Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 10
اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا
اِنَّا نَخَافُ : بیشک ہمیں ڈر ہے مِنْ : سے رَّبِّنَا : اپنا رب يَوْمًا : اس دن کا عَبُوْسًا : منہ بگاڑنے والا قَمْطَرِيْرًا : نہایت سخت
بیشک ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے سخت دن کا اندیشہ رکھتے ہیں جو بہت ہی تلخ ہوگا،
﴿اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا 0010﴾ (یہ بھی اللہ کے نیک بندوں کا قول ہے، وہ قیامت کے دن کا استحضار رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے رب سے سخت دن کا اندیشہ رکھتے ہیں یعنی ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ قیامت کے سخت دن میں اللہ تعالیٰ ہماری گرفت نہ فرمائے۔ لفظ عبوس فعول کے وزن پر ہے جس کا معنی منہ بگاڑنا اور ناراضگی اور ترش روئی کے ساتھ پیش آنا ہے۔ اور قمطریر بھی تقریباً اسی معنی میں ہے لیکن یہ بہت زیادہ منہ بگاڑنے پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ قرطبی نے حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ عبوس وہ ہے جو ہونٹوں سے منہ بگاڑے اور قمطریر وہ ہے جو پیشانی سے اور بھنوؤں سے چہرہ بگاڑ کر سامنے آئے قیامت کے دن کو عبوساً اور قمطریرا دونوں صفات سے متصف فرمایا ہے اس لیے عبوس کا ترجمہ سخت اور قمطریرا کا ترجمہ تلخ کیا گیا ہے۔
Top