Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو توڑتے ہیں اللہ کے عہد کو اس کے پختہ کرنے کے بعد اور جو قطع کرتے ہیں ان (تعلقات اور رشتوں) کو جن کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور وہ فساد پھیلاتے ہیں (اللہ کی) زمین میں یہی لوگ ہیں خسارے والے
85 اللہ کے عہد سے مراد اور اس کا عموم ؟ : " عَہْدُ اللّٰہ ِ " سے مراد ہر وہ عہد ہے جسکی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو، اور اس لفظ کا عموم ایسے سب ہی عہدوں اور وعدوں کو شامل ہے جو اس وحدہ لا شریک کے واسطے سے کئے گئے ہوں، خواہ وہ انسان نے اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ سے کئے ہوں، جیسے عہد فطرت اور عہد اَلَست اور عہد ایمان و اسلام، وغیرہ، اور خواہ وہ عہد ہوں جو انسان نے کسی دوسرے انسان سے اللہ کے نام پر کئے ہوں۔ سو اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کے نام پر باندھے گئے ان عہدوں کو توڑنا اور ان کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر من مانی کرنا ان فاسقوں، بدکاروں کا ہمیشہ کا طریقہ و وطیرہ رہا ہے۔ کل بھی یہی تھا، اور آج بھی یہی ہے، جیسا کہ آج کل بوسنیا ہر زگوینا کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں پر سرب قوم کی طرف سے توڑے جانے والے کھلے اور ہولناک مظالم کی شکل میں ہو رہا ہے، اور دن دیہاڑے اور حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی استعماری قوتوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، مگر کوئی نہیں جو ظالم سربوں کو روکے، اور ان کے ہاتھوں کو توڑے، اور ان سے پوچھے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ اور مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، اور قلب یورپ میں واقع اس چھوٹے سے ملک میں صدیوں سے رہتے بستے آرہے ہیں۔ بس ابنائ کفر و باطل یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ان کا خاتمہ کردیا جائے اور کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے یورپ سے حق و صداقت کے اس ٹمٹماتے چراغ کو بھی کسی طرح گل کردیا جائے، تاکہ کفر و شرک، اور الحادو زندقہ، کے اندھیرے اور گہرے ہوجائیں، اور یورپین ممالک کی حیوانیت سافرہ کو اپنی انا کی تسکین کے لئے ننگا ناچ ناچنے میں کہیں سے کوئی خطرہ و قدغن نہ ہو، اور اسلام کی نورانی کرنیں جو مختلف اطراف و جہات سے مادہ پرستی اور خواہشات نفس کی پیروی کے اس ظلمت کدے پر پڑ رہی ہیں، وہ وہاں پر پڑنے نہ پائیں، اور ان مسلمانوں کو یورپ کے اندر کوئی مستقر اور ٹھکانا میسر نہ آئے ۔ { وَیَاْبَی اللّٰہُ الاَّ اَنْ یُتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ } ۔ فَاِیَّاکَ نَسْأَلُ اللّٰہُمَّ وَنَتَضَرَّعُ اَنْ تَنْصُرَ الاِسْلاَمَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ کُلّ مَکَانٍ وَ فِیْ کُلّ زَمَان، مِنُ مَشَارِق الاَرْض وَمَغَارِبِہَا ۔ فَاَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَیْکَ التُّکَلاَنُ اَنْتَ رَبُ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ وَاَنْتَ عَلٰی کُلّ شَیْئٍ قَدِیْر۔ 86 رشتوں اور تعلقات کے جوڑنے کا حکم : یہاں بھی کلمہ " ما " کا عموم ایسے سب ہی علائق کو عام اور شامل ہے جن کو ملانا اور قائم رکھنا مطلوب و مقصود ہے، جن میں سب سے پہلا علاقہ وتعلق انسان کا اپنے رب سے ہے، کیونکہ وہ اس کا خالق ومالک اور مُنِعم و وَہَّاب ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، تسلیم کرے یا نہ کرے، حقیقت حال بہرکیف یہی ہے کہ انسان کے جسم کے اندر اور اس سے باہر اس پوری کائنات میں پھیلی ہوئی جو بےحد و حساب نعمتیں ہیں، یہ سب کی سب اسی وَحْدَہٗ لا شَرِیْکَ کی بخشی ہوئی ہیں، جو اس نے اپنے کرم لا محدود اور احسان لامتناہی سے انسان کو بخشی ہیں، اور انسان کی طرف سے کسی اپیل و درخواست کے بغیر اس نے ازخود اس کو بخشی ہیں، بلکہ ان میں سے کتنی ہی بےحدو حساب نعمتیں ایسی ہیں جن کا انسان کو علم و ادراک بھی نہیں، اور وہ ان سے برابر مستفید ہو رہا ہے، کیا اس کے اس کرم و احسان کا کوئی ٹھکانہ اور کنارہ ہوسکتا ہے ؟ . سبحانہ وتعالی اس لئے سب سے پہلا، سب سے بڑا، اور سب سے مقدم حق، اسی وحدہ لا شریک کا ہے، اور وہ ہے اس کی محبت اور اطاعت و بندگی، جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہ } ۔ کہ سچے اور پکے ایمان والوں کو سب سے زیادہ محبت اللہ پاک ہی سے ہوتی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پھر اس کے بعد دوسرا علاقہ وتعلق ہے انسان کا اپنے رسول اکرم ﷺ سے، جنہوں نے آکر انسان کو رب سے ملایا، اسے اپنے رب کی صحیح پہچان کرائی، اور اس کو حیوانیت محضہ اور نفسانیت بحتہ کے قعر مذلّت سے نکال کر اس کو اشرف المخلوقات ہونے کے اعلے مقام اور شرف و امتیاز سے آگہی بخشی، اور اس کو دوزخ کے کنارے سے ہٹا کر جنت کی نعمتوں تک پہنچایا ۔ صَلَوَات اللّٰہ وَسَلامُہٗ عَلَیْہ وَعَلٰی اٰلِہ الاَطْہَار وَاَصْحَابِہ الاَخْیَار، مَا تَعَاقَبَ اللَّیْلُ وَ النَّہَارُ ۔ پھر اس کے بعدانسان کے خود اپنے والدین کے حقوق و تعلقات ہیں، اور پھر دوسرے رشتہ داروں وتعلق داروں اور عام انسانوں کے حقوق و تعلقات ہیں۔ سو ان سب کو قائم رکھنا اور درجہ بدرجہ ان کی رعایت و پاسداری کرنا سب کلمہ " ما " کے اس عموم میں داخل ہے، (ابن کثیر، محاسن التاویل، صفوۃ التفا سیر، روح المعانی، اور المنار، وغیرہ وغیرہ) ۔ سو ان تمام تعلقات کو قائم کرنا مومن صادق سے مطلوب ہے اور ان کو قطع کرنا، فاسقوں اور بدکاروں کا کام ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 87 دین حق سے روگردانی فساد فی الارض والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرمایا دیا گیا کہ اللہ کے دین سے منہ موڑنا فساد فی الارض ہے : کہ ایسے لوگ اللہ کے دین اور اس کے احکام سے منہ موڑ کر، بلکہ ان کے خلاف چل کر اور اعلانیہ اور برملا چل کر، اللہ کی زمین میں فساد پھیلاتے اور اس کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ اللہ پاک جو کہ خالق ومالک حقیقی ہے، اس کے احکام واوامر سے منہ موڑ کر بغاوت و سرکشی کی راہ پر چلنا ہی در اصل منبع ہے فتنہ و فساد اور خرابی و تباہی کا۔ سو کوئی مانے یا نہ مانے اور تسلیم کرے یا نہ کرے، حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اللہ کے دین حق کی تعلیمات مقدسہ کو صدق دل سے اپنانا اصلاح ہے، اور ان سے منہ موڑنا اور انحراف برتنا فساد اور تباہی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور جو لوگ دین حق کی دعوت دیتے اور مخلوق کو خالق سے ملانے اور اس کے آگے جھکانے کی سعی کرتے ہیں وہی ہیں اصلاح کرنے والے، اور دنیا کو صحیح راہ پر ڈالنے والے اور انکے محسن ۔ اللہ ان کو اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں سے نوازے اور ان کو اعداء و اَشرار کے شرور سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین۔ 88 نور حق سے محرومی قطعی خسارہ ۔ والعیاذ باللہ : سو نور حق و ہدایت سے محروم لوگ قطعی طور پر خسارے میں ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ مزرعہ دنیا (دنیا کی اس کھیتی) سے آخرت کی حقیقی اور دائمی سعادت، اور فوز و فلاح کی دولت کمانے کی بجائے انہوں نے الٹا اپنی بغاوت و سرکشی اور بےراہ روی، و نفس پرستی کی بناء پر عقل سلیم کے جوہر، اور فطرت مستقیم کے اصل سرمایہ اور راس المال ہی کو ضائع کردیا، سو اس سے بڑھ کر خسارہ و نقصان اور کیا ہوسکتا ہے ؟ کہ یہ دنیا بھی گئی اور آخرت بھی گئی، اور دنیا و آخرت دونوں کا یہ خسارہ سب سے بڑا اور کھلم کھلا خسارہ ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { خَسِرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃ، ذٰالِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمبُِیْن } ۔ ( سورة الحج : 1 1) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ ایسا خسارہ ہے کہ اس کی پھر تلافی وتدارک بھی ممکن نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اسی لیے یہاں پر اس کو حصر کے اسلوب میں بیان فرمایا گیا ہے کہ مبتدا و خبر دونوں معرفہ ہیں۔ اور ان دونوں کے درمیان ضمیر فصل واقع ہے۔ اور یہ اسلوب حصر و قصر کا اسلوب ہے۔ پس اس کا ترجمہ اور مطلب یہ ہوگا کہ ایسے ہی لوگ ہیں خسارے والے۔ اور جب نور حق و ہدایت سے محرومی ایسا ہولناک خسارہ ہے تو پھر کیا ٹھکانا ہوسکتا ہے ان بدبختوں کا جو راہ حق و ہدایت سے روکنے اور نور حق کو بجھانے کی کوششیں کرتے اور اس کی لیے وہ طرح طرح کے ابلیسی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے پوری دنیا میں ہو رہا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top