Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 25
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
اَعْلَمُ
: خوب جانتا ہے
بِمَا
: جو
فِيْ نُفُوْسِكُمْ
: تمہارے دلوں میں
اِنْ
: اگر
تَكُوْنُوْا
: تم ہوگے
صٰلِحِيْنَ
: نیک (جمع)
فَاِنَّهٗ
: تو بیشک وہ
كَانَ
: ہے
لِلْاَوَّابِيْنَ
: رجوع کرنیوالوں کے لیے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے جی میں ہوتا ہے اگر تم نیک کردار ہوئے تو وہ بلاشبہ توبہ کرنے والوں کے لیے بڑا ہی بخشنے والا ہے
دلوں کی حالت کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے نیکو کار ہی بخشش کے مستحق ہیں : 32۔ بعض اوقات انسان کی ظاہری حالت اور دلی کیفیت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور جو اس کی زبان پر ہوتا ہے وہ یقینا دل میں نہیں ہوتا اور جو دل میں پوشیدہ ہوتا ہے اس کو زبان پر نہیں لاتا ۔ اس لئے زیر نظر آیت میں اس کی وضاحت فرما دی کہ اصل بات تو وہ ہے جو دل کی گہرائیوں میں چھپی ہے اور کسی شخص کے لد کی گہرائی کتنی ہی کیوں نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں اس لئے وضاحت فرما دی کہ تمہارے دلوں میں اپنے والدین کے لئے اطاعت وفرمانبرداری کے جو جذبات ہیں یا ان سے دل ہی دل میں جو نفرت اور تھکاوٹ یا اکتاہٹ تم محسوس کرتے ہو تمہارا رب اس سے خوب واقف ہے ۔ اگر شیطان نے تم کو والدین کی شکرگزاری اور احسان شناسی کی راہ سے بہکا دیا ہے تو بہتر ہے اب ہی سنبھل جاؤ ، آج ہی سچے دل اور شرح صدر سے انکی خدمت میں لگ جاؤ اور اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کرلو جو سچے دل سے جھک جاتا ہے اور غلطی سے باز آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے ، ان آیات کریمات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اولاد کی پرورش اور بوڑھے والدین کی دیکھ بھال سے اولاد کو سبکدوش کردے وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا اور ظاہری طور پر انسان اس میں کتنی ہی خوبیاں سمجھے خوب نام کی کوئی چیز اس میں مطلق نہیں ہے بلکہ سراسر فریب نفس ہے جس کے نتائج نہایت ہی تباہ کن ہیں۔ ہاں ! کمزور والدین سے انکی اولاد کی پرورش میں ہاتھ بٹانا اور اس کی معاونت کرنا لازم وضروری ہے اور اس طرح کمزور اولاد لازم وضروری ہے ان دونوں باتوں میں جو فرق ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور بےباپ بچوں اور بےاولاد اور بےسہارا بوڑھوں کی نگہداشت کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہے ، اس جگہ جی چاہتا ہے کہ والدین کے اس اہم مقام کے متعلق کچھ مزید عرض کیا جائے کیونکہ یہ کتب آسمانی کا ایک اہم باب ہے جس کے متعلق کتب آسمانی میں واضح ہدایت موجود ہیں ۔ والدین کے حقوق توحید الہی کے بعد درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کتب سماوی میں محفوظ ہیں : والدین یعنی باں باپ کی عزت واحترام ‘ خدمت و شفقت اور اطاعت وفرمانبرداری سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) ‘ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں یکساں ضروری قرار دی گئی ہے بلکہ تینوں میں ان کا درجہ اللہ تعالیٰ کے بعد انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور سب سے بڑا بتایا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت وفرمانبرداری کے بعد انکی اطاعت وفرمانبرداری کی تاکید کی گئی ہے بشرطیکہ اس میں شرک کی بوباس نہ ہو تورات میں بھی توحید الہی کی تعلیم کے بعد اس کو بیان کیا ہے چناچہ تحریر ہے کہ : ” تو اپنے ماں باپ کو عزت دے تاکہ تیری عمر اس زمین پر جو خدواند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو ۔ “ (خروج 20 : 21) پھر دوسری جگہ ہے : ” تم میں سے ہر ایک اپنی ماں اور اپنے باپ سے ڈرتا رہے ۔ “ (احبار 19 : 3) انتہا یہ ہے کہ تورات نے قانونا یہ حکم نافذ کیا کہ : ” اور جو کوئی اپنے باپ یا اپنی ماں پر لعنت کرے مار ڈالا جائے گا اس نے اپنے باپ یا اپنی ماں پر لعنت کی ہے اس کا خون اسی پر ہے ۔ “ (احبار 20 : 9) اور وہ جو اپنے ماں باپ پر لعنت کرے مار ڈالا جائے گا ۔ (خروج 21 : 7) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انجیل میں انہی احکام کو دہرایا اور اس بات پر زور دیا کہ ان احکام کی صرف لفظی تعمیل نہ کی جائے بلکہ ان کے روح ومعنی کا خیال کیا جائے ، فرمایا : ” کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنے ماں باپ کی عزت کر اور جو ماں یا باپ پر لعنت کرے ‘ جان سے مارا جائے پر تم کہتے ہو کہ جو کئی اپنے باپ یا ماں کو کہے کہ جو کچھ مجھے تجھ کو دینا واجب ہے سو خدا کی نذر ہوا اور اپنے ماں باپ یا انکی عزت نہ کرے تو کچھ مضائقہ نہیں پس تم نے اپنی روایت سے خدا کے حکم کو باطل کیا۔ “ (متی 15 : 4 تا 7) نبوت محمدی جس کی بعثت ہی اخلاق کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے اس نے تورات وانجیل کی طرح نہ صرف والدین کی عزت اور ان سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی بلکہ اس مسئلہ کے ہر گوشہ کی تفصیل کی اور ہر ممکن سوال کا تشفی بخش جواب دیا ۔ (1) ۔ اس نے سب سے پہلے ماں اور باپ کی مشترکہ حیثیت کی بھی تفصیل کی اور بتایا کہ ماں اور باپ میں بھی سب سے بڑا درجہ ماں کا ہے ‘ عورت کی فطری کمزوری ‘ بیچارگی اور حمل ‘ وضع حمل اور تربیت اولاد کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنا ‘ ماں بڑائی اس کی سب سے پہلے دلدہی کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ (آیت) ” ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصلہ فی عامین “۔ (لقمان 31 : 14) اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے واسطے تاکید کی ، اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو برس تک دودھ پلایا ۔ (آیت) ” ووصینا الانسان بوالدیہ احسانا حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا وحملہ وفصلہ ثلثون شھرا “۔ (الاحقاف 46 : 15) اور ہم نے انسان کو تاکید کی کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرے ، اس کی ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا ، پیٹ میں رکھنا اور دودھ پلا کر چھڑانا تیس مہینے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات میں اس کی مزید تاکید کی ‘ ایک شخص نے خدمت اقدس میں آکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے ؟ فرمایا تیری ماں ‘ پوچھا پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ! اس نے عرض کی ‘ پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ! تین دفعہ آپ ﷺ نے یہی جواب دیا ‘ چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد ہوا تیرا باپ ۔ (صحیح بخاری ج 2 کتاب الادب) ایک دن آنحضرت ﷺ نے چار بڑے گناہوں کا ذکر کیا اور سرفہرست ماں کی نافرمانی کو قرار دیا اور فرمایا کہ تمہارے خدا نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کی ہے ۔ (جامع ترمذی کتاب البر والصلہ ) ایک دفعہ ایک شخص نے آکر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے کیا میرے لئے کوئی توبہ ہے ؟ فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ جواب دیا نہیں ! دریافت کیا خالہ ہے ؟ گزارش کی ‘ ہے ‘ فرمایا ” تو اس کے ساتھ نیکی کر۔ “ (ایضا) یہی اس کی توبہ ہوئی ۔ ایک اور صحابی نے دریافت کیا ‘ یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے جہاد میں شرکت کا ارادہ کیا ہے اور آپ ﷺ سے مشورہ چاہتا ہوں ‘ فرمایا ” کیا تمہاری ماں ہے ؟ جواب اثبات میں دیا ‘ فرمایا کہ تم اسی کے ساتھ چمٹے رہو کہ جنت اس کے پاؤں کے پاس ہے ۔ “ (ترغیب وترہیب منذری ج 2 ص 124) 1۔ ان تعلیمات سے اندازہ ہوگا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں مخلوقات انسانی میں جنس لطیف ہی کی ایک صنف کو سب سے بڑی برتری حاصل ہے اور یہ برتری بالکل فطری ہے انسان سب سے زیادہ اپنے وجود میں جن کا ممنون ہے اور جو اس کی تخلیق کی مادی علت ہیں ‘ وہ خالق اکبر کی علت فاعلہ ذات کے بعد ماں اور باپ ہیں لیکن بات کی مادی علیت چند لمحوں اور چند قطروں سے زیادہ نہیں ‘ مگر ماں وہ ہستی ہے جس نے اس کی ہستی کو اپنا خون پلا پلا کر بڑھایا اور نو مہینے تک اس کی مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا ‘ پھر اس کے جننے کی ۔۔۔۔۔۔۔ ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا پھر اس نوپیدا مضغہ گوشت کو اپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا خون پانی کر کے پلایا اور اس کی پرورش اور غور پرداخت میں اپنی ہر راحت قربان ‘ اپنا ہر آرام ترک اور اپنی خوشی نثار کردی ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہے ؟ اس لئے شریعت محمدی نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ اس کو عنایت کیا ہے وہ اس کی سزاوار ہے ۔ 2۔ ماں کے ساتھ جو دوسری ہستی ‘ بچہ کی تولید وتکوین میں شریک ہے ‘ وہ باپ ہے اور شک نہیں کہ اس کی نشو ونما اور تربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسمانی ومالی کوششیں شامل ہیں اس لئے جب بچہ ان کی محنتوں اور کوششوں سے قوت کو پہنچتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ اپنی ماں باپ کی کوششوں سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ ماں باپ کی خدمت کی صورت میں ادا کرے ‘ چناچہ اسلام نے نہ صرف پہلے صحیفوں کی طرح ان کی ” عزت “ کرنے اور ان سے ڈرتے رہنے کے وعظ پر اکتفا کیا بلکہ ان کی خدمت ‘ ان کی اطاعت ‘ ان کی امداد اور ان کی دلدہی ہرچیز فرض قرار دی بلکہ یہاں تک تاکید کی کہ انکی کسی بات پر اف تک نہ کرو ‘ ان کے سامنے ادب سے جھکے رہو ‘ ان کی دعاؤں کو اپنے حق میں قبول سمجھو ‘ انہی کی خدمت انسان کا سب سے بڑا جہاد ہے بلکہ انہی کی خوشنودی سے خدا کی خوشنودی ہے ، قرآن پاک میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ‘ نیکی اور خدمت کی تاکید 12 مختلف آیتوں میں نازل ہوئی ہے اور اکثر موقعوں پر تعلیم توحید اور خدا پرستی کی تعلیم کے بعد ہی آئی ہے کہ پہلی تخلیق انسانی کی علت فاعلی اور دوسری علت مادی ہے ‘ سب سے پہلی آیت سورة بقرہ میں ہے جس میں تورات کے حکم کی طرف بھی اشارہ ہے ‘ فرمایا : (آیت) ” واذاخذنا میثاق بنی اسرائیل لا تعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا “۔ (البقرہ : 2 : 83) اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم نہ پوجھو کے مگر اللہ کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔ یہ آیت پاک گو اس حکم کا اعادہ ہے جو توراۃ کی آیتوں میں ہے لیکن یہاں توراۃ کی طرح صرف ماں باپ کی عزت اور ڈر کے محدود لفظ نہیں بلکہ ” نیکی کرنے “ کا وسیع المعنی لفظ رکھا گیا ہے جس سے تعلیم کے مفہوم میں بڑی وسعت آگئی ہے اور ہر قسم کی خدمت ‘ اطاعت اور عزت کا مفہوم اس کے اندر پیدا ہے ۔ اسی سورت میں دوسری جگہ والدین کی مالی خدمت اور امداد کی نصیحت ہے ۔ (آیت) ” قل ما نفقتم من خیر فللوالدین والاقربین “۔ (البقرہ : 2 : 215) فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو ‘ وہ ماں باپ اور رشتہ داروں (وغیرہ) کے لئے ۔ سورة نساء میں توحید کے حکم اور شرک کی ممانعت کے بعد ہی والدین کے ساتھ بھلائی کی تاکید کی جاتی ہے ۔ (آیت) ” واعبدواللہ ولا تشرکوا بہ شیئاوبالوالدین احسانا “۔ (النساء : 4 : 36) اور اللہ کو پوجو او اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ کفار کو جنہوں نے اپنے وہم و خیال اور رسم و رواج سے حلال و حرام کی ہزاروں رسمی و خیالی باتیں پیدا کرلیا تھیں اللہ تعالیٰ خطاب کرکے فرماتا ہے کہ یہ کھانے پینے کی چیزیں حرام نہیں ۔ آؤ ہم بتائیں کہ حقیقت میں حرام چیزیں کیا ہیں خدا کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش نہ آنا۔ (آیت) ” قل تعالوا اتل ما حرم برکم علیکم الا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا “۔ (الانعام : 6 : 151) کہہ (اے پیغمبر) آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر کیا حرام کیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔ معراج کے احکام دوزادہ میں خدا کی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم اس اہتمام کے ساتھ دی جاتی ہے کہ ان کے سامنے اف بھی نہ کرو ‘ عاجزی سے پیش آؤ ان کے حق میں دعائے خیر کرو اور بڑھاپے میں ان کی خدمت ‘ فرمایا : (آیت) ” وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً (23) وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً (24) ۔ اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا اگر انمیں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف بھی نہ کہو اور انہ ان پر خفا ہو اور ان سے ادب سے بولو اور ان کے لئے اطاعت کا بازو محبت سے جھکاؤ اور کہو کہ اے اللہ میرے پروردگار تو ان پر رحمت فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ۔ اللہ اللہ ! کس ادب اور محبت کی تعلیم ہے ۔ خدا کی دائمی اور غیر متبدل شریعت میں شرک سے زیادہ بری چیز کوئی نہیں قرار دی گئی اس پر بھی اگر کسی کے ماں باپ مشرک ہوں تو اس حالت میں بھی ان کی خدمت سے ہاتھ اٹھانا روا نہیں ! بجز اس کے کہ اگر ہو شرک کی دعوت دیں تو انکی اس بات کو قبول نہ کیا جائے ۔ ارشاد فرمایا : (آیت) ” وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً وَإِن جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (8) اور ہم نے انسان کو جتا دیا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور اگر وہ تجھ کو مجبور کریں کہ تو خدا کے ساتھ اس کو شریک کر جس کا تجھ کو علم نہیں تو انکا کہا نہ مان ‘ تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے تو میں تم کو تمہارے کرتوت سے آگاہ کروں گا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر تمہارے بت پرست ماں باپ تم کو بت پرستی کی دعوت دیں تو صرف انکی دعوت کو قبول نہ کرو لیکن ان کی دنیاوی خدمت اور حسن سلوک میں کوئی فرق نہ آئے پائے بلکہ وہ اس حال میں بھی اپنی جگہ پر قائم رہے فرمایا : (آیت) ” وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْناً عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ (14) وَإِن جَاہَدَاکَ عَلی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (15) اور ہم نے انسان کو جتا دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑایا کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مانے ‘ میرے ہی پاس پھر آنا ہے اگر وہ دونوں اس پر تجھ کو مجبور کریں کہ میرے ساتھ اس کو شریک کر جس کو تو نہیں جانتا تو ان کا یہ کہنا نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے گزران کر۔ اس اہتمام کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی احسان مندی کا ذکر خود اپنی احسان پذیری کے ساتھ کرتا ہے اور اس شرک پرستی کی دعوت اور اس دعوت کے قبول پر اولاد کو بزور مجبور کرنے کے باوجود صرف اسی قدر کہا جاتا ہے کہ مذہب کے باب میں انکی بات اولاد نہ مانے ‘ مگر دوسری باتوں میں ان کا ادب ‘ ان کی اطاعت اور انکی خدمت کا وہی عالم رہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھئے کہ باوجود اس کے کہ ان کا باپ مسلمان نہ تھا مگر اپنے وعدہ کی بنا پر خدا سے دعا مانگی جس سے غالبا ان کی دعا سے مراد یہ ہوگی کہ وہ ایمان لا کر حسن خاتمہ پر مرے ۔ (آیت) ” ربنا اغفرلی ولوالدی “۔ (ابراہیم 14 : 41) اے میرے پیروردگار مجھے اور میرے باپ کو بخش دے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی یہی دعا کی ۔ (آیت) ” ربنا اغفرلی ولوالدی “۔ (نوح 71 : 28) اے میرے پیروردگار مجھے اور میرے باپ کو بخش دے ۔ اس لئے والدین کے حسن خاتمہ اور مغفرت کی دعا مانگنا انبیاء کرام (علیہم السلام) کی پیروی ہے ، آخری بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو والدین کے ساتھ سلوک کرتے ہیں ‘ ان کی خدمت بجا لاتے ہیں اور ان کے لئے خدا سے دعائے خیر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس نیکی کے بدلہ میں ان کے سارے گناہ معاف کردیتا اور اپنی خوشنودی کی لازوال دولت ان کو عطا فرماتا ہے ۔ (آیت) ” وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاً وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَہْراً حَتَّی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ وَأَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ إِنِّیْ تُبْتُ إِلَیْْکَ وَإِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (15) أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجاوَزُ عَن سَیِّئَاتِہِمْ فِیْ أَصْحَابِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوا یُوعَدُونَ (16) اور ہم نے انسان کو تاکید کرکے کہہ دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اس کی ماں نے اس کو تکلیف کرکے پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف کرکے جنا اور اور تیس مہینوں تک اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا یہاں تک کہ وہ بچہ سے بڑھ کر جوان ہوا اور چالیس برس کا ہو اس نے کہا میرے پروردگار مجھ کو توفیق دے کہ تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر میرے ماں باپ پر کیا اور اس کی کہ میں وہ کام کروں جس کو تو پسند کرے اور میری اولاد نیک کر ‘ میں تیری طرف لوٹ کر آیا اور میں تیرے فرمانبرداروں میں ہوں ‘ یہی وہ ہیں جن کے اچھے کام ہم قبول اور ان کے برے کاموں سے درگزر کرتے ہیں یہ جنت والوں میں ہوں گے یہ سچائی کا وہ عہد ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ۔ ان آیتوں نے والدین اور خصوصا ماں کی خدمت و اطاعت ورضا مندی کو وہ پانی بتایا ہے جس سے گناہوں کی فرد دھل کر صاف ہوجاتی ہے ، احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے اسی منشائے الہی مختلف عبارتوں اور طریقوں میں ادا فرمایا ہے ۔ “ کہیں فرمایا ہے کہ ” ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے ۔ “ کبھی ارشاد ہوا ” رب کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے “۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے حسن معاشرت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ فرمایا تیری ماں ‘ دریافت کیا پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ‘ عرض کی پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ‘ گزارش کی پھر کون ‘ چوتھی بار فرمایا ‘ تیرا باپ اور اس کے بعد جو اس سے قریب ہے ‘ پھر جو اس سے قریب ہے ، ایک دفعہ آنحضور ﷺ مجلس قدس میں تشریف فرما تھے ‘ جانثار حاضر تھے ، فرمایا وہ خوار ہوا ‘ وہ خوار ہوا ‘ وہ خوار ہوا ‘ صحابہ نے پوچھا کون یا رسول اللہ ارشاد ہوا وہ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کرلی ۔ ایک اور مجلس میں صحابہ نے دریافت کیا کہ تمام کاموں میں خدا کو ہمارا کون ساکام زیادہ پسند آتا ہے ؟ فرمایا وقت پر نماز پڑھنا ‘ عرض کی پھر کون ؟ ارشاد ہوا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ‘ دریافت کیا پھر کون ‘ فرمایا خدا کی راہ میں محنت اٹھانا (جہاد) ایک دفعہ آپ ﷺ نے والدین کی اطاعت کے ثواب کو ایک نہایت موثر حکایت میں بیان فرمایا ، ارشاد ہوا کہ تین مسافر راہ میں چل رہے تھے اتنے میں موسلا دھار پانی برسنے لگا ‘ تینوں نے بھاگ کر ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی ‘ قضارا ایک چٹان اوپر سے ایسی گری کہ اس سے اس غار کا منہ بند ہوگیا اب ان کی بےکسی وبیچارگی اور اضطراب وبے قراری کا کون اندازہ کرسکتا ہے ‘ ان کو موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی اس وقت انہوں نے پورے خضوع وخشوع کے ساتھ دربار الہی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ‘ ہر ایک نے کہا کہ اس وقت ہر ایک کو اپنی خالص نیکی کا واسطہ خدا کو دینا چاہئے ۔ ایک نے کہا یا الہی تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ‘ میں بکریاں چراتا تھا اور انہیں میری روزی کا سہارا تھا ، میں شام کو جب بکریاں لے گھر آتا تھا تو دودھ دھو کر پہلے اپنے والدین کی خدمت میں لاتا تھا جب وہ پی چکتے تب اپنے بچوں کو پلاتا تھا ، ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے کو دور نکل گیا ‘ لوٹا تو میرے والدین سو چکے تھے ‘ میں دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہوا ‘ نہ ان کو جگاتا تھا کہ ان کی راحت میں خلل آجاتا اور نہ ہٹتا تھا کہ خدا جانے کس وقت انکی آنکھ کھلے اور دودھ مانگیں ، بچے بھوک سے بلک رہے تھے مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں ، میں اسی طرح پیالہ میں دودھ لئے رات بھر سرہانے کھڑا رہا اور وہ آرام کرتے رہے ، خداوند ! تجھے معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا تھا تو تو اس چٹان کو اس غار کے منہ سے ہٹا دے ‘ یہ کہنا تھا کہ چٹان کو خود بخود جنبش آئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سا سرک گئی ، اس کے بعد باقی مسافروں کی باری آئی اور انہوں نے بھی اپنی نیک کاموں کو وسیلہ بنا کر دعا کی اور غار کا منہ کھل گیا ۔ اسلام میں جہاد کہ اہمیت جو کچھ ہے وہ ظاہر ہے مگر والدین کی خدمت گزاری کا درجہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ان کی اجازت کے بغیر جہاد بھی جائز نہیں کہ جہاد کے میدان میں سر ہتھیلی پر رکھ کر جانا ہوتا ہے اور ہر وقت جان جانے کا امکان رہتا ہے اس لئے والدین کی اجازت کے بغیر انکو اپنے جسم وجان کو کھونے کا حق نہیں ، جس کو اس کی خدمت گزاری کے لئے وقف ہونا چاہئے تھا اسی لئے ابھی اوپر گزر چکا کہ آنحضرت ﷺ نے نیک کاموں میں جہاد کا درجہ والدین کی خدمت گزاری کے بعد رکھا ، ایک دفعہ ایک صحابی نے آکر خدمت اقدس میں شرکت جہاد کی اجازت طلب کی دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ بھی ہیں ؟ عرض کی جی ہاں ! ارشاد ہوا تو پھر انہی کی خدمت کا فریضہ جہاد ادا کرو۔ قرآن پاک کی صریح آیتوں میں خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ جس طرح والدین کی اطاعت کا ذکر ہے احادیث میں بھی وہی درجہ رکھا گیا ہے ، صحابہ سے فرمایا کہ تم پر خدا نے ماؤں کی نافرمانی حرام کی ہے ، ایک دفعہ صحابہ سے جو خدمت میں حاضر تھے ‘ دریافت کیا کہ کیا تم کو بتاؤں کہ دنیا میں سب سے بڑے گناہ کیا ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور یا رسول فرمایا کہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ‘ ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، آپ تکیہ لگائے بیٹھے تھے سیدھے ہو کر برابر ہوگئے اور فرمانے لگے اور جھوٹی گواہی اور ہاں جھوٹی گواہی ۔ (صحیح بخاری کتاب الاداب ‘ صحیح مسلم کتاب البر والصلہ ۔ جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ) تورات میں حقوق والدین کے متعلق جو بعض ایسے احکام تھے جو بیحد سخت تھے وحی محمدی نے بعض حیثیتوں سے ان کی تخفیف کردی ہے اور بعض حیثیتوں سے زیادہ سخت کردیا ہے ۔ مثلا تورات کا یہ حکم تھا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے وہ قتل کردیا جائے ‘ اسلام نے اس گناہ کو دنیا کی قانون سزا کے بجائے اخروی سزا کا موجب قرار دیا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ توبہ و استغفار سے معاف ہو سکتے ہیں اور مجرم کو اپنے فعل پر نظر ثانی کی تازندگی مہلت ملتی ہے ‘ لیکن اگر اس نے اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر عذاب بھی ہے ‘ جو دنیاوی سزا سے زیادہ سخت ہے ، اسلام کے قانون میں ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی سنگ دل باپ اپنی اولاد کے قتل کا مرتکب ہو تو بعض حالتوں میں وہ اس کے قصاص کا قتل نہ ہوگا بلکہ کسی اور سزا کا مستحق ہوگا کیونکہ باپ کو اپنی اولاد سے جو فطری محبت ہوتی ہے اس کا مقتضا یہی ہے کہ اس کے فعل کو قتل بالقصد کے بجائے اتفاقی سمجھا جائے تاکہ اس کے برخلاف کوئی قوی شہادت موجود نہ ہو ۔ اسی سلسلہ میں ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ہے ، تورات نے ایک طرف والدین کو یہ اہمیت دے کر دوسری طرف بیوی کے سامنے انکو بالکل بےقدر کردیا ہے ۔ لکھا ہے : اس واسطے سے مراد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے ۔ (پیدائش 2 : 24) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی جو گو (انجیل کے مطابق) ماں باپ اور بیوی تینوں سے نا آشنا تھے تاہم جیسا کہ انجیل کے موجودہ نسخہ میں ہے ماں باپ کے مقاملہ میں بیوی کی طرفداری اور حمایت کی اور اسی لئے طلاق کو ناجائز قرار دیا (مرقس 10 : 7 ، 8) مگر سوال یہ ہے کہ اگر بیوی اور والدین کے درمیان ناقابل حل اختلاف ہو اور اس لئے ان دونوں میں سے کسی بیوی کا تعلق ایسا ہے جس کو قانون اور عہد نے پیدا کیا ہے جو ٹوٹ کر جڑ سکتا ہے اور مٹ کر بدل سکتا ہے لیکن والدین کا فطری تعلق ناقابل شکست اور ناقابل تغیر ہے ، حضرت ابن عمر ؓ کی ایک بیوی تھی جن سے وہ راضی تھے مگر ان کے پدر بزرگوار حضرت عمر ؓ کو بہو پسند نہ تھیں ، اس اختلاف نے خانگی جھگڑے کی صورت اختیار کرلی ۔ آنحضرت ﷺ نے ابن عمر ؓ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے باپ کی اطاعت کریں ۔
Top