Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 11
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ١ۚ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ
لَهٗ : اس کے مُعَقِّبٰتٌ : پہرے دار مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ : اس (انسان) کے آگے سے وَ : اور مِنْ خَلْفِهٖ : اس کے پیچھے سے يَحْفَظُوْنَهٗ : وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُغَيِّرُ : نہیں بدلتا مَا : جو بِقَوْمٍ : کسی قوم کے پاس (اچھی حالت) حَتّٰى : یہاں تک کہ يُغَيِّرُوْا : وہ بدل لیں مَا : جو بِاَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں (اپنی حالت) وَاِذَآ : اور جب اَرَادَ : ارادہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِقَوْمٍ : کسی قوم سے سُوْٓءًا : برائی فَلَا مَرَدَّ : تو نہیں پھرنا لَهٗ : اس کے لیے وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ وَّالٍ : کوئی مددگار
انسان کے آگے اور پیچھے ایک کے بعد ایک آنے والی قوّتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتی ہیں اللہ کبھی اس حالت کو نہیں بدلتا جو کسی گروہ کو حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ خود ہی اپنی حالت نہ بدل ڈالے اور جب اللہ چاہتا ہے کسی گروہ کو مصیبت پہنچے تو کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کا کارساز ہو
انسان کے آگے پیچھے آنے والی قوتوں کا بیان اور ان کی حفاظت 20 ؎ ” انسان کے آگے اور پیچھے ایک کے بعد ایک آنے والی قوتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتی ہیں “۔ ” معقبت معقبہ “ کی جمع ہے یہ اس جماعت کو کہتے ہیں جو کسی دوسری جماعت کے پیچھے آئے اور متصل آئے۔ “ ” من بین یدیہ “ کے لفظی معنی ہیں دونوں ہاتھوں کے درماین مراد انسان کی سامنے کی طرف ہے۔ ” ومن خلفہ “ پیچھے کی جانب ” من امر اللہ “ ای بامر اللہ یعنی اللہ کے حکم سے۔ مطلب یہ ہے کہ شکم مادر میں قطرہ آپ سے لے کر انسان کامل بننے تک جتنے تغیرات ہوئے وہ ہمارے مقرر کئے ہوئے اندازے کے مطابق ہوئے وہ سب ہمارے علم میں ہیں ت۔ ہر انسان کی استعداد سمجھ اپنی اپنی ہے کچھ ہیں کہ وہ اشاروں ہی اشاروں میں سب کچھ سمجھ جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جن کی انگلی اوپر رکھ کر بتایا جاتا ہے تو ذرا اوپر گزرنے کے بعد نہ انگلی یاد رہتی ہے نہ وہ جگہ ان سب کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہے اور ایک بات کو سب تک برابر برابر سمجھانا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی تمثیل ہی سے سمجھائی جائے گی ورنہ ان کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔ اسلام نے ہر بات اس انداز سے کرنا مناسب جانا ہے جس سے ہر طرح کے سارے انسان اس کو بآسانی سمجھ لیں۔ ایک اللہ کے بندے کو اس بات کا یقین دلانا کہ اللہ جو احکم الحاکمین ہے وہ سب کا محافظ و نگہبان ہے اور کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں پھر جب وہ محافظ و نگہبان ہوگا تو اس کو زیادہ فکر نہ کرنی چاہئے کہ میرا کیا حال ہوگا ؟ کچھ نہیں ہوگا اور جو کچھ ہوگا وہ وہی ہوگا جو اس نے چاہا یہ بات ایسی ہے کہ ہر انسان کی سمجھ میں نہیں آتی تو اس کیلئے ایک تمثیلی رنگ اختیار کیا گیا جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ فرمایا انسان جب اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو ہمارے پہرہ دار اس کے نیک و بد اعمال کی نگرانی کرتے ہیں اور اس کا ہر قول و فعل ریکارڈ کرلیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اگر وہ اپنے جرائم کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گا تو یہ نوشتہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور پھر اس کو مجال انکار نہیں رہے گی۔ پھر جب اللہ کے بندے کوئی ایسا کام ہی نہیں کرتے جو قانون الٰہی کی گرفت میں آئے تو ان کو آخر کوئی گرفت کرے گا کیوں ؟ جو لوگ اپنی حفاظت کیلئے دس دس آدمیوں کو رکھتے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے ہیں دراصل وہ اپنے کئے کے باعث اور اپنے اعمال کے نتائج کیلئے کر رہے ہیں جو انہوں نے خود سرانجام دیئے ورنہ اس بکھیڑے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اچھا جنہوں نے آدمیوں کو اپنی حفاظت کیلئے مقرر کیا وہ ہمیشہ محفوظ رہے اور کبھی وہ موت سے دوچار نہیں ہوئے ؟ پھر جب وہ بھی مر رہے ہیں تو ان کی حفاظت نے کتنا کام کیا ؟ اللہ نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو نہ ہو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا 21 ؎ ” اللہ کبھی اس حالت کو نہیں بدلتا جو کسی گروہ کو حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ خود ہی اپنی صلاحیت نہ بدل ڈالے “۔ لازم اور ملزم کیا ہے ؟ یہی کہ ایک چیز دوسری کے ساتھ لازم قرار دی جائے جیسا کہ عمل کے ساتھ نتیجہ ۔ فرمایا عمل اور صلاحیت عمل کا قانون الٰہی ہے اور یہی ایک کے بعد ایک آنے والی قوتیں ہیں جو حکم الٰہی سے انسان کی حفاظت کرتی ہیں جن سے اس کا حال پیدا ہوتا ہے اور پھر حال کے اعمال ہیں جو اس کا مستقبل بناتے ہیں۔ اس کی مزید تشریح اس طرح فرمائی کہ اللہ نے آج تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلی جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے۔ گویا اصل میں اس بارے میں خود انسان کا اپنا عمل ہے وہ جیسی حالت چاہے اپنے مل اور صلاحیت عمل سے حاصل کرلے۔ فرض کرو کہ ایک قوم بدحال ہے وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرلیتی ہے جس سے خوش حالی پیدا ہو سکتی ہے تو قانون الٰہی یہ ہے کہ یہ تبدیلی فوراً اس کی حالت بدل دے گی اور بدحالی کی جگہ خوش حالی آجائے گی اور اس طرح خوشحالی سے بدحالی کا تغیر بھی سمجھ لینا چاہئے۔ یہی وہ ہے کہ جب کوئی قوم صفحہ ہستی میں ابھرتی ہے تو اس میں ابھرنے کی ساری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اور وہ ان صلاحیتوں سے کام لیتیے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ابھرتی چلی جاتی ہے۔ یہی حال صدر اول میں اسلام کا ہوا تھا کہ دراصل ” داعی الی الحق “ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اٹھے اور اس حالت کو بدلنے کیلئے مہم شروع کی جو اس وقت آپ ﷺ کے معاشرہ کی تھی پھر کوئی مزاحمت ہے جو نہیں ہوئی لیکن نتیجہ اس کا کیا رہا ؟ چند ہی سالوں میں ہر طرف اسلام ہی اسلام کا نام رہ گیا اور کفر کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی گئیں۔ لیکن جو نتیجہ اس وقت نکلا وہ اس وقت کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ اس حالت کے ساتھ خاص تھا بالکل اسی طرح آج بھی قانون الٰہی اسی طرح موجود ہے اور وہ رہتی دنیا تک موجود رہے گا اور جب بھی کسی اللہ کے بندے نے ہمت باندھی اور اس کے دل سے ” غیر اللہ “ کا ڈر جاتا رہا اور دل نے اس سچ کو قبول کرلیا کہ ہم بدلیں گے تو حالت بدلے گی خود اپنے آپ کو بدلنا شروع کردیا تو انشاء اللہ آج بھی نتیجہ وہی رہے گا کیونکہ قانون الٰہی اٹل اور امٹ ہے وہ کسی زمانہ ‘ کسی قوم کسی جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں لیکن بدقسمتی سے یہی بات ہے جو کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ہماری اکثریت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اللہ کے ہاں پیر ‘ فقیر ‘ مرشد و ہادی ‘ جن اور فرشتے ایسے زور آور ہیں کہ تم خواہ کچھ بی کرتے رہو وہ تمہاری نذریں اور نیازیں وصول کر کے اور تم سے رشوت لے کر تمہیں تمہارے برے اعمال کی پاداش سے بچا لیں گے۔ ان اللہ والوں کو اللہ نے بڑی بڑی قوتیں دے رکھی ہیں اور مرنے کے بعد ان کو سات سو جسم عطا کئے جاتے ہیں اور وہ بگڑی کو اس طرح بناتے ہیں کہ اللہ میاں دیکھتے کا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ انا للہ وانا الہ راجعون۔ اللہ جب کسی گروہ کو کسی مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا 22 ؎ ارشاد فرمایا کہ جب ایک قوم نے اپنی عملی صلاحیت کھو دی اور اس طرح تبدیلی حالت کی مستحق ہوگئی تو ضروری ہے کہ اسے برائی پہنچے یہ برائی کبھی بھی ٹل نہیں سکتی کیونکہ یہ خود خدا کی جانب سے ہوتی ہے یعنی اس کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا نفاذ ہوتا ہے اور پھر خدا کی قانون کا نفاذ کون ہے جو روک سکے اور کون ہے جو کسی کو اس کی زد سے بچا سکے ؟ اس حالت کو اس طرح بھی ادا کیا جاتا ہے کہ ” خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں “۔ دوسری جگہ ظالموں اور مفسدوں کی حرکات پر نگاہ رکھنے کلئے ” گھات لگائے ہوئے ہونے کے “ الفاظ تمثیلی استعارے کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں۔ گھات لگائے ہوئے ہونے کا مطلب سمجھ میں آگیا تو یہ دیکھا جائے کہ گھات کیا ہے ؟ گھات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص کسی کے انتظار میں اس غرض کیلئے چھپا بیٹھا ہوتا ہے کہ جب وہ زد پر آئے تو اس وقت اس پر حملہ کر دے۔ وہ جس کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی خبر لینے کیلئے کون کہاں چھپا ہوا ہے۔ انجام سے غافل ‘ بےفکری کے ساتھ وہ اس مقام سے گزرتا ہے اور اچانک شکار ہوجاتا ہے یہی صورت حال اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان ظالموں کی ہے جو دنیا میں فساد کا طوفان برپا کئے رکھتے ہیں انہیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ خدا بھی کوئی ہے جو ان کی حرکات کو دیکھ رہا ہے وہ پوری بےخوفی کے ساتھ روز بروز زیادہ سے زیادہ شرارتیں کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ حد آجاتی ہے جس سے آگے اللہ تعالیٰ انہیں بڑھنے نہیں دینا چاہتا اس وقت ان پر اچانک اس کے عذاب کا کوڑا برس جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ اس قانون الٰہی کے خلاف ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ؟ نہیں بلکہ اس کے عین مطابق کیونکہ ظالم کو اپنے ظلم کی پاداش میں پکڑا جانا لازم ہے اور یہی قانون خداوندی ہے جس کو اس جگہ بیان کیا گیا۔ ” اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کا کارساز ہو “۔ جب کسی قوم پر پیہم نصیحتیں ‘ تشبیحیں اور سرزنشیں سود مند ثابت نہ ہوں جیسا کہ آج کل خود قوم مسلم کا ہال ہے اور اس کو اپنی اصلاح کیلئے جو مہلت بھی دی جائے وہ غفلت میں گزار دے اور پھر اللہ اس کو اس کے اعمال کے بدلے میں کوئی سزا دینے کا فیصلہ کرلے تو پھر کوئی طاقت اس کو اپنی اعمال کے نتائج سے بچا نہیں سکتی۔ یہ وہ قانون قدرت ہے جس میں کوئی استثناء نہیں ‘ یہ وہ حقیقت ہے جو ناقابل تردید ہے۔ امت مسلمہ کو اپنے اعمال واطوار کی اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اس سے واضح اور روشن آیت کے بعد بھی کسی سمجھانے والے کی ضرورت باقی رہتی ہے ؟ اگر نہین تو کیا قوم مسلم ماننے کو تیار ہے ؟
Top