Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان کی راہ اختیار کرو جس طرح اور لوگوں نے اختیار کی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف ایمان لائے ہیں ؟ خبردار یہی بیوقوف ہیں لیکن سمجھتے نہیں
صرف دعویٰ اسلام ، اسلام نہیں : 26: ظاہر ہے کہ ایمان کا دعویٰ تو وہ پہلے ہی رکھتے ہیں جب انہوں نے یہ کہا ہے کہ : ” نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ 1ۘ“ ہم گواہی دیتے ہیں آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اب اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ کہنے والوں کا مطلب یہ تھا کہ سچے دل سے ایمان لائو ، دیانت اور راستی کے ساتھ رسول کی رسالت کو تسلیم کرو۔ صرف کاغذی مسلمان نہ بنو کہ کاغذات میں تمہارا مذہب اسلام لکھ دیا گیا یا تم نے لکھوا لیا تو تم مسلمان ہوگئے۔ منافقین انسانیت سے عاری ہوتے ہیں : 27: كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ ” جیسا کہ دوسرے لوگ ایمان لائے “ جن لوگوں سے خطاب ہے یعنی منافقین وہ ان اہل ایمان کو جانتے اور پہچانتے ہیں تب ہی ان کو یہ کہا جارہا ہے کہ اس طرح ایمان لائو جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ” الناس “ سے مراد انسان کامل ہیں اور اس سے مراد یہ ہوگی کہ ایمان ان کی طرح لائو جو صفت انسانیت میں کامل ہیں اور واقعی انسان کہلانے کے مستحق ہیں جس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جو منافقین و منکرین ہیں وہ صورۃً انسان ہیں لیکن حقیقۃً اپنی ناسمجھی کے لحاظ سے چوپائے یا حیوان ہیں کیونکہ جس چیز کا نام انسانیت ہے اس سے یہ لوگ عاری ہیں۔ منافقین کا طنز : 28: ” كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ 1ؕ“ کہہ کر منافقین نے گویا طنز کیا ہے اس وقت کے پکے اور سچے مسلمانوں پر یعنون اصحاب النبی (ابن جریر) یعنی رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ پر۔ سفاہت کہتے ہیں کوتاہ عقلی اور ناعاقبت اندیشی کو۔ منافقین اپنے آپ کو ارباب فہم و فراست خیال کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بیوقوف کہتے ہیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ مسلمانوں نے اسلام کی خاطر اپنے وطن عزیز کو ، خویش و اقارب کو اور مال و جائیداد کو قربان کردیا اس لئے وہ ان کی نظر میں بیوقوف سمجھے گئے ذرا غور کریں تو آج بھی ” ترقی پسند “ اور ” روشن خیالوں “ کے دربار سے ” جمود پسند “ اور ” رجعت پسند “ جیسے خطابات نیک لوگوں اور پکے مسلمانوں کو ملتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں بیوقوف وہ شخص ہے جو علم کی پروا نہیں کرتا ، اخلاق کی جانب سے اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور فضائل و محاسن کے کسب و حصول کی ضروریات محسوس نہیں کرتا۔ کیا احمق نے کبھی حماقت کا اعتراف کیا ہے ؟ 29: نو دو کتنے ہوتے ہیں ؟ ایک جواب دیتا ہے گیارہ ، اور دوسرا کہتا ہے سات۔ جواب کس کا صحیح ہے ؟ ساری دنیا کہے کہ پہلے کا جواب درست ہے لیکن دوسرا اس کو تسلیم نہ کرے تو ؟ بس سمجھ لو کیا ٹھکانا ہے ان کے حمق و نافہمی کا ؟ پہلے فساد کو اصلاح کہتے رہے۔ اب حمق بالائے حمق یہ ہے کہ عقل و دور اندیشی اور حکمت کو بےعقلی ٹھہرا رہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس “ ۔ ” پھانسی کا پھندہ اسی کے گلے میں ڈال دو جس کو فٹ آئے۔ “ ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ زور آور بھی ہیں اور بیوقوف بھی۔ پھر بیوقوف اگر اپنی بیوقوفی سمجھ لے تو وہ بیوقوف کیسے ہوا ؟
Top