Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور جو لوگ تمہارے قرابت دار ہیں ، جو مسکین ہیں ، جو مسافر ہیں ان سب کا تم پر حق ہے ، ان کا حق ادا کرتے رہو اور مال و دولت کو بےمحل خرچ نہ کرو جیسا کہ بےمحل خرچ کرنا ہوتا ہے
ذی القربی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا وہ ذوی الفروض ہوں یا ذوی الارحام : 33۔ گزشتہ آیتوں میں منشور اسلامی کی دو اہم شقوں کو بیان کیا تھا زیر نظر آیت میں چار مزید اہم شقوں کا بیان ہے جن میں سب سے پہلے ذی القربی کے حقوق ہیں اور اس کے بعد ” مساکین “ اور اس کے بعد ” مسافروں “ کے حقوق کے ادا کرنے کی تلقین ہے اور آخر میں بےمحل مال خرچ کرنے سے روکا گیا ہے ۔ اس جگہ الترتیب ان کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے ۔ ماں باپ ‘ اولاد اور زن وشوہر کے بعددرجہ بدرجہ دوسرے اہل قرابت کا حق ہے عربوں کے محاورہ میں اس کا نام ” صلہ رحم “ ہے ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی اخلاقی تعلیم میں صلہ رحم اور حقوق قرابت کی اہمیت دنیا کے تمام مذاہب سے زیادہ ہے یہی سبب ہے کہ وحی محمدی میں اس کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے ، قرآن کریم میں کم از کم بارہ آیتوں میں اس کی صریح تاکید ہے اور اسکو انسان کا احسان نہیں بلکہ اس کا فرض اور حق بتایا ہے ، چناچہ فرمایا : (آیت) ” فات ذالقربی حقہ “۔ (الروم 30 : 38) تو قرابت داروں کا حق ادا کرو۔ (آیت) ” فات ذالقربی حقہ “۔ (الاسراء : 17 : 26) تو قرابت داروں کا حق ادا کرو۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی کہ مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضرورت اور خواہش کے باوجود صرف خدا کی مرضی کے لئے خود تکلیف اٹھا کر اپنے قرابت مندوں کی امداد و حاجت روائی اصلی نیکی ہے ۔ (آیت) ” واتی المال علی حبہ ذوی القربی “۔ (البقرہ : 2 : 117) اور اصل نیکی اس کی ہے جس نے مال کو اس کی محبت پر قرابت مندوں کو دیا ۔ والدین کے بعد اہل قرابت ہی ہماری مالی امداد کے مستحق ہیں ‘ فرمایا : (آیت) ” قل ما انفقتم من خیر فللوا الدین والا قربین “۔ (البقرہ 2 : 215) فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو ، تو وہ ماں باپ اور رشتہ داروں کیلئے ۔ ماں باپ کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اللہ تعالیٰ کے ان خاص احکام میں ہے جن کا انسان سے عہد لیا گیا ۔ (آیت) ” وبالوالدین احسانا وذی القربی “۔ (البقرہ 2 : 83) (اور بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا کہ خدا ہی کو پوجنا) اور ماں باپ اور رشتہ دار کے ساتھ نیکی کرنا۔ سورة نحل میں اہل قرابت کی امداد کو عدل اور احسان کے بعد اپنا تیسرا خاص حکم بتایا ۔ (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ایتآئی ذی القربی “۔ (النحل 16 : 90) بیشک اللہ انصاف اور حسن سلوک اور قرابت دار کو دینے کا حکم دیتا ہے ۔ ایک مسلمان کی دولت کے بہترین مستحق والدین کے بعد اس کے قرابت والے ہیں فرمایا : (آیت) ” قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین والیتمی والمساکین “۔ (البقرہ 2 : 215) کہہ دے اے پیغمبر ! کہ فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو تو وہ اپنے ماں باپ قرابت والوں ‘ ییتموں اور غریبوں کیلئے ۔ اگر کسی قرابت مند سے کوئی قصور ہوجائے تو اہل دولت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کی سزا میں اپنی امداد کا ہاتھ اس سے روک لیں ۔ ارشاد ہوا : (آیت) ” ولا یاتل اولوا الفضل منکم والسعۃ وان یؤتوا اولی القربی والمساکین “۔ (النور ، 24 : 22) اور جو لوگ تم میں بڑائی اور کشائش والے ہوں وہ قرابت مندوں اور محتاجوں کے دینے کی قسم نہ کھا بیٹھیں ۔ اللہ تعالیٰ کی خالص ‘ عبادت اور توحید اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے بعد تیسری چیز اہل قرابت کے ساتھ نیکی ہے ‘ فرمایا : (آیت) ” واعبدواللہ ولا تشرکوا بہ شیئاوبالوالدین احسانا “۔ (النساء : 4 : 36) اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کا اس کا ساتھی نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والے کے ساتھ نیکی کرنا۔ حق قرابت کو اسلام میں وہ اہمیت حاصل ہے کہ داعی اسلام (علیہ السلام) اپنی ان تمام محنتوں ‘ زحمتوں ‘ تکلیفوں اور مصیبتوں کا جو تبلیغ اور دعوت حق میں انکو پیش آئیں اور اپنے اس احسان وکرم کا جو ہدایت ‘ تعلیم اور اصلاح کے ذریعہ ہم پر فرمایا بدل ‘ معاوضہ اور مزدوری اپنی امت سے یہ طلب فرماتے ہیں کہ رشتہ داروں اور قرابت مندوں کا حق ادا کرو اور ان سے لطف و محبت سے پیش آؤ اور فرمایا : (آیت) ”۔ قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی “۔ (الشوری 42 : 23) کہہ اے پیغمبر ! کہ میں تم سے اس پر بجز اس کے کوئی مزدوری نہیں مانگتا کہ ناتے میں محبت اور پیار کروَ عربی زبان میں قرابت کا حق ادا کرنے کو ” وصل رحم “ (رحم ملانا) کہتے ہیں ۔ اسی لفظ کی دوسری معروف شکل ” قطع رحم “ (رحم کاٹنا) کہتے ہیں کہ رحم مادری ہی تعلقات قرابت کی جڑ ہے ۔ کسی امر میں دو انسانوں کا اشتراک ان کے باہمی تعلقات اور حقوق محبت واعانت کی اصلی گرہ ہے ، یہ اشتراک کہیں ہم عمری ، کہیں ہم درسی ‘ کہیں ہم سائیگی ‘ کہیں ہم مذاقی ‘ کہیں ہم پیشگی ‘ کہیں ہم وطنی ‘ کہیں ہم قومی کی مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتا ہے ، اس اشتراک ہے جس کا موطن ‘ رحم مادر ہے ، یہ ہم رحمی خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے ۔ اور جس کا توڑنا انسان کی قوت سے باہر ہے ، اس لئے اس کے حقوق کی نگہداشت بھی انسانوں پر سب سے زیادہ ضروری ہے ان لوگوں کو جو محبت کی اس فطری گرہ کو توڑنے کی کوشش کریں ، وحی محمدی نے فاسق کا خطاب دیا ہے اور ان کو ضلالت کا مستحق ٹھہرایا ہے ۔ (آیت) ”۔ وما یضل بہ الا الفاسقین الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل “۔ (البقرہ 2 : 26 ‘ 27) اس سے وہ انہیں کو گمراہ کرتا ہے جو حکم نہیں مانتے جو خدا کا عہد باندھ کو توڑتے ہیں اور خدا نے جس کے جوڑنے کو کہا اس کو کاٹتے ہیں ۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے انسانوں کی اس فطری گرہ کی تشریح استعارہ کے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ رحم (شکم مادر کا نام) رحمن (اللہ) سے مشتق ہے ۔ اس لئے محبت والے خدا نے رحم کو خطاب کرکے فرمایا کہ جس نے تجھ کو ملایا اس کو میں نے ملایا ، جس نے تجھ کو کاٹا اس کو میں نے کاٹا ۔ (صحیح بخاری ج 2) اسی مفہوم کو استعارہ کے اور گہرے رنگ میں آنحضرت ﷺ نے یوں ادا فرمایا کہ رحم انسانی عرش الہی کو پکڑ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے اس کو خدا ملائے اور جو مجھے کاٹے اس کو خدا کاٹے ۔ (صحیح بخاری کتاب البر والصلہ) ایک اور موقع پر آنحضرت ﷺ نے حسن تعبیر کا اس سے بھی زیادہ نازک طریقہ اختیار فرمایا ۔ ارشاد ہوا کہ جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کیا تو رحم انسانی نے اس رحمت والے خدا کا دامن (اصل میں حقوہ ہے) تھام لیا ‘ خدا نے فرمایا ٹھہر جا ! یہ اس کا مسکن ہوگا جو تیری گرہ کاٹنے سے بچے گا ۔ کیا تو اس سے خوش نہیں کہ جو تجھ کو ملائے اس کو میں اپنے سے ملاؤں ‘ جو تجھ کو کاٹے اس کو میں اپنے سے کاٹوں ۔ (صحیح بخاری ومسلم کتاب البر والصلہ) یعنی رحم مادر اور اس رحمن کے رحم (وکرم) کے درمیان حرفوں کا یہ اشتراک ‘ محبت کے معنی اشتراک کے بھید کو فاش کرتا ہے اور اس سے وہ اہمیت ظاہر ہوتی ہے جو اسلام کی نظر میں اہل قرابت کی ہے ۔ رحم اور رحمن کے اس جوڑ کی طرف خود قرآن کریم کی ایک آیت میں بھی اشارہ ہے ، سورة نساء میں فرمایا : (آیت) ” واتقوا اللہ الذی تسآء لون بہ والارحام “۔ (النساء 4 : 1) اور جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے درخواست کرتے ہو اس کا اور فرشتوں کا خیال رکھو ۔ اس آیت پاک کی تشریح ذیل کی حدیث سے سمجھئے ۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے آکر عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے ، فرمایا خدا کی بندگی کرو ۔ کسی کو اس کا ساجھی نہ بناؤ ۔ نماز پوری ادا کرو ۔ زکوۃ دو اور قرابت کا حق (صلہ رحم) ادا کرو (صحیح بخاری کتاب الادب باب فضل صلہ الرحم) جبیر بن مطعم ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو صلہ رحمی یعنی قرابت کا حق ادا نہ کرے گا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا ۔ (صحیح بخاری کتاب الادب) (یعنی جنت میں اس کا داخلہ اس وقت تک رکا رہے گا جب تک اس کا یہ گناہ معاف نہ ہو لے گا یا وہ اس گناہ سے پاک نہ ہوچکے گا ۔ ) ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے ۔ (ایضا) اس حدیث کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان نیک اعمال کا اثر اللہ نے یہ رکھا ہے کہ اس سے مال و دولت میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے کیونکہ صلہ رحم کی دو ہی صورتیں ہیں ‘ ایک یہ کہ ضرورت مند رشتہ داروں کی مالی مدد کی جائے دوسری یہ کہ خدا کی دی ہوئی عمر میں سے کچھ حصہ ان کی خدمت میں صرف کیا جائے ۔ پہلے کا نتیجہ خدا کی طرف سے مالی وسعت اور کشادگی اور دوسرے کا نتیجہ عمر میں برکت اور زیادتی کی صورت میں ملتا ہے ، اس حدیث کی تشریح مادی توجیہ سے بھی کی جاسکتی ہے انسان کے خانگی افکار اور خاندانی جھگڑے بہت کچھ اس کے اضمحلال ‘ تکدر اور دلی پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے خاندان والوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ ‘ صلہ رحم اور خوش خلقی سے پیش آتے ہیں ان کی زندگی میں خانگی مسرت ‘ انشراح اور طمانیت خاطر رہتی ہے ، جس کی وجہ سے ان کی دولت اور عمر دونوں میں برکت اور زیادتی ہوتی ہے ، ترمذی میں یہ حدیث ان الفاظ میں ہے صلہ رحم سے قرابت والوں میں محبت مال میں کثرت اور عمر میں برکت ہوتی ہے ۔ عرباء و مساکین کے حقوق اسلام کی نظر میں : 34۔ مساکین کون لوگ ہیں ؟ مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں ۔ (مسکنت) کے لفظ میں عاجزی ‘ درماندگی ‘ بیچارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں ، نبی اعظم وآخر ﷺ نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھہرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خود داری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ہی ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ، چناچہ احادیث میں اس کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ ولا یقوم فیسال الناس۔ ” مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت و ضرورت کے مطابق مال نہیں پاتا اور نہ ہی پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے ۔ “ گویا وہ ایک ایسا شریف انسان ہے جو فی واقعہ غریب ہے ۔ صدر اول میں مسلمانوں میں امیر بھی تھے اور غریب بھی ‘ دولت مند بھی اور فاقہ کش بھی لیکن نبی اعظم وآخر ﷺ کا برتاؤ سب کے ساتھ یکساں تھا بلکہ غریبوں کے ساتھ آپ ﷺ اس طرح پیش آتے تھے کہ دنیاوی دولت کی محرومی ان کے دلوں کو صدمہ نہیں پہنچاتی تھی ، ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کفار مکہ کے سرداروں میں سے کسی کے ساتھ دین اسلام کی گفتگو فرما رہے تھے اگر وہ چند آدمی تھے تو آپ ﷺ ان کے سردار سے مخاطب تھے کہ اتفاقا عبداللہ بن ام مکتوم ؓ جو آنکھوں سے معذور اور غریب انسان تھے تشریف لائے اور موقع پاکر دوران گفتگو آپ ﷺ سے کچھ پوچھ لیا تو قریش مکہ کا وہ سردار بہت جزبز ہوا اس لئے کہ قریش مکہ کے سرداروں کی گفتگو کے دوران اس غریب مسلمان نے کچھ دریافت کرلیا ۔ قریش مکہ کے سرداروں میں سے اس شخص پر جو سب کی طرف سے نمائندگی کر رہا تھا کہ عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کا یہ فعل بہت ناگوار گزارا تو فورا وحی الہی نے آپ ﷺ کے ذریعہ سے اس کو مخاطب کر لای اور اس کو رودررو وہ باتیں سنائیں کہ وہ مزید کچھ بولنے کی جراء تنہ کرسکا ، سورة عبس میں اس واقعہ کی تفصیل ہے لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین نے اس ناگواری کے فعل کی نسبت خود نبی کریم ﷺ کی طرف کردی اور (عبس وتولی) کا فاعل نبی اعظم وآخر ﷺ کو قرار دے دیا ، خاکم بدہن کہ ایسی بات میں کہوں یا کروں ۔ یہ غرباء اور مفلس اسلام کے سب سے پہلے جان نثار بنے تھے ، نبی اعظم وآخر ﷺ ان کو ساتھ لے کر حرم میں نماز پڑھنے کے لئے جاتے تھے ، اگرچہ اس وقت نماز فرض نہ تھی تاہم آپ ﷺ انفرادی نماز ادا کرتے تھے اور ہئیت نماز آپ ﷺ کو سکھلا اور بتلا دی گئی تھی ، قریش ان کی ظاہر بےحیثیتی دیکھ کر استہزاء کیا کرتے تھے اور زبان سے اس طرح کہتے کہ (آیت) ” ہؤلاء من اللہ علیھم من بیننا “۔ کہ ” یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو چھوڑ کر احسان کیا ہے ؟ “ لیکن آپ ﷺ ان کے اس استہزاء کو خوشی سے برداشت کرتے تھے ، پہلے پہل حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے مزاج میں کسی قدر تسلی تھی اور وہ اپنے آپ کو غریبوں سے بالاتر سمجھتے تھے ، آپ ﷺ نے انکی طرف خطاب کرکے ایک روز فرمایا ” تم کو جو نصرت اور روزی میسر آتی ہے وہ انہی غریبوں کی بدولت آتی ہے ۔ “ (مشکوۃ باب فضل الفقراء بحوالہ مسلم) اسی طرح اسامہ بن زید ؓ سے ارشاد فرمایا ” میں نے در جنت پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ زیادہ تر غریب ومفلس لوگ ہی اس میں داخل ہیں ۔ “ (ایضا بحوالہ بخاری ومسلم) عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مسجد نبوی میں بیٹھا تھا اور غریب مہاجر لوگ حلقہ باندھے ایک طرف بیٹھے تھے اسی اثناء میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور انہی کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے ، یہ دیکھ کر میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا ، آپ ﷺ نے فرمایا ” فقرء ومہاجرین کو بشارت ہو کہ وہ دولت مندوں سے چالیس برس پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔ “ عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہ سن کر ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے اور مجھے حسرت ہوئی کہ کاش میں بھی انہیں میں سے ہوتا۔ (مشکوۃ فضل الفقراء بحوالہ دارمی) نبی اعظم وآخر ﷺ اکثر دعا میں فرمایا کرتے تھے ‘ خداوند مجھے مسکین زندہ رکھ ‘ مسکین اٹھا اور مسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر کر ۔ سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ اس طرح دعا کیوں فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس لئے کہ یہ لوگ دولت مندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے ، پھر فرمایا کہ عائشہ غریبوں سے محبت رکھو اور ان کو اپنے قریب کرو تو اللہ تعالیٰ بھی تم کو اپنے قریب کرے گا ۔ “ (ایضا بحوالہ ترمذی ‘ بیہ وابن ماجہ) مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کی اسلامی ہدایت جو قانون کا ایک حصہ ہے : 35۔ مسافر کو عربی زبان میں ابن السبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے خواہ وہ کسی مقصد کے لئے بھی سفر کر رہا ہو ۔ مسافر اپنے گھر میں اگرچہ غنی ہو ، لیکن حالت سفر میں وہ دوسروں کی مدد کا محتاج ہو تو اس کی مدد واعانت لازم وضروری ہے ویسے نہ ہو سکے تو مال زکوۃ سے اس کو مدد دینا بھی جائز ہے ، پھر مسافر کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ ہو کس مذہب وملت کا ہے اور اس کو کیوں سفر درپیش ہے ہاں ! یہ معلوم ہوجائے کہ اسلام کے خلاف سازش کے لئے سفر کر رہا ہے تو اس کو اس سازش میں گرفتار یا قید وبند کیا جائے گا فقط اس لئے نہیں کہ وہ مسافر ہے ، آج کل کی زبان میں سیاح لوگ بھی بلاشبہ اس ضمن میں آتے ہیں اور سیاحت اگر بامقصد ہو تو اس میں بیشمار قومی فوائد ہیں اور یہ ایک نہایت دلچسپ مشغلہ ہے ۔ زیر نظر آیت میں جو منشور اسلامی کی شق بیان کی گئی ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ جو شخص اعانت کا محتاج ہو اس کی اعانت کرنا چاہئے اس کی دستگیری کرنے میں اس کی گنہگاری مانع نہ ہونا چاہئے بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گھرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا اور اہم ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسن سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے ۔ مسافر کا سفر پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی اہمیت کے پیش نظر جب منشور اسلامی بیان کیا گیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آداب سفر کا بھی مختصر ذکر کردیا جائے ، اس سلسلہ میں نبی اعظم وآخر ﷺ نے جس زمانہ میں سفر فرمایا اس وقت زمانہ کے حالات اور سواریوں کے طریقے اور تھے تاہم جو آپ ﷺ نے ہدایات فرمائیں وہ ابدی تھیں جن کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ اس وقت ضرورت تھی ۔ 1۔ سفر کے وقت مسافر کو رخصت کرنا چاہئے اور اس کو خیر و عافیت کی کوئی نیک دعا دینی چاہئے اور اگر وہ خاص دعا پڑھی جائے جو نبی اعظم وآخر ﷺ نے تعلیم فرمائی ہے تو وہ زیادہ بہتر ہے آپ ﷺ جب کسی دستہ کو روانہ کرتے تو فرماتے استودع اللہ دینکم وامانتکم وکواتیم اعمالکم ” تمہارے دین ‘ امانت اور خاتمہ عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں “۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الدعا مالوداع) 2۔ اگر کوئی خاص مصلحت پیش نظر نہ ہو تو زیادہ سفر دن کو کرنا چاہئے ، یہ ہدایت آپ ﷺ نے اس وقت دی لیکن آج بھی اس کی اہمیت پوری دنیا میں تسلیم ہے اور رات کی فلائیٹ میں کر ایوں میں بھی سہولت دی جاتی ہے کیوں ؟ اس لئے دن کے سفر کو آج بھی لوگ پسند کرتے ہیں ۔ (ایضا باب فی الابتکار فی السفر) 3۔ سفر تنہا نہیں کرنا چاہئے بلکہ کم از کم تین آدمی ساتھ ہونے چاہئیں اس سے انسان بہت سے خطرات سے محفوظ رہتا ہے خصوصا جب سفر پیدل ہو یا اپنی ذاتی سواری پر ہو تو اب بھی اس کی افادیت تسلیم شدہ ہے ۔ (ایضا باب فی الرجل یسافر وحدہ) 4۔ اگر تین یا تین سے زائد آدمی سفر کریں تو ایک کو امیر سفر مقرر کرلیں اور یہی شخص کا روان سالار کہلاتا ہے ۔ (ایضا باب فی القوم یسافرون) 5۔ سفر سے واپسی کے وقت سیدھا اور جلد بغیر اطلاع دیئے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہئے بلکہ گھر والوں کو تیاری کا وقت دینا چاہئے ، (ایضا باب فی الطروق) 6۔ اگر کوئی معزز یا محبوب شخص سفر سے واپس آئے تو اس کا استقبال کرنا چاہئے ۔ (ایضا باب والتلقی) 7۔ سفر محفوظ ہو اور منزل دور ہو تو سفر رات کو کرنا چاہئے اس میں زیادہ سکون ہوتا ہے اور سفر بھی زیادہ طے پاتا ہے اور دن آتے ہی اگر منزل مقصود آئے تو مزید اس میں فوائد ہیں ۔ (ایضا فی سراعہ السیر) 8۔ مسافر کے اختیار میں ہو تو وہ خود ورنہ ڈرائیور کو سواری کی دیکھ بھال کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ راستہ میں کوئی دقت پیش نہ آئے ۔ (مسلم کتاب الامارہ) 9۔ سفر پیدل ہو تو آرام کے لئے راستہ سے ذرا ہٹ کر آرام کرنا چاہئے اور اگر ایسی سواری پر سفر کیا جائے جو اپنے اختیار میں نہ ہو تو جتنا سواری کی چیز کا قرب حاصل ہو سکے ضروری ہے کہ اتنا اس کے قریب ہو ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارہ ) 10۔ جب سفر کی ضرورت پوری ہوجائے تو فورا واپس گھر آنا چاہئے ، بےضرورت سفر میں رہنا مناسب نہیں اور بےضرورت سفر کرنا جائز نہیں ۔ (ایضا السفر قطعہ من النداب) دولت کو بےمحل خرچ نہیں کرنا چاہئے اسلامی منشور کی یہ چھٹی شق ہے ۔ 36۔ بےمحل خرچ کرنے کو ہی فضول خرچی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جہاں خرچ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے اور اسلامی معاشرہ کے منشور کی اہم شق قرار دیا گیا وہاں بےمحل خرچ کرنے سے بھی قانونا روک دیا گیا ، اس وقت لوگ جتنا خرچ کرتے ہیں اس میں سے دسواں حصہ بھی وہ خرچ نہیں ہے جو برمحل کیا جائے بلکہ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ برمحل خرچ کرنے کو بھی بےمحل سمجھتے ہیں ، ایک انسان کو پیدائش سے شروع کرکے اس کی موت بلکہ اس سے بھی بیسیوں برس بعد تک لوگ خرچ کرتے ہیں ایک ایک خرچ کا تجزیہ کرتے جاؤ اور دیکھتے جاؤ کہ برمحل کیا خرچ ہوا اور بےمحل کیا ؟ آپ کے ہاں بچہ پیدا ہوا ماشاء اللہ یہ پلوٹھا بیٹا ہے اسلام کا بتایا ہوا خرچ کیا ہے ؟ اگر توفیق ہے تو اس کے نسی کہ کے دو جانور ذبح کرکے غریبوں میں تقسیم کرنا لیکن بچہ کی پیدائش کا سنتے ہی فی زمانہ ننہیال والے اور ددھیال والوں پر جو لازم ہے وہ کیا ہے ؟ وہی جس کو ” جمنا “ کے نام سے لیا اور دیا جاتا ہے بچہ کی پہلی حجامت یا ختنہ کی رسم بنا کر جو کچھ لیا اور دیا جاتا ہے مراثی ‘ نائی اور ڈوم ڈانگری جو لے جاتے ہیں ۔ عزیز و اقارب میں جو دعوتیں اور کپڑوں کا لین دین ہوتا ہے وہ سب کیا ہے ؟ پھر رسم پاؤں چلنا ‘ جب بچہ نے اٹھنا شروع کیا اور ماشاء اللہ ایک قدم اٹھایا ‘ پھر رسم بسم اللہ اور ازیں بعد شادی اور بیاہ اس میں اس اسلام کی ہدایت کیا تھی ‘ اس پر کتنا خرچ ہوتا تھا ؟ ہم نے کیا کیا لازم و ضروری قرار دیا اور اس پر کتنا خرچ اٹھتا ہے ، مرنا جو ہر انسان کے ساتھ لازم وضروری ہے ، اسلام کی ہدایت تھی کہ مرنے والے ترکہ لاک اپ ہوگیا اب اس کی تجہیز وتکفین اس کی کا ئے گی باقی جب تک ورثاء میں تقسیم نہ ہوجائے اس کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا لیکن ہمارے ہاں مرنے کے ساتھ ہی جو اسلام کے نام سے رسومات شروع ہوتی ہیں وہ اور جو دنیوی روایات ہیں ان کو جمع کرو اور پھر دیکھو ان پر جو اخراجات کئے گئے ہیں اور کیسے ہیں اب غور کرتے جاؤ جو اسلام نے بتایا ہے وہ برمحل ہے اور جو اسلام نے نہیں بتایا وہ بےمحل ہے اور ہم نے برمحل کیا خرچ کیا اور بےمحل کیا ؟ قرآن کریم نے (تبذیر) کا لفظ اس سلسلہ میں استعمال کیا ہے اور (تبذیر) بذر سے ہے اور بذر اس بیج کو کہتے ہیں جو بونے کے لئے محفوظ کرلیا گیا ہو اور بونے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کو کیسے بونا ہے اگر وہ یہ خیال نہ کرے گا تو بیچ ضائع ہوجائے گا ، اس لفظ کو اس لئے استعمال کیا گیا کہ خرچ کرنے والے کو معلوم کرنا چاہئے اس کو کیسے خرچ کرنا ہے ؟ اگر وہ بےمحل خرچ کرے گا تو مال ضائع ہوجائے گا اور اس کے خرچ کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا پھر اس دنیوی زندگی کو خیال میں لاؤ جو خود ہی عارضی اور فانی چیز ہے ظاہر ہے کہ جو مال فقط اس زندگی کی رعنائیوں کی خاطر خرچ ہوا وہ بھی خود ساختہ ‘ اس مال کا کیا بنے گا ؟ حقیقی اور برمحل خرچ تو وہی ہوگا جو اس دنیا میں بھی کام آئے اور اس آخری زندگی میں بھی اس کا صلہ ملے ، اس طرح غور وفکر کرو گے تو برمحل خرچ کرنے اور بےمحل خرچ ہونے کے متعلق خود بخود وضاحت ہوجائے گی وہ ایسی وضاحت ہوگی جو تحریر وتقریر میں آپ کو نہیں مل سکتی ۔
Top