Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر ِواقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟79 ( مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے رہے) اور ہم ان کےدِلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سُنتے۔80
سورة الْاَعْرَاف 79 یعنی ایک گرنے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم اٹھتی ہے اس کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ وہ اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدّت پہلے جو لوگ اسی جگہ داد عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا رہا تھا انہیں فکر وعمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا، اور یہ بھی محسوس کرسکتی ہے کہ جس بالا تر اقتدار نے کر انہیں ان کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور ان سے یہ جگہ خالی کرالی تھی، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے، نہ اس سے کسی نے یہ مقدرت چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجودہ ساکنین اگر وہی غلطیاں کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ ان سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کرا سکے گا جس طرح اس نے ان سے خالی کرائی تھی۔ سورة الْاَعْرَاف 80 یعنی جب وہ تاریخ سے اور عبرتناک آثار کے مشاہدے سے سبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خود بھلاوے میں ڈالتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے بھی انہیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا کا قانون فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اس کی بینائی تک آفتاب روشن کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی اور جو خود نہیں سننا چاہتا اسے پھر کوئی کچھ نہیں سنا سکتا۔
Top