Tafheem-ul-Quran - Al-Anfaal : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَآ : تحقیق البتہ ہم نے دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم رُشْدَهٗ : ہدایت یابی (فہم سلیم) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور ہم تھے بِهٖ : اس کے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے۔ 53
سورة الْاَنْبِیَآء 53 " ہوشمندی " ہم نے " رشد " کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں " صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا "۔ اس مفہوم کے لحاظ سے " رشد " کا ترجمہ " راست روی " بھی ہوسکتا ہے، لیکن چونکہ رشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اس راست روی کو ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقل سلیم کے استعمال کا، اس لیے ہم نے " ہوش مندی " کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے۔ " ابراہیم کو اس کی ہوش مندی بخشی " یعنی جو ہوش مندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کردہ تھی۔ " ہم اس کو خوب جانتے تھے "، یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیا آدمی ہے، اس لیے ہم نے اس کو نوازا اللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ " اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے " (الانعام، آیت 124)۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سرداران قریش کے اس اعتراض کی طرف جو وہ نبی ﷺ پر کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اس شخص میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے دیا گیا ہے۔ یہاں صرف اس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہوسکتا تھا، پوچھا جاسکتا تھا کہ سارے ملک عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیت ہے، اس لیے ان کی پوری قوم میں سے ان کو اس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت پاک کے مختلف پہلو اس سے پہلے سورة بقرہ آیات 124 تا 141۔ 258۔ 260 الانعام، آیات 74 تا 81 جلد دوم۔ التوبہ آیت 114۔ ھود۔ آیات 69 تا 76۔ ابراہیم آیات 35 تا 41۔ الحجر آیات 15 تا 60۔ النحل، آیات 120 تا 133 میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہوگا۔
Top