تھا فقالوا…………وسعر (القمر 24) کہنے لگے کیا ہم اپنے میں سے ایک انسان کا اتباع کرلیں۔ یہ تو بڑی ہی بیوقوفی کی بات ہوگی ۔ کہتے تھے کہ اس کا اتباع کرنا تو بیوقوفوں کا کام ہے۔ بھلاہم اس کو کیسے رسول مان لیں ؟ اس بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں دیا ہے۔ سحرگری کا الزام : کہتے تھے کہ یہ ہے تو معمولی حیثیت کا آدمی مگر اس کی بات میں اثر ضرور ہے ، ہو نہ ہو یہ جادو کا اثر ہے۔ پھر دوسرے لوگوں سے کہنے لگے افتاتون السحر کیا تم جادو میں پھنستے ہو ؟ وانتم تبصرون حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ تو ایک معمولی حیثیت کا آدمی ہے ۔ گویا مشرکین مکہ نے حضور ﷺ کے کلام کو سحر سے تعبیر کیا (العیاذ باللہ) اور بعض دیگر ناروا اعتراضات بھی کیے۔ ان کے جواب میں قل اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ربی یعلم القول فی السماء والارض میرا پروردگار خوب جانتا ہے اس بات کو جو آسمان میں ہو یا زمین میں۔ مطلب یہ کہ ایسی بات کرنے والا کوئی آسمان پر ہو یا زمین پر ہو ، اللہ تعالیٰ ان سب کے اقوال کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ یہ لوگ محض تعصب اور عناد کی بناء پر سحرگری کا الزام لگا رہے ہیں۔ وھوالسمیع العلیم وہ ہر بات کو سنتا بھی ہے اور ہر چیز کو جاننا بھی ہے۔ ان منکرین کی باتیں اور حالات اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہیں۔ وہ ایک مقررہ وقت میں ان سے ضرور انتقام لے گا۔ انکار کے بہانے : فرمایا ان بدبختوں نے نہ صرف حضور خاتم النبیین ﷺ کو اپنے جیسا آدمی خیال کیا اور ان کے کلام کو سحر سے تعبیر کیا بلکہ بل قالوا اضغاث احلام کہنے لگے یہ تو پریشان خواب ہیں۔ اس شخص کو مختلف قسم کے پریشان کن ڈرائونے خواب آتے ہیں جنہیں یہ قرآن کہہ کر پیش کردیتا ہے۔ جب حضور ﷺ مرنے کے بعد قبر ، برزخ اور آخرت کے حالات بیان کرتے ، جنت اور دوزخ کے ثواب و عذاب کی بات کرتے ، تو منکرین کہتے کہ یہ تو اس کے پریشان خواب ہیں جو بیان کرتا رہتا ہے ورنہ ان کی حقیقت کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ بعض نے یہ بھی کہہ دیا بل افترہ کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے ۔ خود طبع آزمائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اللہ کی نازل کردہ آیات ہیں ، لہٰذا اس کی بات کا اعتبار نہ کرو اور اپنے راستے پر چلتے رہو۔ تمہیں تمہارے آبائواجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض لوگوں نے یوں کہا بل ھو شاعر یہ شخص تو شاعر ہے شاعروں جیسی تخیلاتی اور بےتکی باتیں کرتا ہے ، اس کے پیچھے مت لگو۔ یہ تمہیں گمراہ کردے گا۔ پھر کہنے لگے کہ اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے کہ یہ واقعی خدا کا نبی ہے فلیاتنا بایۃ کما ارسل الاولون تو پھر یہ بھی کوئی نشانی سے آئے جیسا کہ پہلے رسول لاتے رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ نشانی کے طور پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے پتھر سے اونٹنی نکال دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر عصا اور ید بیضا جیسے معجزات ظاہر ہوئے۔ تو اس طرح یہ بھی کوئی نشانی یا معجزہ پیش کرے یہ سب نہ ماننے کے بہانے تھے ورنہ حضور ﷺ تو بہت سی نشانیاں پیش کرچکے تھے اور سب سے بڑی نشانی خود قرآن تھا ، مگر جنہوں نے نہیں ماننا تھا وہ اس قسم کے اعتراضات کرتے رہے۔ اس کے برخلاف حضرت ابوذر ؓ جیسے منصف مزاج لوگ بھی انہیں میں موجود تھے جنہوں نے آپ کی صداقت کو فوراً پہچان لیا اور ایمان لے آئے۔ آپ کے بھائی انیس ؓ مکہ میں آئے ، حضور ﷺ کے متعلق دیکھا سنا اور پھر واپس جاکر حضرت ابوذر غفاری ؓ کو رپورٹ پیش کی کہ وہ شخص کاہن نہیں کیونکہ کاہن لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، غیب دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور فیس وصول کرتے ہیں مگر اس مدعی نبوت میں یہ خصلتیں نہیں پائی جاتیں ۔ میں نے خود کاہنوں کی باتیں سنی ہیں ، مگر اس شخص میں وہ بات نہیں پائی جاتیں۔ میں نے خود کاہنوں کی باتیں سنی ہیں ، مگر اس شخص میں وہ بات نہیں ہے۔ کہنے لگا کہ یہ شخص جادوگر بھی نہیں ہے کیونکہ وہ بھی اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے غلط باتیں کرتے ہیں۔ یہ شاعر بھی نہیں کیونکہ شاعر لوگ تک بندی کرتے ہیں ، کسی کی مدح کردی ، کسی کی قدح کردی۔ یہ تخیل کی وادیوں میں گھوڑے دوڑاتے پھرتے ہیں جس کی حقیقت کچھ نہیں ہوتی۔ شاعروں کے کلام میں صحیح اور غلط ہر قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ اس میں قافیہ اور دیف ہوتا ہے ، سحر ہوتے ہیں مگر اس شخص کی بات مختصر اور اثرانگیز ہوتی ہے۔ میں نے اس کے کلام کو شاعروں کے اوزان کے ساتھ بھی پرکھا ، مگر یہ کوئی اور ہی چیز ہے۔ شعر جس قدر جھوٹا ہوتا ہے ، اتنی ہی زیادہ داد ملتی ہے۔ مگر یہ شخص حق کے سوا زبان سے کچھ نہیں نکالتا۔ یقینا یہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا اور خدا کا نبی ہے۔ بہرحال منکرین نے انکار کے لئے کئی بہانے تراش رکھے تھے ، وگرنہ نشانیاں تو بہت سی دیکھ چکے تھے۔ جیسا کہ گزشتہ سورة میں گزر چکا ہے قرآن سے بڑی کون سی نشانی ہوسکتی ہے۔ پہلی کتابوں میں اس کی پیشن گوئیاں موجود تھیں اس کے علاوہ بھی حضور ﷺ کے دست مبارک پر بہت سے معجزے ظاہر ہوئے مگر بدنصیب لوگ ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ گزشتہ آیت میں منکرین کا یہ اعتراض بھی گزر چکا ہے کہ یہ (محمد ﷺ ) تو ہمارے جیسا انسان ہی ہے ، ہم اس پر کیسے ایمان لے آئیں تو اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا ما امنت قبلھم من قریۃ اھلکنھا ان سے پہلے کسی بستی والے ایمان نہیں لائے کہ جن کو ہم نے ہلاک کیا ہو۔ مطلب یہ کہ انکار کا وطیرہ صرف مشرکین مکہ تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ اس سے پیشتر جس قوم کو بھی ہم نے ہلاک کیا وہ اپنے اپنے انبیاء پر ایمان نہیں لائے تھے ، لہٰذا آپ ان لوگوں سے بھی زیادہ توقع نہ رکھیں کہ شاید یہ ایمان لے آئیں گے۔ چناچہ مکہ کے سرکردہ آدمیوں میں اکثر ایمان کی نعمت سے محروم رہے اور ہلاک ہوئے۔ یہ لوگ قرآن کو شعر و شاعری سے تعبیر کر رہے ہیں ، کوئی جادو بتارہا ہے اور کوئی بدبخت نبی آخرالزمان کو مجنون کا لقب دے رہا ہے ، یہ سب انکار کے بہانے ہیں اور ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ فرمایا کیا آپ ایسے لوگوں سے توقع رکھتے ہیں افھم یومنون کہ یہ ایمان لے آئیں گے۔ فرمایا ، ایسا نہیں ہے۔ آپ اپنا حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ، یہ لوگ ایمان لانیوالے نہیں ہیں۔
Top