Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 45
وَ لٰكِنَّاۤ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ١ۚ وَ مَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا١ۙ وَ لٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ
وَلٰكِنَّآ : اور لیکن ہم نے اَنْشَاْنَا : ہم نے پیدا کیں قُرُوْنًا : بہت سی امتیں فَتَطَاوَلَ : طویل ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان کی، ان پر الْعُمُرُ : مدت وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے ثَاوِيًا : رہنے والے فِيْٓ : میں اَهْلِ مَدْيَنَ : اہل مدین تَتْلُوْا : تم پڑھتے عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتِنَا : ہمارے احکام وَلٰكِنَّا : اور لیکن ہم كُنَّا : ہم تھے مُرْسِلِيْنَ : رسول بنا کر بھیجنے والے
بلکہ اُس کے بعد (تمہارے زمانے تک)ہم بہت سی نسلیں اُٹھا چکے ہیں اور اُن پر بہت زمانہ گُزر چکا ہے۔62 تم اہلِ مَدیِن کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ اُن کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے،63 مگر (اُس وقت کی یہ خبریں) بھیجنے والے ہم ہیں
سورة القصص 62 یعنی تمہارے پاس ان معلومات کے حصول کا براہ راست کوئی ذریعہ نہیں تھا، آج جو تم ان واقعات کو دو ہزار برس سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد اس طرح بیان کر رہے ہو کہ گویا یہ سب تمہارا آنکھوں دیکھا حال ہے، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ سے تم کو یہ معلومات بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ سورة القصص 63 یعنی جب حضرت موسیٰ مدین پہنچے، اور جو کچھ وہاں ان کے ساتھ پیش آیا، اور دس سال گزار کر جب وہ وہاں سے روانہ ہوئے، اس وقت تمہارا کہیں پتہ بھی نہ تھا، تم اس وقت مدین کی بستیوں میں وہ کام نہیں کر رہے تھے جو آج مکہ کی گلیوں میں کر رہے ہو۔ ان واقعات کا ذکر تم کچھ اس بنا پر نہیں کر رہے ہو کہ یہ تمہارا عینی مشاہدہ ہے، بلکہ یہ علم بی تم کو ہماری وحی کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوا۔
Top