Taiseer-ul-Quran - An-Noor : 12
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور دیہاتیوں 103 میں سے کچھ بہانہ ساز آئے کہ انہیں بھی (جہاد سے) رخصت دی جائے اور وہ لوگ بھی بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان دیہاتیوں میں سے جنہوں نے کفر (کاطریقہ اختیار) کیا، عنقریب انہیں دردناک سزا ملے گی
103 بہانے تراشنے والے بدوی منافقین :۔ مدینہ کے آس پاس آباد ہونے والے لوگوں کو اعراب یا بدوی (یعنی دیہاتی) کہا جاتا تھا۔ ان میں بھی منافقین کا عنصر موجود تھا۔ اس آیت میں ایسے ہی منافقوں کا ذکر ہے جو جہاد کے اعلان سے پہلے تو بلند بانگ دعوے کرتے تھے مگر وقت آنے پر اپنے عہد سے پھرگئے اور مدینہ کے منافقوں کی طرح بہانے تراش کر جہاد سے رخصت مانگنے لگے تھے۔ اگلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو فی الواقع معذور ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان کا عذر کس شرط کے تحت قابل قبول سمجھا جاسکتا ہے۔
Top