Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 90
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور صحرا نشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عذر کرتے ہوئے (تمہارے پاس) آئے کہ ان کو بھی اجازت دی جائے۔ اور جنہوں نے خدا اور اس کے رسول ﷺ سے جھُوٹ بولا وہ (گھر میں) بیٹھ رہے۔ سو جو لوگ ان میں سے کافر ہوئے انکو دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا۔
آیت نمبر 90 تا 93 ترجمہ : اور آئے عذر کرنے والے آپ ﷺ کے پاس عرب کے کچھ بدو، اصل میں تاء کو ذال میں اور ادغام کر کے یعنی مُعْتَذِرُوْنَ میں ( اور معتذرون) معنی میں معذورین کے ہے، اور ایک قراءت میں معتذرون بھی پڑھا گیا ہے تاکہ ان کو (مدینہ ہی میں) بیٹھ رہنے کی اجازت مل جائے ان کے عذر کی وجہ سے چناچہ ان کو اجازت دے دی گئی، اور بدو منافقین میں سے جنہوں نے دعوائے ایمان میں اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی وہ تو عذر کرنے سے بھی بیٹھ گئے (یعنی عذر کرنے بھی نہ آئے) ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان کو دردناک عذاب لاحق ہوگا اور کمزوروں مثلاً بوڑھے اور مریضوں پر مثلاً اندھے اور اپاہج پر اور ان لوگوں پر جن کو جہاد کا خرچ میسر نہ ہو جہاد سے پیچھے رہ جانے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خلوص رکھیں یعنی (گھر) بیٹھ رہنے کی صورت میں فتنہ پردازی نہ کریں اور لوگوں کو جہاد سے نہ روکیں اور اطاعت میں لگے رہیں، ان نیکوکاروں پر اس بیٹھ رہنے کی وجہ سے کوئی الزام کی راہ نہیں ہے (مؤاخذہ نہیں) اور اللہ ان کو معاف کرنے والا ہے اس معاملہ میں ان کو وسعت دے کر ان پر رحم کرنے والا ہے اسی طرح ان لوگوں پر بھی کوئی الزام عائد نہیں ہوتا جو آپ کے پاس آئے تاکہ آپ ان کو سواریاں بہم پہنچا کر اپنے ساتھ غزوہ میں لے چلیں اور وہ سات انصاری تھے اور کہا گیا ہے کہ بنو مقرن کے لوگ تھے آپ نے ان سے کہہ دیا کہ میرے پاس سواریاں نہیں ہیں اور قُلْتَ ، اتوکَ کی ضمیر سے حال ہے تو وہ (مجبوراً ) واپس چلے گئے حال یہ کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے من بیانیہ ہے اور انہیں اس بات کا بڑا غم تھا کہ انہیں وہ (وسعت) میسر نہیں کہ جس کو جہاد میں خرچ کریں، البتہ الزام ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں پھر بھی آپ سے پیچھے رہنے کی درخواست کرتے ہیں، انہوں نے گھر بیٹھے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا ہے، اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اس لئے اب یہ کچھ جانتے نہیں ہیں ایسی ہی آیت سابق میں گذر چکی ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد : قولہ : اَلْمُعَذِّرُوْنَ (تَعْذیر، تفعیل سے) اسم فاعل جمع مذکر، جھوٹا عذر پیش کرنے والے، مفسر علام نے مُعَذِّرُون، کی اصل معتذرون بتا کر اشارہ کردیا کہ مُعَذِّرونَ باب افتعال سے ہے، اس وقت اس کے معنی ہوں گے حقیقت میں معذور، المعذّرون کو باب افتعال سے قرار دینے کے دو مقصد ہیں اول یہ کہ باب تفعیل متعدی ہوتا ہے حالانکہ یہاں غیر متعدی استعمال ہوا ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ مُعَذِّرُوْنَ باب افتعال ہی سے ہے اس میں تاء کو ذال سے بدل کر ذال کو ذال میں ادغام کردیا گیا ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دوسرے یہ شبہ بھی دفع ہوگیا کہ عَذّرَ (تفعیل) کے معنی ہیں جھوٹا عذر ظاہر کرنا، حالانکہ آنے والے حقیقت میں معذور تھے اس شبہ کو المعتذرون بمعنی معذورین کا ذکر آگے جملہ '' وقَعَدَ الّذین کذبوا '' الخ میں آرہا ہے۔ قولہ : الزّمنٰی یہ زمانہ سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہیں اپاہج، عاجز۔ ٍقولہ : اِرجَاف، افواہ پھیلانا، فتنہ پردازی کرنا مومنوں میں بری خبر کی اشاعت کرنا۔ قولہ : بعدمِ الارجاف، نصحوا، کے متعلق ہے۔ قولہ : التثبیط، روکنا، باز رکھنا۔ قولہ : والطاعةِ ، اس کا عطف عدم الا رجاف پر ہے نہ کہ ارجاف پر لہٰذا اب معنی درست ہوگئے۔ قولہ : حال یعنی قلت لا اجدُ ، اَتَوْکَ کے کاف سے تقدیر قد کے ساتھ حال ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ ماضی بغیر قد کے حال واقع نہیں ہوتا۔ تفسیر وتشریح وَجَائَ المعذِّ رون من الاعراب الخ، ان معذرین کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور ہنے والے وہ اعرابی تھے جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی، ان میں دوسری قسم وہ تھی جنہوں نے آپ کی خدمت میں آکر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی، اور بیٹھے رہے، اس طرح آیت میں گویا منافقین کے دو گروہوں کا تذکرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں، اور منھم سے بھی دونوں گروہ مراد ہیں، اور دوسرے مفسرین نے مُعَذِّ رُونَ سے بادیہ نشین (بدوی) مسلمان مراد لئے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت چاہی تھی، اور مُعَذِّرُوْنَ ان کے نزدیک اصل میں مُعْتَذِرُوْنَ تھا تاء کو ذال کر کے ذال کو ذال میں مدغم کردیا گیا ہے اور مُعْتَذِر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا، اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے، پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے میں ان منافقین کا جو بغیر عذر پیش کئے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصہ میں جو وعید ہے وہ اسی دوسرے گروہ کے لئے ہے۔ یہ عذر بیان کرنے والے کون تھے : مفسرین کا اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے عذر کیا تھا بعضوں نے کہا کہ یہ لوگ قبیلہ بنی اسد اور غطفان کے لوگ تھے انہوں نے یہ عذر کیا تھا کہ ہمارے اہل و عیال ہیں جن کے لئے ہمیں بڑی محنت ومشقت کرنی پڑتی ہے آپ ہمیں گھر پر رہ جانے کی اجازت دے دیں اور بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ عامر بن طفیل کے قبیلے کے یہ لوگ تھے انہوں نے آپ ﷺ سے آکر یہ بات کہی تھی کہ اگر ہم آپ کے ساتھ چلیں اور شریک غزوہ ہوجائیں تو ہمارے بیوی بچے اور مویشی اکیلے رہ جائیں گے اور قبیلہ بنی طے کے بدّو آکر ہمارے پیچھے انہیں برباد کردیں گے اور سب مال لوٹ کرلے جائیں گے، آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ خیر خدا نے میرے لئے تمہاری ضرورت نہیں رکھی ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ قبیلہ غفار کے چند لوگوں نے کہا تھا، صحیح قول یہ ہے کہ اطراف مدینہ میں چند قبیلے رہتے تھے ان میں سے بعضے لوگ جھوٹے عذر بیان کر کے اور بعضے بغیر عذر بیان کئے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے اور اس غزوہ میں لشکر اسلام کا ساتھ نہیں دیا۔ شان نزول : لَیْس علی الضعفاء ولا علی المرضیٰ الخ تفسیر ابن ابی حاتم اور مغازی محمد بن اسحاق میں زید بن ثابت کی روایت سے ان آیات کا جو شان نزول بیان کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ توانا وتندرست اور مالدار لوگ جو بلا کسی معقول عذر کے شریک غزوہ نہیں ہوئے تھے جب مذکورہ آیات میں ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خفگی اور وعید ظاہر کی گئی تو ناتواں بوڑھے، بیمار اور ایسے مفلس صحابہ کہ جن کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ سواری اور زادراہ کا خرچ برداشت کرسکیں، اور آنحضرت ﷺ کے ہم رکاب ہو سکیں، وہ لوگ بہت ہراساں ہوئے کہ شاید ہم لوگ بھی اس خفگی اور وعید میں داخل ہیں تو ان کی تسکین کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ صحیح بخاری میں انس بن مالک اور صحیح مسلم میں جابر بن عبدا للہ کی روایتیں موجود ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بہت سے ہمارے ساتھ مدینہ میں ایسے ہیں کہ ہر کام میں گویا ہمارے ساتھ ہیں جو راستہ ہم نے طے کیا ہے انہوں نے بھی گویا وہی راستہ طے کیا ہے اس لئے کہ عذر کے سبب وہ ہمارے ساتھ نہیں آسکے، ایسے معذورین سے اللہ تعالیٰ نے سرزنش اٹھا لی ہے، مگر اس کے ساتھ ایک شرط بھی لگا دی ہے کہ اس طرح کا معذور آدمی گھر بیٹھے کوئی فساد کی ایسی بات نہ نکالے جس سے معلوم ہو کہ وہ دین کا خیر خواہ نہیں ہے۔ شان نزول : وَلا علی الّذین اِذَا مَا اَتَوْکَ ، صحیح بخاری میں ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے اس آیت کا جو شان نزول معلوم ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابو موسیٰ اشعری اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے شرکت جہاد کے لئے سواری کی درخواست کی اس وقت آپ کسی وجہ سے غصہ میں میں تھے آپ نے سواری دینے سے قسم کھا کر انکار کردیا اس وجہ سے ابو موسیٰ اشعری اور ان کے ساتھ بچشم گریاں اور بدل بریاں مایوس ہو کر واپس چلے گئے، اتنے میں آپ ﷺ کے پاس مال غنیمت کے کچھ اونٹ آگئے، تو آپ نے ان لوگوں کو واپس بلایا اور چھ اونٹ ان کو عنایت فرمائے، جب یہ لوگ اونٹ لے کر واپس چلے گئے تو ان کو راستہ میں خیال آیا کہ شاید آپ ﷺ کو اپنی قسم یاد نہیں رہی، واپس چل کر آپ کو قسم یاد لانی چاہیے چناچہ یہ لوگ واپس آئے اور آپ کو قسم یاد دلائی تو آپ نے فرمایا، جائو تمہیں اللہ نے سواری دے دی، میں جب قسم کھاتا ہوں اور جس کام پر وہ قسم ہو اس کام سے بہتر اگر کوئی کام مجھے نظر آئے تو قسم کا کفارہ دے کر میں اس کام کو کرلیتا ہوں۔ (احسن التفاسیر) بلاغة : لِتَحْمِلَھُمْ ، محاورہ میں اس کے معنی ہیں کہ آپ ان کے لئے سواری کا انتظام کردیں، احملنی ای اعطنی ظھرًا ارکبَہ۔ (تاج) اَعْیُنُھم تفیض من الدمع، یہ طرف زیادہ بلیغ ہے یفیض دمعھا سے اس لئے کہ اس میں آنکھ ہی کو بہتا آنسو بنادیا ہے یہ زید عدل کے قبیل سے ہے۔ اِنَّما السَبِیْلُ علی الَّذِیْن یَسْتأذنونکَ الخ اوپر کی آیات میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو اپاہج، بوڑھے، ضعیف، معذور، مریض یا مفلس ہونے کے سبب غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے، اور ان لوگوں کو معذور قرار دے کر یہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ سرزنش کے قابل نہیں، ان آیتوں میں فرمایا کہ اصل سرزنش کے قابل وہ لوگ ہیں جو ہٹے کٹے اور دولتمند ہونے کے باوجود اللہ کے رسول کا ساتھ چھوڑ کر گھروں میں بیٹھے رہے۔
Top