Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 22
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ
فَمَكَثَ : سو اس نے دیر کی غَيْرَ بَعِيْدٍ : تھوڑی سی فَقَالَ : پھر کہا اَحَطْتُّ : میں نے معلوم کیا ہے بِمَا : وہ جو لَمْ تُحِطْ بِهٖ : تم کو معلوم نہیں وہ وَجِئْتُكَ : اور میں تمہارے پاس لایا ہوں مِنْ : سے سَبَاٍ : سبا بِنَبَاٍ : ایک خبر يَّقِيْنٍ : یقینی
زیادہ دیر نہیں گزری کہ وہ آیا اور اس نے کہا کہ میرے علم میں وہ چیز ہے جو آپ کے علم میں نہیں ہے اور میں ملک سبا سے ایک سچی خبر لایا ہوں
آیت (24-22) ہد ہد کے مک سبا کے بارے میں فمکت غیر بعید مکت کا فاعل میرے نزدیک، حضرت سلیمان ہیں۔ یعنی ہد ہد پر جو عتاب انہوں نے فرمایا اس کے بعد زیادہ دیر نہیں گزری کہ ہد ہد آگیا اور اس نے اپنی کارگزاری کی یہ رپورٹ پیش کی کہ میں ملک سامنے ایک ایسی سچی اطلاع لے کر آیا ہوں جو حضور کے علم میں نہیں ہے۔ سبا عرب کا وہی مغربی جنوبی علاقہ ہے جہاں یمن، حضرموت اور عیسر واقع ہیں۔ ہد ہد کے قول کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت سلیمان اس ملک اور اس کے حلا ات سے بالکل ہی بیخبر ہیں۔ اتنے قریب کے ملک سے حضرت سلیمان بالکل بیخبر کیسے ہو سکتے تھے جب کہ تورات اور قرآن دونوں سے یہ بات ثابت ہے کہ ملکہ سبا حضرت سلیمان کے حالات اور ان کی حکمت ہے جیسا کہ آگے واضحت آرہی ہے، فی الجملہ واقف تھیں۔ جب ملکہ سبا واقف تھیں تو حضرت سلیمان کے ناواقف ہونے کے کیا معنی جن کا سبحری بیڑا دور دور کے ممالک تک سفر کرتا تھا۔ ہد ہد کا مطلب یہ تھا کہ اس ملک سے متعلق میں تازہ تفصیلی رپورٹ لے کر آیا ہوں جس سے حضور کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ احطت بمالوتحط بہ کے الفاظ سے بھی یہی بات نکلتی ہے۔ ان الفاظ کا صحیح مدعا یہ ہے کہ حضور والا اس ملک سے متعلق جو کچھ جانتے ہیں میں اس سے کسرے زائد معلومتا حاصل کر کے آیا ہوں۔ یہ امر محلوظ رہے کہ ہد ہد نے یہ بات اپنی غیر حاضری کے عذر کے طور پر پیش کی ہے اس وجہ سے اس نے اپنی رپورٹ کا قابل وثوق ہونا بھی واضح کیا اور تازہ معلومات پر مشتمل ہونا بھی۔ اس طرحکا اضافہ ہر ملک کا سفیر اور مخبر اپنے ملک کے حکمران کی معلومات میں کرتا ہے اور کرسکتا ہے اس وجہ سے اس میں حضرت سلیمان کے علم اور ان کی معلومات کی تحقیر کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ انی وجدت امراۃ ……ال آیتہ، ملک کے حکمران سے متعلق اس نے یہ رپورٹ دی کہ ان پر ایک عورت حکومت کر رہی ہے اور انداز کلام سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ عورت کی حکمرانی اس کی نظر میں ایک تعجب اگنیز امر ہے۔ ملک کے وسائل و ذرائع سے متعلق اس نے یہ رپورٹ دی کہ ادتیت من کل شی یعنی ملک کی رفاہیت و ترقی سے متعلق جو چیزیں ضروری ہیں وہ سب اس کو حاصل ہیں۔ ملکہ کی عظمت سے متعلق اس نے یہ رپورٹ دی کہ لھا عرش عظیم اس کا تخت بہت بڑا ہے۔ یہ امر محلوظ رہے کہ اس زمانے کے بادشاہوں کے تخت و تاج چونکہ سونے چاندی اور زرد جواہر سے آراستہ ہوتے تھے اس وجہ سے ان کی بڑائی بیشتر انہی چیزوں کی بڑائی سے ناپی جاتی تھی۔ ملک کی مذہبی و اخلاقی حالت سے متعلق اس نے یہ رپورٹ دی کہ ملکہ اور اس کی قوم کے لوگ سب آفتاب پرست ہیں اور یہ آفاتب پرستی اور ان کے دوسرے اعمال و اخلاق اس طرح شیطان نے ان کی نگاہوں میں کھبا دیئے ہیں کہ صحیح راہ توحید اور خدا پرستی کی راہ … ان کو سمجھائی نہیں دے رہی ہے۔
Top