Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 10
اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا
اِنَّا نَخَافُ : بیشک ہمیں ڈر ہے مِنْ : سے رَّبِّنَا : اپنا رب يَوْمًا : اس دن کا عَبُوْسًا : منہ بگاڑنے والا قَمْطَرِيْرًا : نہایت سخت
ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے جو (چہروں کو) کری المنظر اور (دلوں کو) سخت (مضطر کردینے والا ہے)
(76:10) انا نخاف من ربنا : اطعام لہ پہلی علت لوجہ اللہ تھی۔ یہ دوسری علت ہے گویا حرف عطف اور حرف جر کو حذف کرکے لوجہ اللہ پر عطف کردیا گیا ہے۔ اصل کلام یوں تھا :۔ نطعمکم طمعا وخوفا من اللہ یعنی اللہ کی خوشنودی اور ثواب کی طلب میں اور اللہ کے عذاب اور غضب کے خوف سے ہم تم کو کھانا کھلاتے ہیں۔ من ربنا کا معنی ہے من عذاب ربنا یعنی ہم اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یوما عبوسا قمطریرا : یوما منصوب بوجہ مفعول فیہ ہونے کے یا بوجہ ظرفیت کے ” یہ عذاب اس دن ہوگا “ یا اس دن کے عذاب سے۔ جو عبوس اور قمطریر ہوگا۔ عبوسا قمطریرا دونوں بوجہ یوما کی صفت کے منصوب ہیں۔ عبوسا : منہ بنانے والا۔ تیوری چڑھانے والا۔ ترش رو، سخت، منہ بگاڑ دینے والا۔ عبس وعبوس سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ قرآن پاک میں یہ یوما کی صفت واقع ہوا ہے۔ علامہ احمد فیومی نے مصباح میں لکھا ہے کہ :۔ عبد الیوم کے معنی ہیں دن کے سخت ہونے کے۔ اس اعتبار سے یوم عبوس کے معنی سخت دن کے ہیں۔ اور قاموس میں یوما عبوسا کی تشریح میں لکھا ہے :۔ ای کریھا تعبس منہ الوجوہ۔ ایسا مکروہ دن کہ جس سے منہ بگڑ جائیں علامہ خازن نے تصریح کی ہے کہ :۔ یوم کو جو عبوس سے موصوف کیا ہے یہ مجاز ہے جس طرح کہ نھارہ صائم بولتے ہیں اور اس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے کہ جس نے اس دن کا روز ہ رکھا ہے۔ غرض مطلب یہ ہوا کہ اس دن میں لوگوں کے چہرے اس کے ہول اور شدت سے بگڑ جائیں گے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ :۔ چونکہ اس دن میں سختی اور شدت ہے اس لئے اس کو عبوس سے موصوف کیا گیا ہے۔ قمطریرا : مصیبت اور رنج کا بہت طویل دن۔ (یعنی روز قیامت) اصل محاورے میں قمطرت الناقۃ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹنی دم اٹھا کر ناک چڑھا کر، منہ بنا کر مکروہ شکل اختیار کرلے۔ اسی معنی کی مناسبت سے ہر مکروہ، برے۔ رنج وہ دن کے لئے استعمال ہونے لگا۔ اصل مادہ فطر ہے۔ م زائدہ ہے۔ جملہ سابقہ کی طرح یہ جملہ بھی حالیہ ہے۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ ہم ڈرتے ہیں اس روز کے اللہ کے عذاب سے جو بڑا ترش اور سخت ہے۔
Top