Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 28
وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ١ؕ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بیحیائی قَالُوْا : کہیں وَجَدْنَا : ہم نے پایا عَلَيْهَآ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا وَاللّٰهُ : اور اللہ اَمَرَنَا : ہمیں حکم دیا بِهَا : اس کا قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَاْمُرُ : حکم نہیں دیتا بِالْفَحْشَآءِ : بیحیائی کا اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو (لگاتے ہو) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور جب کرتے ہیں کوئی برا کام تو کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا اسی طرح کرتے اپنے باپ دادوں کو اور اللہ نے بھی ہم کو یہ حکم کیا ہے، تو کہہ دے کہ اللہ حکم نہیں کرتا برے کام کا کیوں لگاتے ہو اللہ کے ذمہ وہ باتیں جو تم کو معلوم نہیں
خلاصہ تفسیر
اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں (یعنی ایسا کام جس کی برائی کھلی ہوئی ہو اور انسانی فطرت اس کو برا سمجھتی ہو، جیسے ننگے ہو کر طواف کرنا) تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ داد کو اسی طریق پر پایا ہے اور (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے بھی ہم کو یہی بتلایا ہے (اے رسول اللہ ﷺ ان کے جاہلانہ استدلال کے جواب میں) آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فحش کام کی کبھی تعلیم نہیں دیتا، کیا (تم ایسا دعویٰ کرکے) خدا کے ذمہ ایسی باتیں لگاتے ہو جس کی تم کوئی سند نہیں رکھتے، آپ ﷺ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (تم نے جن فحش اور غلط کاموں کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے وہ تو غلط ہے، اب وہ بات سنو جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے واقعی طور پر دیا ہے وہ یہ ہے کہ) میرے رب نے تو حکم دیا ہے انصاف کرنے کا، اور یہ کہ تم ہر سجدہ (یعنی عبادت) کے وقت اپنا رخ سیدھا (اللہ کی طرف) رکھا کرو (یعنی کسی مخلوق کو اس کی عبادت میں شریک نہ کرو) اور اللہ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھا کرو (اس مختصر جملہ میں تمام مامورات شرعیہ اجمالاً آگئے، قسط میں حقوق العباد، اقیموا میں اعمال وطاعت، مخلصین میں عقائد) تم کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم (ایک وقت) پھر دوبارہ پیدا ہوگے، بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے (دنیا میں) ہدایت کی ہے، (ان کو اس وقت جزاء ملے گی) اور بعض پر گمراہی کا ثبوت ہوچکا ہے (ان کو سزا ملے گی) ان لوگوں نے شیطانوں کو اپنا رفیق بنا لیا، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اور (باوجود اس کے پھر اپنی نسبت) خیال رکھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں، اے اولاد آدم تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت (نماز کے لئے ہو یا طواف کے لئے) اپنا لباس پہن لیا کرو اور (جس طرح ترک لباس گناہ تھا، ایسے ہی حلال چیزوں کے کھانے پینے کو ناجائز سمجھنا بھی بڑا گناہ ہے، اس لئے حلال چیزوں کو) خوب کھاؤ اور پیو اور حد شرعی سے مت نکلو، بیشک اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے حد سے نکل جانے والوں کو

معارف و مسائل
اسلام سے پہلے جاہلیت عرب کے زمانہ میں شیطان نے لوگوں کو جن شرمناک اور بیہودہ رسموں میں مبتلا کر رکھا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قریش کے سوا کوئی شخص بیت اللہ کا طواف اپنے کپڑوں میں نہیں کرسکتا تھا، بلکہ یا وہ کسی قریشی سے اس کا لباس عاریت کے طور پر مانگے یا پھر ننگا طواف کرے۔
اور ظاہر ہے کہ سارے عرب کے لوگوں کو قریش کے لوگ کہاں تک کپڑے دے سکتے تھے، اس لئے ہوتا یہی تھا کہ یہ لوگ اکثر ننگے ہی طواف کرتے تھے، مرد بھی عورتیں بھی، اور عورتیں عموماً رات کے اندھیرے میں طواف کرتی تھیں، اور اپنے اس فعل کی شیطانی حکمت یہ بیان کرتے تھے کہ ”جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کئے ہیں انہی کپڑوں میں بیت اللہ کے گرد طواف کرنا خلاف ادب ہے اور عقل کے اندھے یہ نہ سمجھتے تھے کہ ننگے طواف کرنا اس سے زیادہ خلاف ادب اور خلاف انسانیت ہے، صرف قریش کا قبیلہ بوجہ خدام حرم ہونے کے اس عریانی کے قانون سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا“۔
آیات مذکورہ میں پہلی آیت اسی بیہودہ رسم کو مٹانے اور اس کی خرابی کو بتلانے کے لئے نازل ہوئی ہے، اس آیت میں فرمایا کہ جب یہ لوگ کوئی فحش کام کرتے تھے تو جو لوگ ان کو اس فحش کام سے منع کرتے تو ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ ہمارے باپ دادا اور بڑے بوڑھے یونہی کرتے آئے ہیں، ان کے طریقہ کو چھوڑنا عار اور شرم کی بات ہے، اور یہ بھی کہتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (ابن کثیر)
اس آیت میں فحش کام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک یہی ننگا طواف ہے اور اصل میں فحش، فحشاء، فاحشہ ہر ایسے برے کام کو کہا جاتا ہے جس کی برائی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو، اور عقل و فہم اور فطرت سلیمہ کے نزدیک بالکل واضح اور کھلی ہوئی ہو (مظہری) اور اس درجہ میں حسن و قبح کا عقلی ہونا سب کے نزدیک مسلّم ہے (روح)
پھر ان لوگوں نے اس بیہودہ رسم کے جواز کے لئے دو دلیلیں پیش کیں، ایک تقلید آبائی کہ باپ داداوں کا اتباع کوئی معقول چیز نہیں، ذرا سی عقل و ہوش رکھنے والا انسان بھی اس کو سمجھ سکتا ہے، کہ کسی طریقہ کے جواز کی یہ کوئی دلیل نہیں ہوسکتی کہ باپ دادا ایسا کرتے تھے، کیونکہ اگر کسی طریقہ اور کسی عمل کی صحت اور جواز کے لئے باپ داداوں کا طریقہ ہونا کافی سمجھا جاوے تو دنیا میں مختلف لوگوں کے باپ دادا مختلف اور متضاد طریقوں پر عمل کیا کرتے تھے اس دلیل سے تو دنیا بھر کے سارے گمراہ کن طریقے جائز اور صحیح قرار پاتے ہیں، غرض ان جاہلوں کی یہ دلیل کچھ قابل توجہ تھی، اس لئے یہاں قرآن کریم نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور دوسری روایات میں اس کا بھی جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر باپ دادا کوئی جہالت کا کام کریں تو وہ کس طرح قابل تقلید و اتباع ہوسکتا ہے۔
دوسری دلیل ان لوگوں نے اپنے ننگے طواف کے جواز پر یہ پیش کی کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ہی ایسا حکم دیا ہے، یہ سراسر بہتان اور حق تعالیٰ کے حکم کے خلاف اس کی طرف ایک غلط حکم کو منسوب کرنا ہے، اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا(آیت) قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بالْفَحْشَاۗءِ یعنی آپ ﷺ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی فحش کام کا حکم نہیں دیا کرتے، کیونکہ ایسا حکم دینا حکمت اور شان قدوسی کے خلاف ہے، پھر ان لوگوں کے اس بہتان و افتراء علی اللہ اور باطل خیال کو پوری طرح ادا کرنے کے لئے ان لوگوں کو اس طرح تنبیہ کی گئی، ۭاَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ، یعنی کیا تم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب کرتے ہو جس کا تم کو علم نہیں، یعنی جس کے یقین کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی حجت نہیں، اور ظاہر ہے کہ بلا تحقیق کسی شخص کی طرف بھی کسی کام کو منسوب کرنا انتہائی دلیری اور ظلم ہے تو اللہ جل شانہ کی طرف کسی نقل کی ایسی غلط نسبت کرنا کتنا بڑا جرم اور ظلم ہوگا، حضرات مجتہدین آیات قرآنی سے بذریعہ اجتہاد جو احکام نکالتے اور بیان کرتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں، کیونکہ ان کا استخراج قرآن کے الفاظ و ارشادات سے ایک حجت کے ماتحت ہوتا ہے۔
Top