Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 10
اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا
اِنَّا نَخَافُ : بیشک ہمیں ڈر ہے مِنْ : سے رَّبِّنَا : اپنا رب يَوْمًا : اس دن کا عَبُوْسًا : منہ بگاڑنے والا قَمْطَرِيْرًا : نہایت سخت
ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے اندیشہ ناک ہیں جو نہایت عبوس اور سخت ترش رو ہوگا۔
یوم آخرت کی صفت یہاں ’عَبُوس‘ اور ’قَمْطَرِیْر‘ آئی ہے۔ ’عَبُوس‘ کے معنی ترش رو اور روکھے پھیکے کے ہیں۔ ’قَمْطَرِیْر‘ اسی مضمون کی شدت کے اظہار کے لیے بطور تاکید آیا ہے یعنی وہ دن ایسا اکھڑ، اکل کُھرا اور ترش مزاج ہو گا کہ اس میں کوئی بھی کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں بنے گا۔ اس دن سابقہ ہر ایک کو اپنے اعمال سے پیش آئے گا۔ خدا کی رحمت صرف انہی لوگوں کی طرف متوجہ ہو گی جنھوں نے اس کی رضا جوئی میں مسکینوں اور یتیموں کی سرپرستی اور ہمدردی کی ہو گی اور اپنی ضروریات نظر انداز کر کے ان کی احتیاج پوری کرنے پر اپنا مال صرف کیا ہو گا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ بات وہ قولاً ہر اس شخص سے کہیں بھی جس کی مدد کریں بلکہ یہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ان کے انفاق کے باطنی محرک کی تعبیر ہے کہ وہ جن حاجت مندوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں صرف للہ وفی اللہ خرچ کرتے، اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت کے خوف کے سوا کوئی اور غرض ان کے سامنے نہیں ہوتی۔
Top