Tafseer-e-Mazhari - Al-Insaan : 10
اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا
اِنَّا نَخَافُ : بیشک ہمیں ڈر ہے مِنْ : سے رَّبِّنَا : اپنا رب يَوْمًا : اس دن کا عَبُوْسًا : منہ بگاڑنے والا قَمْطَرِيْرًا : نہایت سخت
ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے (جو چہروں کو) کریہہ المنظر اور (دلوں کو) سخت (مضطر کر دینے والا) ہے
انا نخاف من ربنا . اطعام کی پہلی علت لوجہ اللہ تھی اور یہ دوسری علت ہے گویا حرف عطف اور حرف جر کو حذف کر کے لوجہ اللہ پر عطف کردیا گیا ہے ‘ اصل کلام یوں تھا : نطعمکم طمعًا و خوفًا من اللہ۔ یعنی اللہ کی خوشنودی اور ثواب کی طلب میں اور اللہ کے عذاب و غضب کے خوف سے ہم تم کو کھانا کھلاتے ہیں۔ من ربّنا کا معنی ہے : من عذاب ربّنا یعنی ہم اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یوما عبوسا قمطریرا . اس دن کے عذاب سے جو عبوس اور قمطریر ہوگا۔ عبوس ‘ ترشرو ‘ تیوری پر بل ڈالا ہوا آدمی۔ یہ یوم کی صفت مجازاً ہے جیسے نھارہ صائمٌ۔ اس کا دن روزہ دار ہے یعنی وہ دن میں روزہ دار ہے (پس دن کے تیوری پر بل پڑنے کا معنی ہوا کہ اس دن غم و رنج کی وجہ سے سب لوگ ترش رو ہوں گے) قمطریر ‘ سخت ترش رو۔ کلبی کا یہی قول ہے۔ اخفش نے کہا سب سے زیادہ سخت اور طویل دن۔ قاموس میں ہے قمطریر کا معنی ہے شدید۔ اِقْمَطَرَّ ۔ شدید ہوگیا۔ اِقْمَطَرَّ نَفْسُہٗ ۔ اس نے ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ترقی کی۔
Top