بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الف۔ لام۔ را ۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں مضبوط کی گئیں پھر کھول کر واضح کردی گئیں یہ اس کی طرف سے ہے جو حکمت والا ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے
حروف مقطعات ان حروف کو کہتے ہیں جو حرف حرف کر کے پڑھے جائیں 1 ؎ قرآن کریم میں کل انتیس سورتیں ہیں جن کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوتی ہیں اور حروف مقطعات میں کل چودہ حروف ہیں جو استعمال ہوئے ہیں اور ان کی تفصیل ہم نے سورة البقرہ ہی کی ابتداء میں کردی ہے بار بار بحث کی ضرورت نہیں اس لئے سورة البقرہ کی پہلی آیت ہی کی طرف مراجعت کریں۔ اس کی آیتیں مضبوط بھی ہیں اور کھول کر بیان بھی کی گئی ہیں 2 ؎ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مضبوط ہیں اس لئے کہ ان کے ساتھ دلائل و شواہد موجود ہیں اور یہ کہ ان میں کسی طرح کا خلل اور نقص موجود نہیں اور نہ ہی ممکن ہے اور فصلت تفصیل سے ہے یعنی ان کا مدعا اتنا واضح کردیا گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا التباس نہیں مختصر یہ کہ یہ کتاب الفاظ اور عبارت کے لحاظ سے نہایت پختہ ہے اس میں کوئی کمی اور خامی و نقص موجود نہیں اور معنی کے لحاظ سے بھی ہر قسم کے شک و التباس سے پاک ہے یعنی صورتا ً اور معنا ً درجہ کمال پر فائز ہے اور ان دونوں باتوں کیلئے اس کا چیلنج موجود ہے جس کا کوئی جواب تھا ، ہے اور نہ ہوگا ۔ اس میں یہ استحکام اور تفصیل کہاں سے آئی ؟ فرمایا یہ اس ذات اقدس کی طرف سے آئی جو اپنی بات اور کام دونوں میں پکا ہے اور وہ حکیم بھی ہے ، علیم بھی ، اس کتاب میں اس نے جا بجا گزشتہ دعوتوں ، گزشتہ قوموں کے ایام و وقائع کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر ہر جگہ جب مقام ایک خاص موعظت اور خاص استدلال ہے ازاں جملہ یہ سورت ہے جس کے مضامین بیان کئے جا رہے ہیں جس میں نوح (علیہ السلام) سے لے کر موسیٰ (علیہ السلام) تک کی گزشتہ دعوتوں کی سر گزشتیں بیان کی گئی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ترتیب بھی تاریخی ہے یعیہ جس دعوت کا ذکر جس دعوت کے بعد کیا گیا ہے وہی اس کی تاریخی جگہ ہے۔ ان مضامین کے اعتبار سے سورة اعراف کے بعد سب سے بڑی سورت ہے۔ یہ کتاب اس ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہرچیز سے با خبر ہے 3 ؎ کتاب کیا ہے ؟ فرمان شاہی ہے اور اس کے نازل کرنے والا صحیح معنوں میں اس کا مستحق ہے کہ اس کو شہنشاہ کہا جائے جس کو ہماری زبان میں بادشاہوں کا بادشاہ کہا جا ات ہے۔ اس کی باتوں میں صرف لفاظی ، خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں بلکہ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اس کی ہر بات واضح ، ہر بات فصیح اور غیر مبہم ہے کیونکہ اس کے نازل کرنے والا حکیم کل بھی ہے اور ہرچیز کی کنہہ و حقیقت سے با خبر بھی ۔ اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے بیک وقت ایک مبتدی اور عالم مستفید ہو سکتے ہیں اور ہر ایک کی ضرورت یکسانیت کے ساتھ وہ پوری کرتی ہے اور اس کے نازل کرنے والے کے نزدیک سارے انسانوں کی پہلی ضرورت توحید الٰہی کا پیغام ہے۔
Top