Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 22
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١٘ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ
وَلَمَّا : اور جب رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومنوں نے دیکھا الْاَحْزَابَ ۙ : لشکروں کو قَالُوْا : وہ کہنے لگے ھٰذَا : یہ ہے مَا وَعَدَنَا : جو ہم نے کو وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ ۡ : اور اس کا رسول وَمَا : اور نہ زَادَهُمْ : ان کا زیادہ کیا اِلَّآ : مگر اِيْمَانًا : ایمان وَّتَسْلِيْمًا : اور فرمانبرداری
اور سچّے مومنوں  (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ 36)جب تم نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو  پُکار اٹھے کہ”یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی37۔“اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپُردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ 38
سورة الْاَحْزَاب 36 رسول ﷺ کے نمونے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ صحابۂ کرام کے طرز عمل کو نمونے کے طور پر پیش فرماتا ہے تاکہ ایمان کے جھوٹے مدعیوں اور سچے دل سے رسول ﷺ کی پیروی اختیار کرنے والوں کا کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں پوری طرح نمایاں کردیا جائے۔ اگرچہ ظاہری اقرار ایمان میں وہ اور یہ یکساں تھے۔ مسلمانوں کے گروہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا اور نمازوں میں دونوں شریک ہوتے تھے۔ لیکن آزمائش کی گھڑی پیش آنے پر دونوں ایک دوسرے سے چھٹ کر الگ ہوگئے اور صاف معلوم ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے مخلص وفادار کون ہیں اور محض نام کے مسلمان کون۔ سورة الْاَحْزَاب 37 اس موقع پر آیت نمبر 12 کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہاں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ منافق اور دل کے روگی تھے انہوں نے دس بارہ ہزار کے لشکر کو سامنے سے اور بنی قریظہ کو پیچھے سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو پکار پکار کر کہنے لگے کہ " سارے وعدے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہم سے کیے تھے محض جھوت اور فریب نکلے کہا تو ہم سے یہ گیا تھا کہ دین خدا پر ایمان لاؤ گے تو خدا کی تائید تمہاری پشت پر ہوگی، عرب و عجم پر تمہارا سکہ رواں ہوگا، اور قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے لیے کھل جائیں گے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ سارا عرب ہمیں مٹا دینے پر تل گیا ہے اور کہیں سے فرشتوں کی وہ فوجیں آتی نظر نہیں آرہیں جو ہمیں اس سیلاب بلا سے بچا لیں۔ " اب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں کا ایک مطلب تو وہ تھا جو ان جھوٹے مدعیان ایمان نے سمجھا تھا۔ دوسرا مفہوم وہ ہے جو ان صادق الایمان مسلمانوں نے سمجھا۔ خطرات امنڈتے دیکھ کر اللہ کے وعدے تو ان کو بھی یاد آئے، مگر یہ وعدے نہیں کہ ایمان لاتے ہی انگلی ہلائے بغیر تم دنیا کے فرمانروا ہوجاؤ گے اور فرشتے آ کر تمہاری تاجپوشی کی رسم ادا کریں گے، بلکہ یہ وعدے کہ سخت آزمائشوں سے تم کو گزرنا ہوگا، مصائب کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑیں گے، گراں ترین قربانیاں تمہیں دینی ہوں گی، تب کہیں جا کر اللہ کی عنایات تم پر ہوں گی اور تمہیں دنیا اور آخرت کی وہ سرفرازیاں بخشی جائیں گی جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے اَمْ حَسِبْتُمْ اَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ۔ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ مَتٰی نَصْرُاللہِ۔ ط۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ (البقرہ۔ آیت 214) کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں بس یونہی داخل ہوجاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی وہ حالات تو تم پر گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکے ہیں۔ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد۔۔ سنو، اللہ کی مدد قریب ہے۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوُلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ (العنکبوت 2۔ 3) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر وہ چھوڑ دیے جائیں گے کہ " ہم ایمان لائے " اور انہیں آزمایا نہ جائیگا ؟ حالانکہ ہم نے ان سب لوگوں کو آزمایا ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ سورة الْاَحْزَاب 38 یعنی اس سیلاب بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے، اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کے حوالے کردینے پر آمادہ ہوگئے۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑجاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے، یا کسی چیز سے منع کرتا ہے، یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہوگی، اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کرلینے سے مومن و مسلم ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھہری رہتی ہو، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہوجائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھن جتنی بڑھتی چلی جائے، ایمان اسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے۔ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ، یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں، اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ ان اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابوحنیفہ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لا یزید ولا ینقص، " ایمان کم و بیش نہیں ہوتا "۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد 2، الانفال، حاشیہ 2، جلد پنجم، الفتح، حاشیہ 7۔
Top