Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جن (تعلقات) کو جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ (آخرکار) نقصان اٹھائیں گے۔
[23] اللہ کے عہد سے مراد اس کا وہ مستقل فرمان ہے جس کی رو سے تمام انسانوں پر اس کی بندگی عائد ہوتی ہے اور مضبوط باندھ لینے سے اشارہ '' عہدالست '' کی طرف ہے جو روز ازل تمام نوع انسانی سے اس فرمان کی پابندی کا لیا گیا تھا۔ ملاحظہ ہو سورة اعراف آیت 172 صفحہ 273۔ [24] جن تمدنی و معاشرتی روابط و تعلقات پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے اور جسے درست رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے انہیں یہ لوگ کاٹتے ہیں۔ [25] قرآن کی اصطلاح میں زمین میں فساد برپا کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ زمین کا نظم و نسق اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کے مطابق چلانے کی بجائے اس کو من مانے طریقے پر چلایا جائے۔ اس زمین کا اصلی حکمران اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کی حیثیت اس کے نائب کی سی ہے لہذا زمین کے امن کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں اللہ کا ہی قانون چلے۔ اگر اس کے کسی حصے میں اللہ کا قانون نافذ نہیں ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس حصے میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے اور یہ چیز پوری زمین کے لئے خطرہ ہے۔
Top