Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 40
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کہاں يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے لیے غُلٰمٌ : لڑکا وَّقَدْ بَلَغَنِىَ : جبکہ مجھے پہنچ گیا الْكِبَرُ : بڑھاپا وَامْرَاَتِيْ : اور میری عورت عَاقِرٌ : بانجھ قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكَ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
اس نے کہا اے میرے رب میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، میں تو بوڑھا ہوچکا اور میری بیوی بھی بانجھ ہے ؟ فرمایا، اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
یہ سوال تعجب یا شک یا انکار کی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ یہ نہایت حسین وبلیغ انداز سے طلب تصدیق ہے۔ ان کے سامنے اس بشارت کے ظاہر ہونے میں جو رکاوٹیں تھیں وہ بیان کر کے حضرت زکریا نے چاہا کہ یہ تصریح کرا لیں کہ ان رکاوٹوں کے باوجود یہ بشارت ظاہر ہونے کی شکل یہ ہوگی۔ كَذٰلِكَ اللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ، یہ بات یوں ہی ہوگی۔ یعنی اللہ کا ارادہ یوں ہی ہے کہ یحییٰ کی ولادت بوڑھے باپ اور بانجھ ماں کے ہاں ہو۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہی ہے۔ اسباب تو محض ظاہر کا پردہ ہیں۔ اللہ چاہے تو پتھر کے اندر سے پانی چشمے جاری ہوسکتے ہیں اور صحرا کے سینے سے حباب اٹھ سکتے ہیں۔ قرآن میں اس قسم کا سوال و جواب حضرت ابراہیم ؑ کی سرگزشت میں بھی منقول ہے، اس کی نوعیت بھی بعینہ یہی ہے۔
Top