Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 89
اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو اَتَى اللّٰهَ : اللہ کے پاس آیا بِقَلْبٍ : دل سَلِيْمٍ : پاک
بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔“ 65
سورة الشُّعَرَآء 65 ان دو فقروں کے متعلق یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کا حصہ ہیں یا انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ اگر پہلی بات مانی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ کے لیے یہ دعا کرتے وقت خود بھی ان حقائق کا احساس رکھتے تھے۔ اور دوسری بات تسلیم کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی دعا پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے کام اگر کوئی چیز آسکتی ہے تو وہ مال اور اولاد نہیں بلکہ صرف قلب سلیم ہے، ایسا دل جو کفر و شرک و نافرمانی اور فسق و فجور سے پاک ہو۔ مال اور اولاد بھی قلب سلیم ہی کے ساتھ نافع ہو سکتے ہیں، اس کے بغیر نہیں۔ مال صرف اس صورت میں وہاں مفید ہوگا جبکہ آدمی نے دنیا میں ایمان و اخلاص کے ساتھ اسے اللہ کی راہ میں صرف کیا ہو، ورنہ کروڑ پتی اور ارب پتی آدمی بھی وہاں کنگال ہوگا۔ اولاد بھی صرف اسی حالت میں وہاں کام آسکے گی جبکہ آدمی نے دنیا میں اسے اپنی حد تک ایمان اور حسن عمل کی تعلیم دی ہو، ورنہ بیٹا اگر نبی بھی ہو تو وہ باپ سزا پانے سے نہیں بچ سکتا جس کا اپنا خاتمہ کفر و معصیت پر ہوا ہو اور اولاد کی نیکی میں جس کا اپنا کوئی حصہ نہ ہو۔
Top