Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 34
وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ
وَلَا يَحُضُّ : اور نہیں ترغیب دیتا تھا عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ : اوپر مسکین کے کھلانے کے
اور نہ مسکینوں کو کھلانے پر لوگوں کو ابھارتا تھا۔
’وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ‘۔ یعنی نہ خود مسکینوں پر خرچ کرتا تھا اور نہ دوسروں کو اس نیکی کی راہ پر ابھارتا تھا۔ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ صرف یہی نہیں کہ خود اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے بلکہ ان کی خواہش اور کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ دوسرے بھی خرچ نہ کریں تاکہ ان کی بخالت کا راز افشاء نہ ہو۔ سورۂ ماعون میں یہی بات یوں فرمائی گئی ہے: ’فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ ۵ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ‘ (۲-۳) (پس وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے پر لوگوں کو نہیں ابھارتا)۔ البتہ آیت زیربحث میں یہ حقیقت بھی واضح فرما دی گئی ہے کہ جو لوگ دولت رکھتے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کو دھکے دیتے ہیں وہ درحقیقت خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتے اگرچہ ایمان کا دعویٰ وہ کتنی ہی بلند آہنگی سے کرتے ہوں۔ اسی طرح سورۂ ماعون میں ان لوگوں کی نماز کو بالکل بے حقیقت ٹھہرایا ہے جن کی خست کا یہ حال ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے معاملے میں بھی تنگ دلی برتتے ہیں اور ضرورت مندوں کو نہیں دیتے۔ فرمایا ہے: ’فَوَیْْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ۵ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ ۵ الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَاؤُوۡنَ ۵ وَیَمْنَعُوۡنَ الْمَاعُوۡنَ‘ (۴-۷) (پس ان نماز پڑھنے والوں کے لیے ہلاکی ہے جو اپنی نمازوں کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ جو دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں اور ضرورت کی معمولی چیزیں بھی مانگے نہیں دیتے)۔ ان دونوں مقامات پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جو شخص مال رکھتے ہوئے یتیموں اور مسکینوں کی مدد نہیں کرتا نہ اس کا ایمان معتبر ہے اور نہ اس کی نماز کا کوئی وزن ہے اگرچہ وہ ایمان کا بھی مدعی ہو اور نماز کی بھی نمائش کرتا ہو۔
Top