Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 154
وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ١ۖۚ وَ فِیْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ
وَ : اور لَمَّا : جب سَكَتَ : ٹھہرا (فرد ہوا) عَنْ : سے۔ کا مُّوْسَى : موسیٰ الْغَضَبُ : غصہ اَخَذَ : لیا۔ اٹھا لیا الْاَلْوَاحَ : تختیاں وَ : اور فِيْ نُسْخَتِهَا : ان کی تحریر میں هُدًى : ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو هُمْ : وہ لِرَبِّهِمْ : اپنے رب سے يَرْهَبُوْنَ : ڈرتے ہیں
اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہوا اس نے تختیاں اٹھائیں اور اس کے نوشتہ میں ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہوں
وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ښ وَفِيْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُوْنَ۔ سکت کے بعد عن کا صلہ اس بات پر دلیل ہے کہ ‘ ذال ’ یا اس کے کسی ہم معنی لفظ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب حضرت موسیٰ خاموش ہوئے اور ان کا غصہ دور ہوا۔ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ انہوں نے وہ تختیاں جو ایک طرف ڈال دی تھیں۔ پھر اٹھا لیں۔ اس سے ضمناً تورات کی اس غلط روایت کی تردید ہوگئی کہ تختیاں پھینکنے سے ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔ یہ واضح رہے کہ ان تختیوں کو اس طرح ڈال دینے میں ان کی ناقدری کا کوئی پہلو نہیں تھا بلکہ بنی اسرائیل نے اس نعمت گراں مایہ کی جو ناقدری کی تھی اس پر اظہار غم و غصہ تھا کہ تمہارے رب نے تو تمہارے لیے یہ توقیع سیادت و امامت بھیجا اور تم ہو کہ تم نے اس طرح اپنی ناک کٹوائی۔ وَفِيْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّرَحْمَةٌ۔ نسخہ کسی تحریر کی حرف حرف نقل کو بھی کہتے ہیں۔ اصل تورات چونکہ انہی الواح کی نقل تھی اس وجہ سے تورات کو ان کے نسخہ سے تعبیر فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ اس میں ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈریں۔ یہ دوسرے لفظوں میں وہی بات ہے جو قرآن سے متعلق ھدی للمتقین کے الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔ ہدایت و رحمت سے متعلق ہم دوسرے مقام میں عرض کرچکے ہیں کہ جب یہ دونوں لفظ ساتھ ساتھ آئیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ آغاز کے لحاظ سے ہدایت ہم اور انجام کے لحاظ سے رحمت دنیا کی زندگی میں یہ رہنما ہوگی اور آخرت میں خدا کی رحمت کا وسیلہ۔
Top