Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 98
قَالَ هٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّیْ١ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَهٗ دَكَّآءَ١ۚ وَ كَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّاؕ
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ رَحْمَةٌ : رحمت مِّنْ رَّبِّيْ : میرے رب سے فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ : وعدہ رَبِّيْ : میرا رب جَعَلَهٗ : اس کو کردیگا دَكَّآءَ : ہموار وَكَانَ : اور ہے وَعْدُ : وعدہ رَبِّيْ : میرا رب حَقًّا : سچا
ذوالقرنین نے کہا یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے جب میرے پروردگار کی بات ظہور میں آئے گی تو وہ اسے ڈھا کر ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے پروردگار کی بات سچ ہے جو ٹلنے والی نہیں
ذوالقرنین کے عقائد کا اظہار اس کی اپنی زبان سے : 104۔ اس دیوار کی تکمیل کے بعد ذوالقرنین کا جو بیان قرآن کریم نے درج کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ذوالقرنین اللہ تعالیٰ اور روز قیامت کا قائل تھا کہ اس نے اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے کر بھی اپنا کوئی کمال تسلیم نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ ” میرے پروردگار کی فرمائی ہوئی بات پوری ہوئی اور وہی جب چاہے گا اس کو منہدم کردے گا اور میرے پروردگار کی فرمائی ہوئی بات بالکل سچ ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں “ بات بالکل واضح ہوگئی کہ ذوالقرنین ایک بہت بڑا فاتح ہونے کے باوجود اپنے سارے کاموں کا انحصار اپنی ذات پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر رکھتا ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے اس کو اللہ تعالیٰ کا انعام تصور کرتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ روز جزاء یقینا ہے اور ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کا جواب اللہ کے حضور پیش کرنا ہے یہی نظریات ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ اللہ کا ایک نیک سیرت ونکت کردار بندہ تھا اور یقینا وہ زردشت کی لائی ہوئی تعلیمات کا ماننے والا تھا اور اس کی حکومت حکومت الہی کہلانے کی مستحق تھی اور آج مسلمان فرمانرواؤں کو اس کی دی ہوئی اور قائم کی ہوئی ہدایات سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے اور اس کی قائم کردہ فرمانروائی روایات کو قائم کرنا چاہئے اور خصوصا اموال کو اموال الہی قرار دے کر ذاتی ملکیتوں کو کم کرکے ملکی ملکیتوں کی حفاظت ونگرانی کرنی چاہئے اور یہ بھی کہ اپنے ذاتی بینک بیلنس سے رقمیں نکلوا کر قومی خزانہ میں رکھنی چاہئیں اور قوم کی بھلائی کے کاموں کو (اپنے ذاتی کاموں سے بھی اولیت دینی چاہئے ، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ سکندر ‘ دارا اور ہلاکو تو ہوسکتے ہیں لیکن ذوالقرنین نہیں بن سکتے ۔ زیر نظر آیت 98 پر ذوالقرنین کا قصہ ختم ہو رہا ہے اور بلاشبہ یہ قصہ کفار مکہ کے سوالات پر سنایا گیا ہے تاہم گزشتہ دونوں قصوں کی طرح قرآن کریم نے اس طرح اس کو بیان کیا ہے کہ اس کا اپنا مدعا بھی اس سے واضح ہوتا چلا گیا ہے اور سوال کرنے والوں کو بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین جس کی عظمت کا حال تو تم نے اہل کتاب سے سنا ہے وہ محض ایک فاتح ہی نہیں تھا بلکہ توحید الہی اور آخرت کو ماننے والا تھا اور عدل و انصاف اور فیاضی میں ضرب المثل اور تمہاری طرح کم ظرف اور اپنی شاہی وسرداری پر اس کی ذرا بھر بھی ناز نہیں تھا اور اس میں تمہاری طرح نخوت وتکبر نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی ۔ تفسیر ہو یا تاریخ ہمارا سارا انحصار سلف پر ہے اور ہمارے ہاں براہ راست قرآن وحدیث سے استفادہ کرنا حرام قرار دیا گیا ہے جس مکتبہ فکر کے آدمی سے بات کرو وہ یہی کہے کہ اس معاملہ میں ہمارے سلف نے کیا کہا ، حکایتا عرض ہے کہ ایک دفعہ ایک مولانا نہیں بلکہ حضرت العلام سے میری بات ہورہی تھی ‘ میں نے قرآن کریم کی آیت (آیت) ” قل ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین “۔ (الزخرف 43 : 81) کا ترجمہ اس طرح کردیا ” ان سے کہو اگر واقعی رحمن کی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے اس کا انکار کرتا ۔ “ تو وہ چونک گئے اور ذرا توقف کے بعد جو کچھ وہ مجھے کہہ سکتے تھے کہہ گئے اور آخر الکلام انہوں نے ’ لاحول “ پڑھا اور تشریف لے جانے لگے تو میں نے پکڑ لیا اور عرض کیا حضرت میں نے یہ ترجمہ اپنی طرف سے نہیں کیا بلکہ سلف سے سنا ہے پھر ” سلف ہی سے سنا ہے “ کے لفظ کو بھی وہ برداشت نہ کرسکے اور جزبز ہوتے نکل گئے حالانکہ ” سلف ہی سے سنا ہے “ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میری ملاقات سلف میں سے کسی سے ہوئی تھی مطلب میرا یہی تھا کہ سلف میں سے امام بخاری (رح) نے اس کا ترجمہ اس طرح تحریر کیا ہے ایسے مولاناؤں پر ” لاحول “ نہ بھیجی جائے تو اور کیا جو کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہوں ۔ اس وقت ذکر ہو رہا تھا ذوالقرنین کا اور ذوالقرنین کی شخصیت کو سمجھنا تو ایک بڑی بات ہے صرف اس نام کی وجہ تسیمہ پر جو سلف نے تحریر کیا ہے نمونہ کے لئے یہی کافی ہے اور سیکھنے والا اس سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے چناچہ یہ بحث اٹھائی گئی کہ ذوالقرنین کو ذوالقرنین کیوں کہتے ہیں ؟ اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں جن کی فہرست اس طرح ہے کہ : 1۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ روم وفارس دو مملکتوں کا مالک تھا اور (قرن) جس کے معنی سینگ ہیں بطور استعارہ کے طاقت و حکومت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی دو حکومتوں کا والی اور مالک تھا اس لئے اس کو ” ذوالقرنین “ کہا گیا (بعض مفسرین کا یہی قول ہے) 2۔ وہ فتوحات کرتا ہوا چونکہ اقصائے مشرق ومغرب تک پہنچا اور دونوں جہات میں بہت سے ممالک پر قابض و مسلط ہوا (زہری کا قول) 3۔ اس کے سر میں دونوں جانب سینگ کے مشابہ دو غدود ابھرے ہوئے تھے (وہب بن منبہ) 4۔ اس کی زلفیں دراز تھیں اور وہ ہمیشہ بالوں کے دو حصے کرتا اور انکی پٹیاں گوندھ کر دونوں کندھوں پر ڈالتے رکھتا تھا ان دونوں کو (قرن) سے تشبیہہ دے کر یہ لقب دیا گیا ہے ۔ (منسوب بہ حسن بصری (رح) 5۔ اس نے ایک جابر بادشاہ کو توحید کی دعوت دی بادشاہ نے غضبناک ہو کر اس کے سر کی ایک جانب ایسی چوٹ لگائی کہ وہ مرگیا پھر اس نے دوبارہ زندہ ہو کر تبلیغ کرنا شروع کردی اس دفعہ دوسری طرف چوٹ لگا کر بادشاہ نے اسے ہلاک کردیا اس طرح اس کے سر پر دو نشان پڑگئے اس وجہ سے اس کا یہ لقب قرار پایا ۔ (منسوب بہ حضرت علی ؓ 6۔ وہ نجیب الطرفین تھا اس لئے والدین کی نجابت کو قرنین کے ساتھ تشبیہ دی گئی ۔ 7۔ اس نے اس قدر طویل عمر پائی کہ انسانی دنیا کے دو قرن یعنی صدیوں تک زندہ رہا ۔ 8۔ وہ جنگ میں دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتا تھا اور دونوں پاؤں سے بھی ٹھوکر لگاتا تھا ۔ 9۔ اس نے زمین کی تاریکی اور روشنی دونوں حصوں کی سیاحت کی تھی ۔ 10۔ وہ ظاہر و باطن دونوں علوم کا حامل تھا (یہ سب اقوال فتح الباری ج 6 ‘ تاریخ ابن کثیر ج 2 میں ہیں) یہ تو نام کے متعلق ہے اور جو کچھ اس کے کام کے متعلق ہے وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور زیادہ وضاحت سے منقول ہے اور پھر مثل ہے کہ ” شنیدہ کے بوددیدہ “
Top