Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 69
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ١ؕ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةً١ۚ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
اَوَعَجِبْتُمْ : کیا تمہیں تعجب ہوا اَنْ : کہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آئی ذِكْرٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب عَلٰي : پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْكُمْ : تم میں سے لِيُنْذِرَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں ڈرائے وَاذْكُرُوْٓا : اور تم یاد کرو اِذْ : جب جَعَلَكُمْ : اس نے تمہیں بنایا خُلَفَآءَ : جانشین مِنْۢ بَعْدِ : بعد قَوْمِ نُوْحٍ : قوم نوح وَّزَادَكُمْ : اور تمہیں زیادہ دیا فِي : میں الْخَلْقِ : خلقت ٠ جسم بَصْۜطَةً : پھیلاؤ فَاذْكُرُوْٓا : سو یاد کرو اٰلَآءَ : نعمتیں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (کامیابی) پاؤ
کیا تمہیں یہ بات عجیب لگی کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی یاد دہانی تمہیں میں سے ایک شخص کے واسطہ سے پہنچی تاکہ وہ تمہیں ہوشیار کرے اور یاد کرو جب کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور جسمانی اعتبار سے تمہیں وسعت و کشادگی عطا فرمائی تو اللہ کی شانوں کو یاد رکھو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ، قوم نوح کے بعد عاد کو خالفت دیے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو بعینہ اسی علاقے میں اقتدار حاصل ہوا جس میں قوم نوح کو حاصل ہوا۔ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ قوم نوح بالکل شمال میں تھی اور عاد کا علاقہ عرب کا جنوبی علاقہ تھا۔ اس خلافت کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح قوم نوح کو اقتدار و تمکن حاصل ہوا اسی طرح ان کے بعد تم کو حاصل ہوا۔ اس یاد دہانی میں حضرت ہود نے قوم کو اللہ تعالیٰ کا احسان بھی یاد دلایا ہے اور ان کو تنبیہ بھی فرمائی ہے احسان تو واضح ہے کہ جو تمکن و اقتدار قوم نوح کو حاصل تھا وہ ان کو حاصل ہوا اور تنبیہ یہ ہے کہ جب تم قوم نوح کے اقتدار کے وارث ٹھہرائے گئے ہو تو ان کی سرگزشت اور ان کے انجام کو بھی یاد رکھو۔ اگر تم نے انہی کی روش اختیار کی تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ جس انجام سے وہ دو چار ہوئے تم اس انجام سے بچ جاؤ۔ خدا کا قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔ وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً۔ خلق کے معنی یہاں ساخت کے ہیں۔ مثلاً ولامرنہم فلیغیرن خلق اللہ (نساء :11) (میں ان کو سجھاؤں گا پس وہ خدا کی بنائی ہوئی ساخت کو مسح کریں گے۔ ’ ساخت ‘ سے مراد ظاہر ہے کہ باطنی اور ظاہر دونوں ہی ساخت ہے اسلیے کہ شیطان کے ایما سے مشرکوں نے اپنی فطرت کو بھی مسخ کیا اور اپنے بتوں کی خوشنودی کے لیے، جیسا کہ قرآن مجید میں اشارہ ہے، چوپایوں کے کان بھی کاٹے۔ بسطۃ، اور بصطۃ دونوں ایک ہی لفظ ہے۔ اس کے معنی کشادگی، وسعت اور پھیلاؤ کے ہیں۔ ظاہری اور باطنی دونوں اعتبار سے تفوق و برتری عطا فرمائی۔ عرب کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد صحت جسمانی کے اعتبار سے بھی نمایاں تھی اور اپنے عقلی کارناموں کے اعتبار سے بھی اس کی بڑی دھاک تھی۔ بقرہ میں طالوت کے متعلق فرمایا ہے۔ وزادہ بسطۃ فی العلم والجسم، وہی بات یہاں زادکم فی الخلق بصطۃ سے تعبیر ہوئی۔ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ الاء، جمع ہے اِلیٰ ، اَلَی، اَلی کی۔ اس کے معنی عام طور پر اہل لغت نے نعمت کے لیے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کے معنی کرشمہ، شان، کارنامہ اور اعجوبہ کے ہیں۔ ہمارے استاد مولانا فراہی ؒ نے اپنی کتاب، مفردات القرآن، میں اس لفظ کی تحقیق بیان کی ہے۔ انہوں نے مشہور شعرائے جاہلیت کے دس شعر نقل کیے ہیں جن سے وہی معنی نکلتے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔ حضرت ہود کی یہ بات بھی اپنے اندر امتنان اور تنبیہ دونوں ہی کے پہلو رکھتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے تمہیں جن جسمانی و عقلی قوتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے ان کی قدر کرو، ان کا شکر ادا کرو، ان کے سبب سے فتنے میں نہ پڑو۔ خدا کی شانوں، عظمتوں اور قدرتوں کو یاد رکھو۔ یہی راستہ فلاح کا راستہ ہے۔ اگر تم نے اکڑ دکھائی تو یاد رکھو، خدا کی پکڑ بھی بڑی ہی سخت ہے۔
Top