Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور ہمیں نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت و شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو۔ تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس۔ کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا۔
(7:11) صورناکم۔ ماضی جمع متکلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ صور یصور (باب تفعیل) تمہاری شکل و صورت بنائی۔ یہاں خطاب تو حاضرین کو ہے لیکن مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں یعنی ہم نے آدم کو پیدا کیا اس کو اچھی صورت بخشی اور پھر مرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ اسلوب بیان قرآن میں عام ہے مثلاً حضور ﷺ کے ہمعصر یہودیوں کو فرمایا گیا واذ نجینکم من ال فرعون (2:49) اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دلائی۔ اس میں حالانکہ خطاب رسول اکرم کے زمانہ کے یہودیوں سے ہے لیکن مراد ان کے اسلاف ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہو گزرے تھے۔
Top