Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 28
وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ١ؕ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بیحیائی قَالُوْا : کہیں وَجَدْنَا : ہم نے پایا عَلَيْهَآ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا وَاللّٰهُ : اور اللہ اَمَرَنَا : ہمیں حکم دیا بِهَا : اس کا قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَاْمُرُ : حکم نہیں دیتا بِالْفَحْشَآءِ : بیحیائی کا اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو (لگاتے ہو) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور جب یہ لوگ کسی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہیں، کہتے ہیں، ہم نے تو اسی طریق پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور خدا نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ کہہ دو ، اللہ کبھی بےحیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم لوگ اللہ پر وہ تہمت جوڑتے ہو جس کے باب میں تم کو کوئی علم نہیں۔
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْهَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا ۭقُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ ۭاَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ قریش پر شیطان کا جال :۔ ان یاد دہانیوں کو سنانے کے بعد جو اولاد آدم کو کی گئی تھیں اب یہ قریش اور عربوں کا حال سنایا جا رہا ہے کہ کس طرح شیطان نے ان کو چکمہ دے کر اپنے جال میں پھنسا لیا ہے اور وہ اس کو اپنا دوست بنائے بیٹھے ہیں حالانکہ اس نے ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ کیا ہے جس طرح کا معاملہ ان کے باپ ماں۔ آدم و حوا۔ کے ساتھ کیا تھا۔ آدم و حوا کے کپڑے اس نے جنت میں اتوا لیے تھے، آدم کے ان بیٹوں اور حوا کی ان بیٹیوں کے کپرے اس نے حرم الٰہی میں اتروا لیے اور ستم یہ ہے کہ یہ اس کو اپنے باپ دادا کی روایت اور خدا کی ہدایت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ خدا کی ہدایت نہیں بلکہ شیطان کا فتنہ ہے اور اس طرح اس نے یہ چاہا ہے کہ جس طرح اس نے آدم کو جنت سے نکلوایا اسی طرح ان کو ننگا کر کے اس حرم پاک سے بےدخل کرائے۔ وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْهَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا۔ ‘ فاحشہ ’ اس کھلی ہوئی بےحیائی کو کہتے ہیں جس کو اندھوں اور احمقوں کے سوا سب بےحیائی قرار دیں۔ ہمارے مفسرین نے یہاں اس سے وہ بدعت مراد لی ہے جو خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرنے کی عرب جاہلیت میں رواج پا گئی تھی۔ مفسرین کا یہ خیال صحیح معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عرب جاہلیت کی بےحیائیوں میں سے یہی بےحیائی ہے جس کو وہ جیسا کہ وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا کے الفاظ سے واضح ہے، حکم شریعت کا درجہ دیتے تھے۔ اگرچہ قریش خود تو اپنے آپ کو اس سے بالاتر رکھے ہوئے تھے لیکن دوسروں کے لیے، مرد ہوں یا عورتیں، انہوں نے اس عریانی کو عبادت قرار دے رکھا تھا۔ ان کا فتوی یہ تھا کہ قریش سے باہر کے عرب اپنے کپڑوں میں خانہ کعبہ کا طواف نہ کریں۔ یا تو وہ قریش میں سے کسی سے اس کام کے لیے کپڑے مستعار لیں ورنہ ننگے طوف کریں۔ گویا دوسروں کے کپڑے آلائش دنیا اور زینت دنیا میں داخل ہیں جس سے اس عبادت کی حرمت کو بٹہ لگ جاتا ہے۔ یہ اسی طرح کی عیاشی اور نفس پروری کی ایک مکروہ شکل تھی جس کی بیشمار مثالیں مندروں اور کلساؤں کی تاریخ میں ملتی ہیں اور جو تمام تر ان کے پروہتوں اور پجاریوں کی شیطنت سے وجود میں آئیں لیکن ان کو مذہبی تقدس کا درجہ دے دیا گیا۔ مزارات کے مجاوروں نے بھی اس معاملے میں شیطان کا بہت ہاتھ بٹایا ہے۔ اس بدعت کا نتیجہ یہ ہوا کہ طواف جیسی مقدس عبادت فساق و فجار کی نظر بازیوں اور شرارتوں کی جو لاں گاہ بن گئی اور حرم کی نظر بازیوں کی لذیذ و رنگین داستانیں ان کی فاسقانہ شاعری میں بھی نمایاں ہوئیں جن کو پڑھیے تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ شیطان نے حرم میں گھسنے کے لیے کیسا مقدس مذہبی لبادہ اختیار کیا، کس کامیابی کے ساتھ اس نے اللہ کی سب سے بڑی عبادت کو اپنی عبادت میں تبدیل کردیا لیکن کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی کہ کیا سے کیا ہوگیا۔ یہ ہے اس حقیقت کا ایک پہلو جو اوپر انہ یراکم ھو وقبیلہ من حیث لاترونہم میں بیان ہوئی ہے۔rnۭقُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ ۭاَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ یہ تردید ہے اوپر والی بات کی کہ تم اس بےحیائی اور بےشرمی کو خدا کا حکم قرار دیتے ہو، خدا کبھی بےحیائی و بےشرمی کا حکم نہیں دیتا۔ خدا کے احکام، اس کی صفات اور انسان کی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ جب اس کی صفات میں کوئی صفت بھی ایسی نہیں جو اس بےحیائی کو گوارا کرسکے تو وہ اس کا حکم کس طرح دے سکتا ہے ؟ پھر جب اس نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ بدو شعور سے لے کر مرتے دم تک وہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسروں کے سامنے عریاں ہو تو وہ اسی انسان کو یہ حکم کس طرح دے سکتا ہے کہ وہ عین اس کے حرم میں ساری خدائی کے سامنے ننگا ہوجائے اور ننگے ہو کر اس کے آگے بھیرے لگائے ! آخر خدا اور اس کی پاکیزہ صفات، انسان اور اس کی سلیم فطرت کے ساتھ اس بیہودہ حرکت کا کیا جوڑ ہے ؟ خدا پر ایسی بےہودہ تہمت کیوں لگاتے ہو ؟ مالا تعلمون، یعنی ایسی بات جو بالکل بےسند اور بےدلیل ہے۔
Top