Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 25
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو فِيْ نُفُوْسِكُمْ : تمہارے دلوں میں اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا : تم ہوگے صٰلِحِيْنَ : نیک (جمع) فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ كَانَ : ہے لِلْاَوَّابِيْنَ : رجوع کرنیوالوں کے لیے غَفُوْرًا : بخشنے والا
تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے جی میں ہوتا ہے اگر تم نیک کردار ہوئے تو وہ بلاشبہ توبہ کرنے والوں کے لیے بڑا ہی بخشنے والا ہے
دلوں کی حالت کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے نیکو کار ہی بخشش کے مستحق ہیں : 32۔ بعض اوقات انسان کی ظاہری حالت اور دلی کیفیت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور جو اس کی زبان پر ہوتا ہے وہ یقینا دل میں نہیں ہوتا اور جو دل میں پوشیدہ ہوتا ہے اس کو زبان پر نہیں لاتا ۔ اس لئے زیر نظر آیت میں اس کی وضاحت فرما دی کہ اصل بات تو وہ ہے جو دل کی گہرائیوں میں چھپی ہے اور کسی شخص کے لد کی گہرائی کتنی ہی کیوں نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں اس لئے وضاحت فرما دی کہ تمہارے دلوں میں اپنے والدین کے لئے اطاعت وفرمانبرداری کے جو جذبات ہیں یا ان سے دل ہی دل میں جو نفرت اور تھکاوٹ یا اکتاہٹ تم محسوس کرتے ہو تمہارا رب اس سے خوب واقف ہے ۔ اگر شیطان نے تم کو والدین کی شکرگزاری اور احسان شناسی کی راہ سے بہکا دیا ہے تو بہتر ہے اب ہی سنبھل جاؤ ، آج ہی سچے دل اور شرح صدر سے انکی خدمت میں لگ جاؤ اور اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کرلو جو سچے دل سے جھک جاتا ہے اور غلطی سے باز آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے ، ان آیات کریمات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اولاد کی پرورش اور بوڑھے والدین کی دیکھ بھال سے اولاد کو سبکدوش کردے وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا اور ظاہری طور پر انسان اس میں کتنی ہی خوبیاں سمجھے خوب نام کی کوئی چیز اس میں مطلق نہیں ہے بلکہ سراسر فریب نفس ہے جس کے نتائج نہایت ہی تباہ کن ہیں۔ ہاں ! کمزور والدین سے انکی اولاد کی پرورش میں ہاتھ بٹانا اور اس کی معاونت کرنا لازم وضروری ہے اور اس طرح کمزور اولاد لازم وضروری ہے ان دونوں باتوں میں جو فرق ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور بےباپ بچوں اور بےاولاد اور بےسہارا بوڑھوں کی نگہداشت کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہے ، اس جگہ جی چاہتا ہے کہ والدین کے اس اہم مقام کے متعلق کچھ مزید عرض کیا جائے کیونکہ یہ کتب آسمانی کا ایک اہم باب ہے جس کے متعلق کتب آسمانی میں واضح ہدایت موجود ہیں ۔ والدین کے حقوق توحید الہی کے بعد درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کتب سماوی میں محفوظ ہیں : والدین یعنی باں باپ کی عزت واحترام ‘ خدمت و شفقت اور اطاعت وفرمانبرداری سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) ‘ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں یکساں ضروری قرار دی گئی ہے بلکہ تینوں میں ان کا درجہ اللہ تعالیٰ کے بعد انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور سب سے بڑا بتایا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت وفرمانبرداری کے بعد انکی اطاعت وفرمانبرداری کی تاکید کی گئی ہے بشرطیکہ اس میں شرک کی بوباس نہ ہو تورات میں بھی توحید الہی کی تعلیم کے بعد اس کو بیان کیا ہے چناچہ تحریر ہے کہ : ” تو اپنے ماں باپ کو عزت دے تاکہ تیری عمر اس زمین پر جو خدواند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو ۔ “ (خروج 20 : 21) پھر دوسری جگہ ہے : ” تم میں سے ہر ایک اپنی ماں اور اپنے باپ سے ڈرتا رہے ۔ “ (احبار 19 : 3) انتہا یہ ہے کہ تورات نے قانونا یہ حکم نافذ کیا کہ : ” اور جو کوئی اپنے باپ یا اپنی ماں پر لعنت کرے مار ڈالا جائے گا اس نے اپنے باپ یا اپنی ماں پر لعنت کی ہے اس کا خون اسی پر ہے ۔ “ (احبار 20 : 9) اور وہ جو اپنے ماں باپ پر لعنت کرے مار ڈالا جائے گا ۔ (خروج 21 : 7) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انجیل میں انہی احکام کو دہرایا اور اس بات پر زور دیا کہ ان احکام کی صرف لفظی تعمیل نہ کی جائے بلکہ ان کے روح ومعنی کا خیال کیا جائے ، فرمایا : ” کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنے ماں باپ کی عزت کر اور جو ماں یا باپ پر لعنت کرے ‘ جان سے مارا جائے پر تم کہتے ہو کہ جو کئی اپنے باپ یا ماں کو کہے کہ جو کچھ مجھے تجھ کو دینا واجب ہے سو خدا کی نذر ہوا اور اپنے ماں باپ یا انکی عزت نہ کرے تو کچھ مضائقہ نہیں پس تم نے اپنی روایت سے خدا کے حکم کو باطل کیا۔ “ (متی 15 : 4 تا 7) نبوت محمدی جس کی بعثت ہی اخلاق کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے اس نے تورات وانجیل کی طرح نہ صرف والدین کی عزت اور ان سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی بلکہ اس مسئلہ کے ہر گوشہ کی تفصیل کی اور ہر ممکن سوال کا تشفی بخش جواب دیا ۔ (1) ۔ اس نے سب سے پہلے ماں اور باپ کی مشترکہ حیثیت کی بھی تفصیل کی اور بتایا کہ ماں اور باپ میں بھی سب سے بڑا درجہ ماں کا ہے ‘ عورت کی فطری کمزوری ‘ بیچارگی اور حمل ‘ وضع حمل اور تربیت اولاد کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنا ‘ ماں بڑائی اس کی سب سے پہلے دلدہی کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ (آیت) ” ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصلہ فی عامین “۔ (لقمان 31 : 14) اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے واسطے تاکید کی ، اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو برس تک دودھ پلایا ۔ (آیت) ” ووصینا الانسان بوالدیہ احسانا حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا وحملہ وفصلہ ثلثون شھرا “۔ (الاحقاف 46 : 15) اور ہم نے انسان کو تاکید کی کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرے ، اس کی ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا ، پیٹ میں رکھنا اور دودھ پلا کر چھڑانا تیس مہینے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات میں اس کی مزید تاکید کی ‘ ایک شخص نے خدمت اقدس میں آکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے ؟ فرمایا تیری ماں ‘ پوچھا پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ! اس نے عرض کی ‘ پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ! تین دفعہ آپ ﷺ نے یہی جواب دیا ‘ چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد ہوا تیرا باپ ۔ (صحیح بخاری ج 2 کتاب الادب) ایک دن آنحضرت ﷺ نے چار بڑے گناہوں کا ذکر کیا اور سرفہرست ماں کی نافرمانی کو قرار دیا اور فرمایا کہ تمہارے خدا نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کی ہے ۔ (جامع ترمذی کتاب البر والصلہ ) ایک دفعہ ایک شخص نے آکر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے کیا میرے لئے کوئی توبہ ہے ؟ فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ جواب دیا نہیں ! دریافت کیا خالہ ہے ؟ گزارش کی ‘ ہے ‘ فرمایا ” تو اس کے ساتھ نیکی کر۔ “ (ایضا) یہی اس کی توبہ ہوئی ۔ ایک اور صحابی نے دریافت کیا ‘ یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے جہاد میں شرکت کا ارادہ کیا ہے اور آپ ﷺ سے مشورہ چاہتا ہوں ‘ فرمایا ” کیا تمہاری ماں ہے ؟ جواب اثبات میں دیا ‘ فرمایا کہ تم اسی کے ساتھ چمٹے رہو کہ جنت اس کے پاؤں کے پاس ہے ۔ “ (ترغیب وترہیب منذری ج 2 ص 124) 1۔ ان تعلیمات سے اندازہ ہوگا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں مخلوقات انسانی میں جنس لطیف ہی کی ایک صنف کو سب سے بڑی برتری حاصل ہے اور یہ برتری بالکل فطری ہے انسان سب سے زیادہ اپنے وجود میں جن کا ممنون ہے اور جو اس کی تخلیق کی مادی علت ہیں ‘ وہ خالق اکبر کی علت فاعلہ ذات کے بعد ماں اور باپ ہیں لیکن بات کی مادی علیت چند لمحوں اور چند قطروں سے زیادہ نہیں ‘ مگر ماں وہ ہستی ہے جس نے اس کی ہستی کو اپنا خون پلا پلا کر بڑھایا اور نو مہینے تک اس کی مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا ‘ پھر اس کے جننے کی ۔۔۔۔۔۔۔ ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا پھر اس نوپیدا مضغہ گوشت کو اپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا خون پانی کر کے پلایا اور اس کی پرورش اور غور پرداخت میں اپنی ہر راحت قربان ‘ اپنا ہر آرام ترک اور اپنی خوشی نثار کردی ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہے ؟ اس لئے شریعت محمدی نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ اس کو عنایت کیا ہے وہ اس کی سزاوار ہے ۔ 2۔ ماں کے ساتھ جو دوسری ہستی ‘ بچہ کی تولید وتکوین میں شریک ہے ‘ وہ باپ ہے اور شک نہیں کہ اس کی نشو ونما اور تربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسمانی ومالی کوششیں شامل ہیں اس لئے جب بچہ ان کی محنتوں اور کوششوں سے قوت کو پہنچتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ اپنی ماں باپ کی کوششوں سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ ماں باپ کی خدمت کی صورت میں ادا کرے ‘ چناچہ اسلام نے نہ صرف پہلے صحیفوں کی طرح ان کی ” عزت “ کرنے اور ان سے ڈرتے رہنے کے وعظ پر اکتفا کیا بلکہ ان کی خدمت ‘ ان کی اطاعت ‘ ان کی امداد اور ان کی دلدہی ہرچیز فرض قرار دی بلکہ یہاں تک تاکید کی کہ انکی کسی بات پر اف تک نہ کرو ‘ ان کے سامنے ادب سے جھکے رہو ‘ ان کی دعاؤں کو اپنے حق میں قبول سمجھو ‘ انہی کی خدمت انسان کا سب سے بڑا جہاد ہے بلکہ انہی کی خوشنودی سے خدا کی خوشنودی ہے ، قرآن پاک میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ‘ نیکی اور خدمت کی تاکید 12 مختلف آیتوں میں نازل ہوئی ہے اور اکثر موقعوں پر تعلیم توحید اور خدا پرستی کی تعلیم کے بعد ہی آئی ہے کہ پہلی تخلیق انسانی کی علت فاعلی اور دوسری علت مادی ہے ‘ سب سے پہلی آیت سورة بقرہ میں ہے جس میں تورات کے حکم کی طرف بھی اشارہ ہے ‘ فرمایا : (آیت) ” واذاخذنا میثاق بنی اسرائیل لا تعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا “۔ (البقرہ : 2 : 83) اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم نہ پوجھو کے مگر اللہ کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔ یہ آیت پاک گو اس حکم کا اعادہ ہے جو توراۃ کی آیتوں میں ہے لیکن یہاں توراۃ کی طرح صرف ماں باپ کی عزت اور ڈر کے محدود لفظ نہیں بلکہ ” نیکی کرنے “ کا وسیع المعنی لفظ رکھا گیا ہے جس سے تعلیم کے مفہوم میں بڑی وسعت آگئی ہے اور ہر قسم کی خدمت ‘ اطاعت اور عزت کا مفہوم اس کے اندر پیدا ہے ۔ اسی سورت میں دوسری جگہ والدین کی مالی خدمت اور امداد کی نصیحت ہے ۔ (آیت) ” قل ما نفقتم من خیر فللوالدین والاقربین “۔ (البقرہ : 2 : 215) فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو ‘ وہ ماں باپ اور رشتہ داروں (وغیرہ) کے لئے ۔ سورة نساء میں توحید کے حکم اور شرک کی ممانعت کے بعد ہی والدین کے ساتھ بھلائی کی تاکید کی جاتی ہے ۔ (آیت) ” واعبدواللہ ولا تشرکوا بہ شیئاوبالوالدین احسانا “۔ (النساء : 4 : 36) اور اللہ کو پوجو او اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ کفار کو جنہوں نے اپنے وہم و خیال اور رسم و رواج سے حلال و حرام کی ہزاروں رسمی و خیالی باتیں پیدا کرلیا تھیں اللہ تعالیٰ خطاب کرکے فرماتا ہے کہ یہ کھانے پینے کی چیزیں حرام نہیں ۔ آؤ ہم بتائیں کہ حقیقت میں حرام چیزیں کیا ہیں خدا کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش نہ آنا۔ (آیت) ” قل تعالوا اتل ما حرم برکم علیکم الا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا “۔ (الانعام : 6 : 151) کہہ (اے پیغمبر) آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر کیا حرام کیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔ معراج کے احکام دوزادہ میں خدا کی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم اس اہتمام کے ساتھ دی جاتی ہے کہ ان کے سامنے اف بھی نہ کرو ‘ عاجزی سے پیش آؤ ان کے حق میں دعائے خیر کرو اور بڑھاپے میں ان کی خدمت ‘ فرمایا : (آیت) ” وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً (23) وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً (24) ۔ اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا اگر انمیں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف بھی نہ کہو اور انہ ان پر خفا ہو اور ان سے ادب سے بولو اور ان کے لئے اطاعت کا بازو محبت سے جھکاؤ اور کہو کہ اے اللہ میرے پروردگار تو ان پر رحمت فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ۔ اللہ اللہ ! کس ادب اور محبت کی تعلیم ہے ۔ خدا کی دائمی اور غیر متبدل شریعت میں شرک سے زیادہ بری چیز کوئی نہیں قرار دی گئی اس پر بھی اگر کسی کے ماں باپ مشرک ہوں تو اس حالت میں بھی ان کی خدمت سے ہاتھ اٹھانا روا نہیں ! بجز اس کے کہ اگر ہو شرک کی دعوت دیں تو انکی اس بات کو قبول نہ کیا جائے ۔ ارشاد فرمایا : (آیت) ” وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً وَإِن جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (8) اور ہم نے انسان کو جتا دیا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور اگر وہ تجھ کو مجبور کریں کہ تو خدا کے ساتھ اس کو شریک کر جس کا تجھ کو علم نہیں تو انکا کہا نہ مان ‘ تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے تو میں تم کو تمہارے کرتوت سے آگاہ کروں گا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر تمہارے بت پرست ماں باپ تم کو بت پرستی کی دعوت دیں تو صرف انکی دعوت کو قبول نہ کرو لیکن ان کی دنیاوی خدمت اور حسن سلوک میں کوئی فرق نہ آئے پائے بلکہ وہ اس حال میں بھی اپنی جگہ پر قائم رہے فرمایا : (آیت) ” وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْناً عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ (14) وَإِن جَاہَدَاکَ عَلی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (15) اور ہم نے انسان کو جتا دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑایا کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مانے ‘ میرے ہی پاس پھر آنا ہے اگر وہ دونوں اس پر تجھ کو مجبور کریں کہ میرے ساتھ اس کو شریک کر جس کو تو نہیں جانتا تو ان کا یہ کہنا نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے گزران کر۔ اس اہتمام کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی احسان مندی کا ذکر خود اپنی احسان پذیری کے ساتھ کرتا ہے اور اس شرک پرستی کی دعوت اور اس دعوت کے قبول پر اولاد کو بزور مجبور کرنے کے باوجود صرف اسی قدر کہا جاتا ہے کہ مذہب کے باب میں انکی بات اولاد نہ مانے ‘ مگر دوسری باتوں میں ان کا ادب ‘ ان کی اطاعت اور انکی خدمت کا وہی عالم رہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھئے کہ باوجود اس کے کہ ان کا باپ مسلمان نہ تھا مگر اپنے وعدہ کی بنا پر خدا سے دعا مانگی جس سے غالبا ان کی دعا سے مراد یہ ہوگی کہ وہ ایمان لا کر حسن خاتمہ پر مرے ۔ (آیت) ” ربنا اغفرلی ولوالدی “۔ (ابراہیم 14 : 41) اے میرے پیروردگار مجھے اور میرے باپ کو بخش دے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی یہی دعا کی ۔ (آیت) ” ربنا اغفرلی ولوالدی “۔ (نوح 71 : 28) اے میرے پیروردگار مجھے اور میرے باپ کو بخش دے ۔ اس لئے والدین کے حسن خاتمہ اور مغفرت کی دعا مانگنا انبیاء کرام (علیہم السلام) کی پیروی ہے ، آخری بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو والدین کے ساتھ سلوک کرتے ہیں ‘ ان کی خدمت بجا لاتے ہیں اور ان کے لئے خدا سے دعائے خیر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس نیکی کے بدلہ میں ان کے سارے گناہ معاف کردیتا اور اپنی خوشنودی کی لازوال دولت ان کو عطا فرماتا ہے ۔ (آیت) ” وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاً وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَہْراً حَتَّی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ وَأَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ إِنِّیْ تُبْتُ إِلَیْْکَ وَإِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (15) أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجاوَزُ عَن سَیِّئَاتِہِمْ فِیْ أَصْحَابِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوا یُوعَدُونَ (16) اور ہم نے انسان کو تاکید کرکے کہہ دیا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اس کی ماں نے اس کو تکلیف کرکے پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف کرکے جنا اور اور تیس مہینوں تک اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا یہاں تک کہ وہ بچہ سے بڑھ کر جوان ہوا اور چالیس برس کا ہو اس نے کہا میرے پروردگار مجھ کو توفیق دے کہ تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر میرے ماں باپ پر کیا اور اس کی کہ میں وہ کام کروں جس کو تو پسند کرے اور میری اولاد نیک کر ‘ میں تیری طرف لوٹ کر آیا اور میں تیرے فرمانبرداروں میں ہوں ‘ یہی وہ ہیں جن کے اچھے کام ہم قبول اور ان کے برے کاموں سے درگزر کرتے ہیں یہ جنت والوں میں ہوں گے یہ سچائی کا وہ عہد ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ۔ ان آیتوں نے والدین اور خصوصا ماں کی خدمت و اطاعت ورضا مندی کو وہ پانی بتایا ہے جس سے گناہوں کی فرد دھل کر صاف ہوجاتی ہے ، احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے اسی منشائے الہی مختلف عبارتوں اور طریقوں میں ادا فرمایا ہے ۔ “ کہیں فرمایا ہے کہ ” ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے ۔ “ کبھی ارشاد ہوا ” رب کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے “۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے حسن معاشرت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ فرمایا تیری ماں ‘ دریافت کیا پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ‘ عرض کی پھر کون ؟ فرمایا تیری ماں ‘ گزارش کی پھر کون ‘ چوتھی بار فرمایا ‘ تیرا باپ اور اس کے بعد جو اس سے قریب ہے ‘ پھر جو اس سے قریب ہے ، ایک دفعہ آنحضور ﷺ مجلس قدس میں تشریف فرما تھے ‘ جانثار حاضر تھے ، فرمایا وہ خوار ہوا ‘ وہ خوار ہوا ‘ وہ خوار ہوا ‘ صحابہ نے پوچھا کون یا رسول اللہ ارشاد ہوا وہ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کرلی ۔ ایک اور مجلس میں صحابہ نے دریافت کیا کہ تمام کاموں میں خدا کو ہمارا کون ساکام زیادہ پسند آتا ہے ؟ فرمایا وقت پر نماز پڑھنا ‘ عرض کی پھر کون ؟ ارشاد ہوا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ‘ دریافت کیا پھر کون ‘ فرمایا خدا کی راہ میں محنت اٹھانا (جہاد) ایک دفعہ آپ ﷺ نے والدین کی اطاعت کے ثواب کو ایک نہایت موثر حکایت میں بیان فرمایا ، ارشاد ہوا کہ تین مسافر راہ میں چل رہے تھے اتنے میں موسلا دھار پانی برسنے لگا ‘ تینوں نے بھاگ کر ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی ‘ قضارا ایک چٹان اوپر سے ایسی گری کہ اس سے اس غار کا منہ بند ہوگیا اب ان کی بےکسی وبیچارگی اور اضطراب وبے قراری کا کون اندازہ کرسکتا ہے ‘ ان کو موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی اس وقت انہوں نے پورے خضوع وخشوع کے ساتھ دربار الہی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ‘ ہر ایک نے کہا کہ اس وقت ہر ایک کو اپنی خالص نیکی کا واسطہ خدا کو دینا چاہئے ۔ ایک نے کہا یا الہی تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ‘ میں بکریاں چراتا تھا اور انہیں میری روزی کا سہارا تھا ، میں شام کو جب بکریاں لے گھر آتا تھا تو دودھ دھو کر پہلے اپنے والدین کی خدمت میں لاتا تھا جب وہ پی چکتے تب اپنے بچوں کو پلاتا تھا ، ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے کو دور نکل گیا ‘ لوٹا تو میرے والدین سو چکے تھے ‘ میں دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہوا ‘ نہ ان کو جگاتا تھا کہ ان کی راحت میں خلل آجاتا اور نہ ہٹتا تھا کہ خدا جانے کس وقت انکی آنکھ کھلے اور دودھ مانگیں ، بچے بھوک سے بلک رہے تھے مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں ، میں اسی طرح پیالہ میں دودھ لئے رات بھر سرہانے کھڑا رہا اور وہ آرام کرتے رہے ، خداوند ! تجھے معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا تھا تو تو اس چٹان کو اس غار کے منہ سے ہٹا دے ‘ یہ کہنا تھا کہ چٹان کو خود بخود جنبش آئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سا سرک گئی ، اس کے بعد باقی مسافروں کی باری آئی اور انہوں نے بھی اپنی نیک کاموں کو وسیلہ بنا کر دعا کی اور غار کا منہ کھل گیا ۔ اسلام میں جہاد کہ اہمیت جو کچھ ہے وہ ظاہر ہے مگر والدین کی خدمت گزاری کا درجہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ان کی اجازت کے بغیر جہاد بھی جائز نہیں کہ جہاد کے میدان میں سر ہتھیلی پر رکھ کر جانا ہوتا ہے اور ہر وقت جان جانے کا امکان رہتا ہے اس لئے والدین کی اجازت کے بغیر انکو اپنے جسم وجان کو کھونے کا حق نہیں ، جس کو اس کی خدمت گزاری کے لئے وقف ہونا چاہئے تھا اسی لئے ابھی اوپر گزر چکا کہ آنحضرت ﷺ نے نیک کاموں میں جہاد کا درجہ والدین کی خدمت گزاری کے بعد رکھا ، ایک دفعہ ایک صحابی نے آکر خدمت اقدس میں شرکت جہاد کی اجازت طلب کی دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ بھی ہیں ؟ عرض کی جی ہاں ! ارشاد ہوا تو پھر انہی کی خدمت کا فریضہ جہاد ادا کرو۔ قرآن پاک کی صریح آیتوں میں خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ جس طرح والدین کی اطاعت کا ذکر ہے احادیث میں بھی وہی درجہ رکھا گیا ہے ، صحابہ سے فرمایا کہ تم پر خدا نے ماؤں کی نافرمانی حرام کی ہے ، ایک دفعہ صحابہ سے جو خدمت میں حاضر تھے ‘ دریافت کیا کہ کیا تم کو بتاؤں کہ دنیا میں سب سے بڑے گناہ کیا ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور یا رسول فرمایا کہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ‘ ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، آپ تکیہ لگائے بیٹھے تھے سیدھے ہو کر برابر ہوگئے اور فرمانے لگے اور جھوٹی گواہی اور ہاں جھوٹی گواہی ۔ (صحیح بخاری کتاب الاداب ‘ صحیح مسلم کتاب البر والصلہ ۔ جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ) تورات میں حقوق والدین کے متعلق جو بعض ایسے احکام تھے جو بیحد سخت تھے وحی محمدی نے بعض حیثیتوں سے ان کی تخفیف کردی ہے اور بعض حیثیتوں سے زیادہ سخت کردیا ہے ۔ مثلا تورات کا یہ حکم تھا کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے وہ قتل کردیا جائے ‘ اسلام نے اس گناہ کو دنیا کی قانون سزا کے بجائے اخروی سزا کا موجب قرار دیا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ توبہ و استغفار سے معاف ہو سکتے ہیں اور مجرم کو اپنے فعل پر نظر ثانی کی تازندگی مہلت ملتی ہے ‘ لیکن اگر اس نے اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر عذاب بھی ہے ‘ جو دنیاوی سزا سے زیادہ سخت ہے ، اسلام کے قانون میں ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی سنگ دل باپ اپنی اولاد کے قتل کا مرتکب ہو تو بعض حالتوں میں وہ اس کے قصاص کا قتل نہ ہوگا بلکہ کسی اور سزا کا مستحق ہوگا کیونکہ باپ کو اپنی اولاد سے جو فطری محبت ہوتی ہے اس کا مقتضا یہی ہے کہ اس کے فعل کو قتل بالقصد کے بجائے اتفاقی سمجھا جائے تاکہ اس کے برخلاف کوئی قوی شہادت موجود نہ ہو ۔ اسی سلسلہ میں ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ہے ، تورات نے ایک طرف والدین کو یہ اہمیت دے کر دوسری طرف بیوی کے سامنے انکو بالکل بےقدر کردیا ہے ۔ لکھا ہے : اس واسطے سے مراد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے ۔ (پیدائش 2 : 24) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی جو گو (انجیل کے مطابق) ماں باپ اور بیوی تینوں سے نا آشنا تھے تاہم جیسا کہ انجیل کے موجودہ نسخہ میں ہے ماں باپ کے مقاملہ میں بیوی کی طرفداری اور حمایت کی اور اسی لئے طلاق کو ناجائز قرار دیا (مرقس 10 : 7 ، 8) مگر سوال یہ ہے کہ اگر بیوی اور والدین کے درمیان ناقابل حل اختلاف ہو اور اس لئے ان دونوں میں سے کسی بیوی کا تعلق ایسا ہے جس کو قانون اور عہد نے پیدا کیا ہے جو ٹوٹ کر جڑ سکتا ہے اور مٹ کر بدل سکتا ہے لیکن والدین کا فطری تعلق ناقابل شکست اور ناقابل تغیر ہے ، حضرت ابن عمر ؓ کی ایک بیوی تھی جن سے وہ راضی تھے مگر ان کے پدر بزرگوار حضرت عمر ؓ کو بہو پسند نہ تھیں ، اس اختلاف نے خانگی جھگڑے کی صورت اختیار کرلی ۔ آنحضرت ﷺ نے ابن عمر ؓ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے باپ کی اطاعت کریں ۔
Top