Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 78
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آپکڑا الرَّجْفَةُ : زلزلہ فَاَصْبَحُوْا : تو رہ گئے فِيْ : میں دَارِهِمْ : اپنے گھر جٰثِمِيْنَ : اوندھے
پس آپکڑا ان کو زلزلہ نے پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھر میں اوندھے پڑے
اور دوسری آیات میں فَاَخَذَتْهُمُ الصَیحَہ بھی آیا ہے صیحہ کے معنی ہیں چیخ اور شدید آواز۔ دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ دونوں طرح کے عذاب ان پر جمع ہوگئے تھے۔ زمین سے زلزلہ اور اوپر سے صیحہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ مصدر جثوم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں بےحس و حرکت ہو کر ایک جگہ پڑجانا یا بیٹھ رہنا (قاموس)۔ معنی یہ ہیں کہ جو جس حال میں تھا وہیں ڈھیر ہوگیا۔ نعوذ باللّٰہ۔
قوم ثمود کے اس قصہ کے اہم اجزاء تو خود قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں مذکور ہیں اور کچھ اجزاء روایات حدیث میں مذکور ہیں۔ کچھ وہ بھی ہیں جو مفسرین نے اسرائیلی روایات سے لئے ہیں مگر ان پر کسی واقعہ اور حقیقت کے ثبوت کا مدار نہیں۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ غزوہ تبوک کے سفر میں رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا گزر اس مقام حجر پر ہوا جہاں قوم ثمود پر عذاب آیا تھا۔ تو آپ نے صحابہ کرام کو ہدایت فرمائی کہ اس عذاب زدہ بستی کی زمین میں کوئی اندر نہ جائے اور نہ اس کے کنوئیں کا پانی استعمال کرے (مظہری)
اور بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قوم ثمود پر جب عذاب آیا تو ان میں بجز ایک شخص ابورغال کے کوئی نہیں بچا۔ یہ شخص اس وقت حرم مکہ میں پہنچا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حرم مکہ کے احترام کے سبب اس وقت اس کو عذاب سے بچا لیا اور بالآخر جب یہ حرم سے نکلا تو وہی عذاب جو اس کی قوم پر آیا تھا اس پر بھی آگیا اور یہیں ہلاک ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو مکہ سے باہر ابورغال کی قبر کا نشان بھی دکھلایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس کے ساتھ ایک سونے کی چھڑی بھی دفن ہوگئی تھی۔ صحابہ کرام نے قبر کھولی تو سونے کی چھڑی مل گئی وہ نکال لی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ طائف کے باشندے بنو ثقیف اسی ابورغال کی اولاد ہیں۔ (مظہری)
ان معذب قوموں کی بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کدے بنا کر قائم رکھا ہے اور قرآن کریم نے عرب کے لوگوں کو بار بار اس پر متنبہ کیا ہے کہ تمہارے سفر شام کے راستہ پر یہ مقامات آج بھی داستان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ (آیت) لم تسکن من بعدھم الا قلیلا،
قوم صالح ؑ کے واقعہ عذاب کے آخر میں ارشاد ہے (آیت) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّيْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِيْنَ یعنی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بعد حضرت صالح ؑ اور ان پر ایمان لانے والے مؤمنین بھی اس جگہ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت صالح ؑ کے ساتھ چار ہزار مؤمنین تھے ان سب کو لے کر یمن کے علاقہ حضرموت میں چلے گئے اور وہیں حضرت صالح ؑ کی وفات ہوئی اور بعض روایات سے ان کا مکہ معظمہ چلے جاتا اور وہیں وفات ہونا معلوم ہوتا ہے۔
ظاہر عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صلح ؑ نے چلتے وقت اپنی قوم کو خطاب کرکے فرمایا کہ اے میری قوم میں نے تم کو اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر افسوس تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے۔
یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ جب ساری قوم عذاب سے ہلاک ہوچکی تو اب ان کو خطاب کرنے سے کیا فائدہ۔ جواب یہ ہے کہ ایک فائدہ تو یہی ہے کہ اس سے لوگوں کو عبرت ہو اور یہ خطاب ایسا ہی ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے غزوہ بدر میں مرے ہوئے قریشی مشرکین کو خطاب کرکے کچھ کلمات ارشاد فرمائے تھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت صالح ؑ کا یہ فرمانا نزول عذاب اور ہلاکت قوم سے پہلے ہوا ہو اگرچہ بیان میں اس کو مؤ خر ذکر کیا ہے۔
Top