Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 24
وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ١ۖۚ وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ
وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلَى : طرف الطَّيِّبِ : پاکیزہ مِنَ : سے۔ کی الْقَوْلِ : بات وَهُدُوْٓا : اور انہیں ہدایت کی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطِ : راہ الْحَمِيْدِ : تعریفوں کا لائق
اور ان کی رہنمائی پاکیزہ کلمہ حمد کی طرف اور ان کی رہنمائی خدائے حمید کی راہ کی طرف ہوگی !
اہل حق کے انجام کی تفصیل مخالفین حق کا انجام بیان کرنے کے بعد اب یہ ان لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے جو مخالفین کی تمام مخالفتوں کے علی مرغم موقف حق پر ڈٹے رہے۔ فرمایا کہ ان کے لئے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یخرفیھا من ساد رمن ذھب ذنولوا میں لولوا اساور کے محل پر عطف ہے۔ یعنی وہ اس جنت میں سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار پہنائے جائیں گے۔ ولبا سھرفیھا حریر کے اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس جنت میں ان کا لباس ریشم ہی ریشم ہوگا۔ اسی کا لباس اسی کا اوڑھنا اسی کا بچھونا اسی کے دوسرے لوازم قومی میب سے بعد وھدوآ انی الطبیمن انقول سے اہل جنت کے اس کلمہ حمد و شکر کی طرف اشارہ ہے جو ان کی زبانوں سے بحا تاشا اس وقت ادا ہوگا جب وہ دیکھیں گے کہ ان کے رب نے جتنے وعدے کئے وہ سب پورے ہوئے سورة زمر آیت 74 میں اس کا حوالہ یوں آیا ہے۔ وقالوا الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ (اور وہ سب پکار اٹھیں گے کہ شکر ہے اس اللہ کے لئے جس نے ہم سے اپنے کئے ہوئے وعدے پورے کئے) اسی ترانہ حمد کا ذکر سورة فاطر آیت 35-34 میں بھی ہے۔ وقالوا الحمد للہ الذی اذھب عنا العزن ان ربنا لغفور شکورہ الذی احلنا دارالمقامۃ من فضلہ (اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اس اللہ کے لئے جس نے ہم سے غم کو دور کیا، بیشک ہمارا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا اور پذیرائی فرمانے والا ہے۔ جس نے اپنے فضل سے ہمیں قرار کی منزل میں اتارا) صراط حمید کا مفہوم وھدوآ الی صراط الحمید صراط الحمید سے مراد میرے نزدیک اسی دارالمقامۃ کی شراہ ہے جس کی طرف سورة فاطمہ کی محولہ بالا آیت میں اشارہ ہوا۔ یہاں لفظ ہدایت، منزل مقصود کی طرف ہدایت کے مفہوم میں ہے اور صیغہ مجہول تشریف و تکریم پر دلیل ہے کہ ملائکہ کی ایک جماعت کے ذریعہ سے ان لوگوں کی رہنمائی اس شاہراہ کی طرف کی جائے گی جو اس دارالمقامہ تک ان کو پہنچائے گی جو خدائے حمید نے ان کے قیام کے لئے پسند فرمایا ہے۔ مشاہدہ حق کے احوال کی تعبیر بارہ و ساغر کے الفاظ سے یہاں یہ امر محلوظ رہے کہ جنت و دوزخ وغیرہ کے احوال کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہے۔ ان کو مخاطب کے ذہن سیق ریب لانے کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان کی تیرا کے لئے وہ اسلوب اختیار کیا جائے جس سے مخاطب مانوس ہوں۔ اہل عرب مصریوں اور ایرانیوں کے تمدن سے متاثر تھے اس وجہ سے تنعم و رفاہیت کی تعبیر کے لئے وہی اسلوب اختیار کیا جاتا ہے جس میں یا تو خود ان کے اپنے تصورات میں زمانہ کے اختلاف سے بھی بڑا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے الفاظ کے بجائے ہمیشہ حقیقت پر نظر رکھنی چاہئے۔ بس یہ ماننا چاہئے کہ اہل جنت کو یہ نعمتیں حاصل ہوں گی جو قرآن میں مذکور ہوئیں، رہی یہ بات کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے تو ان کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے جس طرح بعض اوقات مشاہدہ حق کے احوال و معاملات کے لئے بادہ و ساغر کی تعبیریں اختیار کی جاتی ہیں اسی طرح احوال آخرت کی تعبیر ان الفاظ و تمثلا ات سے کی جاتی ہے جو مخاطب کے لئے قریب الفہم ہوں۔
Top