Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
(حقیقت یہ ہے کہ) خود انہی کے ساتھ تمسخر ہو رہا ہے کہ اللہ نے ان کی رسّی ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور وہ اپنی اس سرکشی میں بہکے چلے جا رہے ہیں
اللہ کا استہزاء منافقین کے ساتھ کیسا ہے ؟ 33: استہزاء و تمسخر جہالت ہے۔ قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ نے استہزاء و تمسخر کی اجازت کسی مسلمان کو بھی نہیں دی بلکہ بار بار ان افعال شنیعہ سے منع فرمایا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے وحی پا کر قوم کو ایک گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم سن کر قوم کے لوگوں نے موسیٰ سے کہا کہ اے موسیٰ ایسا حکم دے کر آپ ہم سے ہنسی کر رہے ہیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا اللہ کی پناہ ! میں آپ سے ہنسی کیوں کروں گا ؟ ہنسی کرنا تو جاہلوں اور نااہلوں کا کام ہے۔ یہ واقعہ آگے چل کر اس سورة البقرہ میں آئے گا۔ اس لحاظ سے قابل غور امر یہ ہے کہ اللہ اس سے کیوں کر ہنسی اور تمسخر کرے گا ؟ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ دراصل اس کی حقیقت اللہ نے خود واضح کردی ہے ہم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ قارئین کو یہ تعجب اس لئے ہوتا ہے کہ ہمارے مترجمین نے ” اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ “ کا ترجمہ عربی زبان کا عربی زبان ہی میں کردیا ہے اردوزبان استعمال نہیں کی اور ایسا اکثر و بیشتر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ عام قاری مبہوت سا ہو کر رہ جاتا ہے لیکن جب اس کو طرح مصرع یوں دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا ارشاد ہے کیا تم اللہ کے ارشاد پر نکتہ چینی کرتے ہو ؟ تو اس کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہیں ہوتا۔ حالانکہ اللہ کی ذات اور استہزاء۔ توبہ۔ کیا کہہ رہے ہو ؟ ذرا رک جائو اور بات سمجھ لو۔ آیت زیر نظر میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ” وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ 0015 “ بس اس کو قرآن کی زبان میں ” یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پھر غور کرو اور دیکھو کہ منافقین کا تمسخر یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو باور کرایا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور اپنے سرداروں سے کہا تھا کہ ہم مسلمان تو نہیں صرف ٹھٹھہ و مذاق کے لئے وہاں جا کر بیٹھ جاتے ہیں ضروری تھا کہ ان کو اس جرم کی سزا ملتی لیکن اللہ کے قانون تکوینی سے ان کو فوراً سزا نہیں ملی بلکہ ایک وقت مقرر تک موخر کردی گئی۔ جس کو اس طرح بیان کیا گیا کہ اللہ کے قانون تکوینی نے اس کی رسی ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور وہ اپنی اس سرکشی میں بہکے چلے جا رہے ہیں اس مضمون کو استہزاء سے تعبیر کیا گیا ؟ کیوں ؟ اس لئے کہ خالق کائنات نے بندوں کو جو آزادی و اختیار دے رکھا ہے اس میں وہ خواہ مخواہ دست اندازی کبھی نہیں کرتا۔ سانپ کو کاٹنے کی ، زہر کو ہلاک کرنے کی ، آگ کو جلانے کی یہ ساری اجازتیں اور آزادیاں اسی قانون کے مطابق ہیں پس منافقین کا اپنی سرکشی میں بہکے چلے جانا اور ان کو فوراً سزا نہ ملنا ہی استہزاء ہے جس کی نسبت اللہ کی طرف اس کے قانون تکوینی کی وجہ سے ہے۔ وحی الٰہی کی روشنی سے محرومی کے بعد انسان کی واقعی یہی حالت ہوجاتی ہے۔ اپنی محدود ناقص عقل کے سہارے وہ چاروں طرف ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ طرح طرح کے نظریئے قائم کرتا ہے اصول و کلیات بناتا ہے۔ ہر طرف ظن وتخمین کے گھوڑے دوڑاتا ہے۔ کھلا ہوا راستہ کوئی سجھائی نہیں دیتاوہ شک و ارتباب اور بےاطمینانی کے دلدل میں اور زیادہ پھنستا چلا جاتا ہے۔ فافھم و تتدبر
Top