Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 241
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ
: اور مطلقہ عورتوں کے لیے
مَتَاعٌ
: نان نفقہ
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
حَقًّا
: لازم
عَلَي
: پر
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار (جمع)
اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو تو چاہیے کہ انہیں مناسب طریقہ پر فائدہ پہنچایا جائے متقی انسانوں کے لیے ایسا کرنا لازمی و ضروری ہے
طلاق دینے کے بعد بھی عورت کے فائدہ کا خیال رکھنا پرہیز گاری ہے : 407: طلاق کا مطلب ازدواجی زندگی کا انقطاع ہے کہ اب دونوں میاں بیوی نہیں رہے۔ ہر طلاق والی کی حالت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کوئی عورت ایسے حالات رکھتی ہے کہ طلاق ہوجانے کے بعد بھی اس کے پاس دن گزارنے کے لئے اثاثہ موجود ہوتا ہے لیکن کوئی ایسی بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے لئے ایک دن بھی گزارنا مشکل ہو۔ اب طلاق تو ہوگئی لیکن انسانی ہمدردی کے تحت جس نے طلاق دی ہے اس کا کوئی انتظام کر دے کہ وہ حالات کی سازگاری تک وقت گزار سکے تو یہ ایک اچھا اقدام ہے جس کا خیر مقدم کیا جائے گا اور یہ احسان اس طلاق دینے والے کا اس کی پرہیز گاری پر دال ہے کہ ازدواجی تعلق منسوخ کرنے کے باوجود اس کی انسانی ہمدردی جاری ہے۔ خاوند کی وفات کے بعد تو عورت کو ایک معقول حصہ متوفی کی جائیداد سے مل جائے گا جو چوتھایا آٹھواں ہوگا۔ یہ حصہ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ وہ عورت مرنے والے کی بیوی تھی اگرچہ اس کی وفات سے یہ تعلق منقطع ہوگیا لیکن آخر تعلق قائم رہنے کا بھی کوئی صلہ ہونا چاہئے چناچہ اسلام نے اس اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے تعلق ٹوٹ جانے کے بعد بھی ایک دوسرے کی میراث میں حصہ دار بنادیا۔ اسی طرح طلاق نام ہے ازدواجی تعلق کے منقطع ہونے کا ، خاوند نے طلاق دی اور وہ تعلق منقطع ہوگیا لیکن آخر ایک عرصہ یا مدت تک جو تعلق قائم رہا اسکا کیا ہوا ؟ فرمایا کہ : ” جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو تو چاہئے کہ انہیں مناسب طریقہ پر فائدہ پہنچایا جائے ، ،۔ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ 1ؕ، یعنی انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے یہ انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے جو متقیوں کی ذمہ داری ہے کہ اسکو پوراکریں۔ ” طلاقِ ثلاثہ “ پر مختصر کلام نکاح و طلاق کا بیان ختم ہو رہا ہے اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ” طلاق ثلاثہ “ کے متعلق ذرا تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جائے تاکہ دور حاضر میں جو فریقین میں بحث وتمحیث اور حلت و حرمت کی تشریح پر نوک جھونک ہوتی رہتی ہے اس کی حقیقت واضح ہوجائے اور علمائے اسلام نے اپنے ارد گرد جو حلقہ سحر کھینچ لیا ہے اس سے باہر نکل کر بھی دیکھیں اور اسلام کے منہ پر داغ نہ بنیں بلکہ خود اپنا منہ دیکھنے کی بھی کوشش کریں۔ اسلام اپنی صداقت کی خود دلیل ہے۔ اس کی تعلیمات ، عقائد اور احکام شرعیہ کی طویل فہرست سے کوئی ساعنوان لے لیجئے اور اس کا گہری نظر سے مطالعہ کیجئے۔ آپ بےساختہ کہہ اٹھیں گے : اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى ۙ004 (النجم 53 : 4) مندرجہ سطور میں مجھے آپ کی خدمت میں اسلام کے نظام طلاق کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کا وجود مظلومیت کا مجسمہ تھا۔ یہ فرائض کے بارگراں کے نیچے دبی چلی جا رہی تھی۔ لیکن جہاں تک اس کے حقوق کا تعلق تھا ۔ کسی کو ان کا احساس تک نہ تھا۔ طلاق کے سلسلے میں اسلام نے جو عادلانہ اصلاح کی اور اس اصلاح پر جو خوشگوار اور دور رس نتائج برآمد ہوئے اگر انہیں پر انسان منصفانہ نگاہ ڈالے تو اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اسلام کسی انسانی دماغ کی اختراع نہیں بلکہ یہ حکیم وعلیم خدا کا نازل کردہ دین ہے۔ اس وقت مشرق میں ہندوستان کے نیم براعظم میں بسنے والے لوگوں کے نزدیک ایک دفعہ شادی ہوجانے کے بعد یہ رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح مسیحی دنیا میں بھی جو سارے مغرب کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھی۔ یہ اتنا مقدس تھا کہ اس کو توڑنا سخت گناہ تھا۔ چناچہ انجیل میں ہے۔ ” جسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدانہ کرے۔ “ (متی 19 : 6) اس کے برعکس عرب میں یہ رواج تھا کہ خاوند اپنی بیوی کو ان گنت بار طلاق دے سکتا تھا چناچہ مفسر کبیر ابن جریر (رح) لکھتے ہیں کہ : مرد جتنی بار چاہتا اپنی بیوی کو طلاق دیتا کوئی پابندی نہ تھی اور ہر بار عدت گزرنے سے پہلے وہ رجوع کرسکتا تھا ۔ کہ ایک دفعہ ایک انصاریٰ نے اپنی بیوی کو دھمکی دی : لا اقربک ولا تحلین منی ، کہ : ” نہ تو میں تمہارے نزدیک جاؤں گا اور نہ تو مجھ سے آزاد سکے گی۔ “ اس کی بیوی نے اس سے پوچھا یہ کیسے ؟ تو وہ بولا : اطلقک حتی اذادنا اجلک راجعتکم ثم اطلقک فاذا دنا اجلک راجعتک ( میں تجھے طلاق دوں گا ، پھر جب عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو میں رجوع کرلوں گا ، پھر طلاق دوں گا اور پھر عدت گزرنے سے پہلے پہلے رجوع کرلوں گا۔ اسی طرح طلاق دیتا اور رجوع کرتا رہوں گا) ۔ وہ اپنا تاریک مستقبل کا تصور کر کے لرز گئی اور شکوہ کناں بارگاہ رسالت ماب رحمۃ للعالمین ﷺ میں حاضر ہوئی اور اپنی مظلومیت کی داستان عرض کی۔ پروردگارِ عالم نے اپنے حبیب مکرم ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی جس نے عورت کے بیشتر مصائب کا خاتمہ کردیا اور عائلی قانون میں وہ تاریخی انقلابی لیکن عادلانہ اصلاح فرمائی جس نے بڑے بڑے دانشمندوں کو محو حیرت کردیا۔ اسلام کے نزدیک رشتہ ازدواج ایک مقدس رشتہ ہے۔ یہی وہ خشت اول ہے۔ جس پر تمدن و عمران کا قصر رفع اٹھایا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی و حدت ہے جس سے قومیں معرض وجود میں آتی ہیں۔ اس کا جتنا احترام کیا جائے اتنا کم ہے لیکن بعض اوقات حالات اتنے سنگین ہوجاتے ہیں کہ میاں بیوی کا مل کر رہنا دونوں کے لئے شقاوت کا باعث ہوتا ہے۔ مزاجوں میں باہمی اتنا بعد ہوتا ہے۔ کہ ان کو باہم جکڑے رکھنا دونوں کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اس تعلق کو اس کے تقدس کے باوجود منقطع کرنا دونوں کے لئے بلکہ سارے معاشرہ کے لئے خیرو برکت کا موجب ہوتا ہے۔ اس لئے اسلام نے ان ناگزیر حالات میں طلاق کی اجازت دی لیکن ساتھ ہی تنبیہ بھی کردی کہ : ان ابغض الحلال عند اللہ الطلاق (طلاق حلال تو ہے لیکن اس کا استعمال اللہ کے نزدیک بہت مبغوض ہے) اور صرف اسی پر اکتفانہ کیا۔ بلکہ طلاق دینے کا وہ حکیمانہ طریقہ سکھایا جس کے مطابق عمل کرنے سے اصلاح حال کا کوئی امکانی موقع ہاتھ سے نہیں چھوٹنے پاتا۔ اب آپ وہ طریقہ ملاحظہ فرمایئے : اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ 1۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ 1ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْـًٔا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ 1ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ 1ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ 1ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا 1ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ 00229 فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ 1ؕ .... (البقرہ 2 : 229 ، 230) ” طلاق یعنی جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے دوبارہ ہے۔ پھر اس کے بعد شوہر کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو اچھے طریقے پر روک لینا یعنی رجوع کرلینا یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اپنی بیویوں کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں ! اگر شوہر اور بیوی کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات وحقوق ادا نہ ہو سکیں گے تو باہمی رضامندی سے ایسا ہو سکتا ہے۔ اگر تم دیکھو کہ واقعی اندیشہ ہے خدا کے ٹھہرائے ہوئے واجبات حقوق ادا نہ ہو سکیں گے تو پھر شوہر اور بیوی میں کچھ گناہ نہیں ہوگا اگر بیوی اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے بطور معاوضے کے کچھ دے دے یاد رکھو یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں پس ان سے قدم باہر نہ نکالو جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدبندیوں سے نکل جائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں ۔ اگر ایسا ہوا کہ ایک شخص نے دو طلاقوں کے بعد رجوع نہ کیا اور تیسرے مہینے تیسری طلاق بھی دے دی تو پھر دونوں میں قطعی جدائی ہوگئی اور اب شوہر کے لئے وہ عورت جائز نہ ہوگی جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں نہ آجائے۔ اب ذرا تفصیلاً وہ طریقہ جسے قرآن کریم نے بیان فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے جس کی وضاحت فرمائی وہ درج ذیل ہے : یاد رہے کہ طلاق کی تین قسمیں ہیں : احسن ، حسن اور بدعی۔ ! : طلاق احسن : اس کو کہتے ہیں کہ جب عورت ایام حیض سے فارغ ہو تو خاوند اس سے مقاربت کرنے سے پہلے صرف ایک طلاق دے اور اس کے بعد اسے کوئی طلاق نہ دے یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہوجائے۔ " : طلاق حسن : جب عورت ایام حیض سے فارغ ہو تو مقاربت سے پہلے مرد عورت کو ایک طلاق دے۔ ایک ماہ بعد جب پھر عورت ایام حیض سے فارغ ہو تو مقاربت سے پہلے مرد عورت کو دوسری طلاق دے۔ ایک ماہ بعد جب پھر عورت ایام حیض سے فارغ ہو تو مقاربت سے پہلے مرد عورت کو تیسری طلاق دے۔ تیسری طلاق کے بعد وہ عورت اس پر قطعی حرام ہوجائے گی۔ جب تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے بالکل ایسا نکاح جیسے اس نے پہلے خاوند سے بسنے کی نیت سے کیا تھا اور پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دیدے۔ اس وقت تک وہ دوبارہ پہلے خاوند کے عقد میں نہیں آسکتی۔ اگر آپ طلاق کے اس طریقہ پر غور فرمائیں۔ تو آپ پر واضح ہوجائے گا کہ زوجیت کا رشتہ اسلام کے نزدیک کتنا اہم ہے اور اسلام اس کی سلامتی کا کتنا خواہاں ہے۔ خاوند کو سوچ بچار کے لئے ایک طویل وقت دیا جاتا ہے کہ تم اپنے آشیانے کو درہم برہم کرنے کا قطعی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک بار نہیں ، بار بار خوب سوچ لو۔ تم اپنے ایک ساتھی کو چھوڑ رہے ہو۔ جو تمہارا جیون ساتھی ہے۔ تم اپنے بچوں کو مہرمادری سے محروم کر رہے ہو۔ تم ان سے وہ گود چھین رہے ہو جو ان کے لئے لئے ‘ تخت طاؤس اور قصر ابیض سے زیادہ عزیز ہے۔ اسلام چاہتا ہے۔ کہ اس عرصے میں ہنگامی وجوہات کے باعث جذبات میں جو تیزی ، تعلقات میں جو تلخی اور مزاج میں جو براہمی پیدا ہوگئی ہے وہ فرو ہوجائے اور اپنی رفیقہ حیات سے مفارفت کا جو فیصلہ آپ نے کیا ہے اس پر خوب غور کرلیں تاکہ پھر کف افسوس نہ ملتے رہیں اور اشک ندامت نہ بہاتے رہیں۔ یہ مہلت عورت کے لئے بھی بڑی قیمتی ہے۔ وہ بھی اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل پر غور کرلے اور اگر زیادتی یا قصور اس کا ہے تو وہ بھی اگر اپنی اصلاح کرنا چاہے تو کرے اور اپنی وفاداری اور فرمانبرداری کا اپنے شریک حیات کو یقین دلا دے اور اس کے آئینہ دل پر کدورت کا جو غبار جم گیا ہے۔ اسے اپنی سلیقہ شعاری سے اس مدت میں دور کر دے۔ لیکن اگر اتنی مدت دراز میں بھی دونوں میں صلح نہ ہوسکے اور خاوند اپنے فیصلے پر اڑا رہے تو پھر بہتری اسی میں ہے کہ اس رشتہ کو کاٹ دیا جائے تاکہ یہ پھانسی کا پھندا بن کر دونوں کے گلے میں نہ لٹکتا رہے۔ اس کے باوجود بھی یہ ہدایت فرمائی۔ کہ طلاق حیض کے ایام میں نہ ہو۔ کیونکہ ان ایام میں طبعی منافرت پیدا ہوجاتی ہے اور طہر میں بھی مقاربت سے پہلے طلاق دینے کی ہدایت کی تاکہ رغبت میں فتور پیدا نہ ہوجائے اور یہ دونوں عوامل کہیں مفارقت کے جذبہ کو تقویت نہ پہنچائیں۔ اس طریقہ کار سے عورت نہ تو باز یچہ اطفال بنی رہتی ہے کہ آپ جب تک چاہیں اس کی قسمت کے ساتھ کھیلتے رہیں جب چاہیں پچاس طلاقیں دے دیں اور ہر بار عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیا کریں اور اسے اپنے نکاح کی زنجیر میں جکڑے رکھیں اور نہ وہ پابندی کہ میاں بیوی لاکھ چاہیں کہ ہم جدائی اختیار کرلیں اس میں ہم دونوں کی بہتری ہے لیکن قانون کا ڈنڈا ان کے سروں پر لٹک رہا ہو اور انہیں بتا رہا ہوں کہ تم مرو یا جیو ، اب تمہیں زندان زوجیت سے رہائی نہیں مل سکتی خواہ تمہاری تخلیقی قوتوں کا دَم گھٹ جائے خواہ تمہاری تعمیری صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں پریم کا جو پیالہ امرت سمجھ کر تم نے خوشی یا ناخوشی سے ہونٹوں سے لگایا تھا اب لبوں سے ہٹایا نہیں جاسکتا خواہ حالات نے اس میں زہر ِہلا ہل گھول دیا ہو۔ #: طلاق بدعی : یہ طلاق کی تیسری قسم ہے اور یہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس میں مندرجہ بالا دونوں طریقوں کے خلاف طلاق دی گئی ہو۔ یعنی تین طلاقیں ایک ساتھ دے دینا۔ ایک مجلس میں طلاق ، طلاق ، طلاق کا لفظ بولنا یا تو تین طلاقوں سے مجھ پر حرام ۔ میں نے تجھے تینوں طلاقیں دیں۔ میں نے تجھے طلاق دیں میں نے تجھے طلاق دی۔ طلاق دی ۔ طلاق دی۔ اس کو طلاق بدعی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کیونکہ طلاق کا جو طریقہ اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے بتایا اور سکھایا ہے اس کے خلاف طلاق دی گئی ہے۔ تمام علمائے اسلام خواہ وہ کسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں اور سارے فقہاء ، خصوصا فقہائے اربعہ اس طلاق بدعی کو حرام کہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی گئی ہے۔ ہاں ! اس بات میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر اس طرح کوئی طلاق دے توتینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں یا ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ علماء فقہاء کی اکثریت کا مذہب یہ ہے کہ اس طرح طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور عورت حرام ہوجاتی ہے اور جب تک ” حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ 1ؕ“ کے مطابق کسی دوسرے خاوند سے وہ نکاح نہ کرے اس کے عقد میں نہیں آسکتی اور بعض علماء فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اس طرح طلاق دینے سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے باقی دونوں طلاقیں لغو ہوجاتی ہیں ۔ گویا طلاق کے متعلق جتنا اختلاف ہے وہ سب کا سب طلاق بدعی یا جو طلاق دینے کا طریقہ متفق علیہ حرام ہے اس کے متعلق ہے۔ طلاق دینے کا وہ طریقہ جو کتاب و سنت سے ثابت ہے اس میں پورے عالم اسلام میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ اس سے پیشتر کہ ہم اس اختلافی طریقہ طلاق کے متعلق کسی فیصلہ تک پہنچیں ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اس پر غور کریں کہ طلاق دینے کا وہ طریقہ جو سارے مکاتب فکر میں متفق علیہ ہے اور اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا بتایا ہوا طریقہ ہے وہ متروک کیوں ہوگیا ؟ اس کے بحال کرنے کی صورت کیا ہے ؟ الٰہی ہدایت اور سنت رسول (a) کے خلاف کرنے والے کی بھی کوئی سزا ہونا چاہئے یا نہیں ؟ اس سے فارغ ہو کر ہمیں پوری فراخ دلی ، انتہائی خلوص اور للہیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر فریقین کے دلائل پر غور کرنا چاہئے اور امت کے سامنے اس اختلافی مسائل کا حل پیش کرنا چاہئے۔ ایسی صورت میں جب طلاق ناگزیر ہو توطلاق دینے کا شرعی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ طلاق دینے کا شرعی طریقہ اول وہی ہے جس کو ” احسن “ کہا گیا ہے۔ جس میں یہ باتیں ضروری ہیں : ! : صرف ایک طلاق دی جائے۔ زبان سے کہا جائے یا تحریر کیا جائے دونوں صورتوں میں واضح طور پر یہ کہنا چاہئے کہ میں نے ” ایک طلاق دی “۔ میں نے تجھے طلاق دی صرف اور صرف ایک بار طلاق دینے پر اکتفا کیا جائے۔ " : طلاق دو عادل گواہوں کی موجودگی میں دی جائے۔ #: حالت طہر میں طلاق دی جائے۔ یعنی ان دنوں میں جن میں عورت ماہانہ اذیت کے دنوں میں نہ ہو اور اس حالت طہر میں زنا شوئی کا تعلق بھی قائم نہ کیا ہو۔ $: ایک طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے دی جائے جو کہ تین ماہانہ اذیت کے دنوں تک ہے۔ ہاں ! اگر بیوی حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ عورت کو ماہانہ اذیت کے دن نہ ہوتے ہوں معمر ہونے کی صورت میں ، چھوٹی عمر ہونے کی صورت میں یا بیماری کی صورت میں تو مدت عدت تین ماہ ہے اور جس روز طلاق ہوئی ہے اس سے شمار کر کے تین قمری مہینے پورے ہونے کے بعد مدت عدت ختم ہوجاتی ہے۔ %: عدت کے اندر چونکہ رجوع کا مرد کو حق ہے اگر رجوع کرنا چاہتا ہے تو صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ ” میں نے رجوع کیا “ ہاں ! رجوع کے وقت بھی دو عادل گواہوں کا ہونا ضروری یا بہتر ہے۔ ^: عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو مدت عدت پورے ہوتے ہی طلاق بائن ہوگئی یعنی طلاق مکمل ہوگئی اب اگر مرد رجوع چاہے تو رجوع نہیں کرسکتا۔ عورت بالکل اس کے نکاح سے فارغ ہوگئی۔ اب جہاں چاہے وہ نکاح کرسکتی ہے اس ایک طلاق دینے والے خاوند کی طرف سے کوئی مجبوری ، کوئی پابندی ، کوئی دباؤ ، کوئی قید ہرگز ہرگز جائز و درست نہیں بلکہ صریحاً حرام اور کفر ہے۔ : مدت عدت کے بعد جس طرح آزادی کے ساتھ سوچ سمجھ کر کسی بھی مرد سے نکاح کرسکتی ہے بالکل اسی طرح اس ایک طلاق دینے والے مرد سے بھی نکاح کرسکتی ہے اگر وہ دونوں پسند کریں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طلاق دینے کا یہ طریقہ متروک کیوں ہوگیا ؟ اس لئے کہ : ! : دین اسلام سے اتنا بعد ہوگیا کہ سوائے اس کے کہ ہمارا نام مسلمانوں کا سا ہے اور پیدائشی طور پر مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے کی وجہ سے سارے کاغذات میں ہمارا دین یا مذہب ” اسلام “ لکھ دیا گیا ہے۔ جو کچھ ہم اپنے معاشرہ میں باپ دادا کو کرتے دیکھتے ہیں وہی سب کچھ ہم کرتے جا رہے ہیں ۔ ہمارے لوگوں میں سے %99 لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ایک طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے بلکہ اکثریت یہی جانتی ہے کہ جب تک تین طلاقیں نہ دی جائیں طلاق ہوتی ہی نہیں۔ اس لئے وہ پیچھا چھڑانے کے لئے طلاق ، طلاق ، طلاق کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یا کراتے ہیں۔ " : طلاق دینے والوں میں سے %99 لوگ لڑائی جھگڑا کرنے کے بعد بحالت غصہ طلاق دے دیتے ہیں کبھی کسی نے سوچ سمجھ کر۔ ہر لحاظ سے جائزہ لے کر طلاق کا فیصلہ کر کے طلاق نہیں دی بلکہ طلاق یوں دی جاتی ہے جیسے غصہ میں آکر کوئی بندوق چلا کر فائر کردے۔ طلاق گویا مرد کے پاس ایک بندوق ہے جس سے تین فائر نکال کر اس عورت کو طلاق کی موت مار دیتا ہے جس کو اس وقت وہ اپنا دشمن سمجھ رہا ہوتا ہے۔ پھر غصہ فرو ہوتے ہیں جب وہ شعور میں واپس آتا ہے اور بیوی کو زندہ موجود پاتا ہے تو دست افسوس ملتا ہوا مذہبی ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے کہ اب میرے کہے کا کوئی علاج پھر وہ اس کو اپنے اپنے نسخہ جات بتاتے ہیں وہ حساب کتاب لگا کر جو اس کو سستا نظر آتا ہے وہ استعمال کرلیتا ہے اور جو صرف اپنے گھریلو ڈاکٹر ہی سے علاج کروانے کے عادی ہیں وہ اس سے علاج کرانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ #: نکاح و طلاق کے لئے جو قانون بنائے گئے اور ان کا جو طریق کار بتایا گیا اس میں اسلامی اصولوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا اور خصوصاً طلاق دینے اور طلاق کا فیصلہ صادر کرنے کے لئے جو کچھ ضبط تحریر ہو اس میں سے بیشتر حصہ محض بیکار رکھا گیا۔ $: مرد کی طرف سے طلاق کے ایک نوٹس پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ اس کو مجبور کیا گیا کہ دوسرے مہینہ اور تیسرے مہینہ میں بھی نوٹس طلاق دے ورنہ طلاق نافذ نہیں ہوگی۔ اس بات نے لوگوں کو مزید اس نظریہ پر پختہ کیا کہ ایک طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ایک چیز کو ترک کرانے کے لئے باقاعدہ قانون بنائے گئے۔ ان کو نافذ کیا گیا۔ اس کو ترک کرنے پر لوگوں کو مجبور کیا گیا اور پھر یہ سوال کہ یہ طریقہ متروک کیوں ہوگیا ؟ متروک نہیں ہوا بلکہ بزور ترک کرایا گیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اگر یہ طریقہ ترک نہ ہوتا تو ہمارے مذہبی ڈاکٹروں کے وہ سارے نسخہ جات بےکار ہوجاتے اور پھر آخر ان کو کون پوچھتا ؟ رہا یہ سوال کہ اس کے بحال کرنے کی کیا صورت ہے ؟ ! : حق کو حق مان لینے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ ہمارے علمائے کرام قوم کو باور کرادیں کہ ایک طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اس کے جتنے فوائد بیان کئے جاسکتے ہیں وہ بیان کریں۔ " : قانون نافذ کرانے ادارے قانونی سقم کو دور کریں۔ عرائض نویسوں کے لئے بھی اس سلسلہ میں ہدایات جاری کریں کہ وہ طلاق نامہ لکھتے وقت لکھوانے والے کو باور کرائیں کہ وہ ایک طلاق کا نوٹس تحریر کرائے اور اس پر بھی عمل درآمد ہونے کی اس کو یقین دہانی کرائیں۔ بیک وقت تین طلاق دینے والا ایک حرام فعل کا مرتکب ہوا ہے اس کے لئے مناسب سزا مقرر کرنا ہی اس کا علاج ہے۔ ! : بیک وقت تین طلاق دینے والے کو مخاطب کر کے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ : ” ایلعب ب کتاب اللہ وانا بین اظھرکم “ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ؟ جب کہ میں خود تمہارے درمیان موجود ہوں۔ دیکھ لیا جاتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس فعل کے مرتکب کو جو ڈانٹ پلائی اس کا مطلب کیا ہے ؟ پھر غور کرلیا جائے کہ آپ ﷺ نے اس فعل کے مرتکب پر تینوں طلاقیں نافذکرادیں یا نہیں ؟ " : اسلامی حکومت کو حق ہے کہ جب غیر اسلامی افعال ہونے لگیں تو ان کو روک تھام کے لئے مناسب قانون بنایا جائے جو ایک مستقل قانون کی حیثیت نہیں رکھے گا اور اس میں ضرورت کے مطابق ترمیم بھی کی جاسکے گی۔ اس بات کے پیش نظر عمر فاروق ؓ نے کئی ایک چیزوں کا سدباب کرنے کے لئے مختلف قانون بنائے تھے جو وقتی طور پر رائج کئے گئے اور پھر بعد میں ان میں ترمیم بھی ہوئی اور کئی ایک بالکل منسوخ بھی کئے گئے۔ ان ہی میں سے ایک طلاق کا مسئلہ بھی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے خود بیک وقت تین طلاق دینے والے کو یہ تادیب کی کہ ” کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ” سید نا عمر فاروق ؓ کے پہلے دو سالوں کے بعد لوگوں میں اس طرح بیک وقت تین طلاق دینے کا غیر شرعی فعل ہونے لگا تو آپ نے یعنی سیدنا عمر فاروق ؓ نے ارشاد فرمایا : إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِی أَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَهُمْ فِیہِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْهِمْ فَأَمْضَاہُ عَلَیْهِمْ ۔ (صحیح مسلم ج 1 ص 477 ، مسند احمد ج 17 ص 7) وہ چیز جس میں لوگوں کے سوچنے کا بڑا موقع تھا اس میں انہوں نے بڑی جلد بازی سے کام لیا پس بہتر ہے کہ ” ہم ان پر اپنا حکم نافذ کریں تو آپ نے ان پر اپنا حکم نافذ کردیا۔ “ گویا تین طلاق بیک وقت دینے والوں کے لئے یہ سزا تھی جو سیدنا عمر فاروق ؓ نے تجویز فرمائی کہ اس طلاق کو ” طلاق مغلظہ “ ماننے کا حکم فرمایا۔ یہ سزا یقینا اس وقت سزا ہی تھی لیکن حالات زمانہ نے آج اس سزا کو سزا نہیں رہنے دیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس سے حلالہ کا دروازہ کھول دیا گیا۔ ہمارا چیلنج ہے کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا یہ تادیبی حکم یا سزاً تجویز کردہ حکم جن لوگوں پر نافذ ہوا ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے اس مروجہ حلالہ کی صورت کو اختیار کر کے دوبارہ نکاح کیا ہو جو آج کل یا سیدنا عمر فاروق ؓ کے ایک زمانہ بعد سے یہ وبا نکلی کہ تین طلاق بیک وقت دینے والوں نے کتاب اللہ کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا کہ ان لوگوں نے کھیلنا شروع کردیا جنہوں نے حلالہ کی بدرسم کو ترویج دی اور اس سے ایک حرام فعل کو حلال کر دکھایا۔ نیکی کے نام سے برائی کی اور برائی کرنے کا پیسہ بھی وصول کیا۔ اگر مرد کسی وجہ سے حالات کو زیادہ ہی ٹائٹ کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کو حق ہے کہ وہ طلاق کا وہ طریقہ اختیار کرے جس کی کم از کم اس کے لئے گنجائش ہے یعنی ایک بار طلاق کا حق ان ساری شرائط کے ساتھ جن کا ذکر ” طلاق احسن “ میں کیا گیا ہے استعمال کرے۔ ایک بار ماہانہ اذیت کے دن گزارنے کے بعد دوبارہ ” طلاق “ کے حق کا استعمال کرلے۔ اس طرح مرد نے طلاق دینے کے حق کو دوبارہ استعمال کرلیا یہ اس کا آخری حق تھا اس کے بعد اس کے پاس کوئی باقی نہیں رہا۔ عورت بھی اس کو اچھی طرح سمجھ لے گی۔ پھر عدت کے دنوں میں وہ رجوع کرنے کا جو حق رکھتا ہے اس میں سے یہ اس کا آخری حق ہے عدت کے دنوں میں اس کو خیال نہیں آیا تو عورت آزاد ہے یعنی اس کو طلاق مکمل ہوگئی اب مرد رجوع نہیں کرسکتا۔ عورت چاہے جہاں نکاح کرے پوری آزادی کے ساتھ کرسکتی ہے۔ جس طرح عورت آزادی کے ساتھ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے اس طرح اس مرد کے ساتھ بھی اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔ کتنی وسعت تھی شریعت میں جس نے ان کو دوسرا موقع بھی مل بیٹھنے کا فراہم کردیا۔ قرآن کریم نے اس صورت حال کے پیش نظر یہ ارشاد فرمایا کہ : اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ 1۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ 1ؕ ، طلاق دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد شوہر کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو اچھے طریقہ پر روک لے یا احسن سلوک سے الگ کردے۔ اگر دوبارہ حق استعمال کر چکنے کے بعد مرد نے پھر طلاق دے دی تو : فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ 1ؕ، پھر اگر تیسری طلاق دے دی تو وہ اس شوہر کے لئے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔ ہاں ! عورت نے جس کو تین طلاقیں ہوچکی تھیں کہیں دوسری جگہ نکاح کرلیا لیکن اتفاقاً وفات پا گیا یا اس نے طلاق دے دی اور پھر اس نے رجوع کا حق استعمال نہ کیا۔ مدت عدت گزر گئی اور عورت اس کے نکاح سے آزاد ہوگئی۔ اب وہ تیسرا نکاح کرنا چاہتی ہے۔ چونکہ وہ نکاح کرنے میں آزاد ہے چاہے جہاں کرے اس کو دوبارہ وہی مرد پسند آگیا جس نے اس کو پہلے تین طلاقیں دے کر فارغ کردیا تھا اور اس نے دوسری شادی کرلی تھی۔ اب تیسرے نکاح کے لئے پھر وہ اس مرد کا انتخاب کرسکتی ہے جب کہ وہ مرد بھی نکاح کے لئے تیار ہو۔ اگر ایسی صورت واقع ہوگئی تو یہ نکاح جائز ہوگا۔ بس ! یہ وہ رعایت تھی جس پر ہمارے مذہبی ڈاکٹروں نے اپنی دکان چمکائی اور طلاق کا احسن طریقہ قوم سے بالکل پوشیدہ کردیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ لوگوں کے ذہن میں غلط بات بیٹھ گئی تھی کہ ایک طلاق دینے سے طلاق نہیں ہوتی اس کو اس طرح ان کے ذہن میں رہنے دیا بلکہ اس کو پختہ کرنے کے لئے اس کو قانونی سہارا بھی فراہم کردیا اور سیدنا فاروق ؓ کا وہ تادیبی حکم بھی ان کے سہارے کا سبب بنا اور اس طرح انہوں نے بیک وقت تین طلاق کے مسئلہ ہی کو اصل مسئلہ بنا لیا اس لئے کہ اس میں ان کا سارا فائدہ موجود تھا۔ اگر لوگ شریعت کے احکام کے مطابق چلنا شروع کردیں تو آخر ان کو کون پوچھے گا اور یہ کس مرض کی دوا ہوں گے۔ بیک وقت تین طلاق دینے کی صورت اگر قوم سے ختم ہوجائے توحلالہ کا کاروبار ماند پڑتا ہے بلکہ اس کا نام و نشان ہی مٹ جاتا ہے اس لئے ہمارے مذہبی راہنماؤں کی اکثریت کا اب سارا زور اس پر ختم ہوجاتا ہے کہ وہ بیک وقت تین طلاق کو تین ثابت کرتے رہیں تاکہ اندرون خانہ حلالہ کا کاروبار بند نہ ہوجائے۔ حالانکہ طلاق کا اقدام ہی ایک مبغوض و مکروہ فعل ہے اگر بہ مجبوری اس اقدام کی نوبت آجائے تو اس کے کم سے کم درجے یعنی ایک طلاق پر اکتفا کیا جانا چاہئے تھا اور اس اقدام کے بعد عدت گزرنے دیں تو عدت ختم ہوتے ہی وہی ایک طلاق رشتہ زوجیت قطع کرنے کے لئے کافی و وافی تھی اور عورت آزاد ہو کر دوسرا نکاح کرسکتی تھی اور یہی طریقہ طلاق ” احسن “ کہلاتا ہے۔ اس طریقہ طلاق میں یہ حکمت اور فائدہ بھی ہے کہ صریح الفاظ میں ایک طلاق دینے سے طرفین کے لئے مصالحت کی راہیں کھلی رہیں گی عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے تو صرف طلاق سے رجوع کرلینا ہی بقائے نکاح کے لئے کافی ہے اور عدت ختم ہوجانے کے بعد اگرچہ نکاح ٹوٹ جائے گا اور عورت آزاد ہوجائے گی مگر پھر بھی یہ گنجائش باقی رہے گی کہ اگر دونوں میں اب مصالحت ہوجائے اور باہم نکاح کرنا چاہیں تو نکاح جدید اس وقت بھی ہو سکتا ہے۔ بیک وقت تین طلاق دی جانے کی صورت میں اگر ان کو تین ہی نافذ کردیا جائے تو یہ ساری رعایات مرد کی ختم ہوجاتی ہیں اور پھر صرف ایک صورت میں رعایت کی باقی رہتی ہے کہ یہ عورت کسی جگہ نکاح کرے اور پھر وہ خاوند جس سے اس دفعہ اس نے نکاح کیا ہے وہ مر جائے یا طلاق دے دے اور پھر عدت طلاق کے اندر وہ رجوع بھی نہ کرے تاآنکہ عورت بالکل آزاد ہوجائے پھر تیسرا نکاح عورت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس سے پہلے مرد سے جس نے اس کو طلاق دی تھی کرسکتی ہے ۔ اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہمارے ان مذہبی راہنماؤں نے بیک وقت تین طلاق کہنے والے کو بجائے اس کے کہ کوئی سزا تجویز کرتے انہوں نے تین طلاقیں نافذ کرنے کا فتویٰ جاری کیا اور پھر قانونی خانہ پری کرنے کے لئے نکاح ثانی کسی مرد سے وقتی طور پر کردیا رات رکھ لینے کی اجازت فراہم کردی اور اس طرح مذہبی دلالی کر کے دوسرے ہی روز طلاق دلوادی اور تاریخیں اول بدل کر کے پھر اس بیک وقت تین طلاق دینے والے کو نکاح کردیا اور اس ادلا بدلی میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کمائے اور حرام فعل کو بڑی چالاکی کے ساتھ حلال کر دکھایا۔ اس میں حرام فعل کیا تھا ؟ وہی جس کا نام حلالہ رکھا گیا۔ میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہونے کی صورت میں : فریقین کے درمیان کسی معاملہ میں تو تو میں میں ہوگئی۔ مرد طیش میں آگیا اور اس حالت میں اس نے بیوی کو طلاق دے دی اور یہ طلاق کا لفظ اس جھگڑے کے دروان اس نے بیسیوں بار بول دیا۔ گویا اَن گنت بار۔ انجام کا ربات رفع دفع ہوئی۔ غصہ ٹھنڈا ہوا تو مرد کو معلوم ہوا کہ میں نے تو کئی بار طلاق طلاق اور حرام حرام کا لفظ بولا ہے ۔ یہ معاملہ جب علماء کے پاس جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ کوئی پوچھے کہ اس نے توبیسیوں طلاقیں دی ہیں آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ تینوں واقع ہوگئی تو باقی کہاں گئیں ؟ ارشاد ہوتا ہے کہ باقی لغو ہوگئیں کیونکہ خاوند کو صرف تین طلاق دینے کا حق تھا اس سے زیادہ الفاظ جو اس نے بولے ہیں وہ سب خود بخود ختم ہوگئے۔ معلوم رہے کہ یہ جو فرمایا گیا کہ خاوند کو صرف تین طلاق دینے کا حق تھا زیادہ بار جو کچھ اس نے کہا وہ لغو ہوگیا۔ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ مرد کو تین بار طلاق دینے کا حق ہے جس میں ایک بار طلاق واقع ہوگئی رہی یہ بات کہ اس نے جو طلاق کے بار بار الفاظ استعمال کئے تو سب کے سب لغو ہوگئے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ مرد کو دو بار طلاق رجعی دینے کا حق تھا اس نے ایک حق استعمال کرلیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں مرد کو طلاق دینے کا حق ہی نہ تھا اس نے اگر فی الواقع غصہ کی حالت میں یہ اقدام کیا تو اس پر کوئی جرمانہ یا سزا ہونا چاہئے جس کے لئے اسلامی حکومت کو حق تھا کہ اس کی سزا یا جرمانہ تجویز کر کے قانونی طور پر نافذ کرتے تاکہ لوگ اس حرکت سے باز آتے۔ ایک مجلس کی تین یا زائد طلاق کو تین شمار کرنے کی دلیل ؟ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ نہیں بلکہ اشارۃً بھی کہیں اس کا ذکر نہیں فرمایا گیا کہ ایک مجلس میں مرد تین طلاق دے سکتا ہے یا اگر دے دے تو نافذ ہوسکتی ہیں۔ ہاں ! حدیث سے ایسا بول بولنے والے کو رسول اللہ ﷺ نے ” کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنے والا “ ارشاد فرمایا اور پھر ان تین کو تین نہیں بلکہ ایک طلاق ہونے کا حکم صادر فرمایا اور احادیث کی تمام کتب میں رسول اکرم ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں تین طلاق جو ایک مجلس میں دی گئی ہوں ایک شمار کرنے کی تصریح موجود ہے۔ یہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود ایک مجلس کی تین طلاق کو تین شمار کرنے والوں نے اس آیت سے استدلال کیا جس میں دو طلاق الگ الگ دینے کا ذکر تھا آیت وہی ہے جو اس سے پہلے درج کی جا چکی ہے کہ : ” اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ 1۪“ الخ اس آیت میں ” مَرَّتٰنِ 1۪“ دو مرتبہ کا جو لفظ آیا ہے اس سے طلاق کا لفظ دہرانا یعنی عدد کی صراحت کے ساتھ طلاق دینا مراد لے لیا۔ اس بناء پر ” طلاق ، طلاق طلاق “ یا ” تین طلاقیں “ کہہ دینے پر تین طلاق کا حکم لگا دیا گیا۔ حالانکہ ” مَرَّتٰنِ 1۪“ کا مطلب لفظ طلاق کو دہرانا نہیں بلکہ دو دفعہ طلاق دینا مراد ہے مطلب یہ تھا کہ دو دفعہ طلاق دینے کے بعد رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ ہاں ! تیسری مرتبہ یعنی تیسری بار ایسا واقعہ پیش آگیا تو پھر رجوع کا حق باقی نہیں رہے گا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ زندگی کے کسی حصہ میں بھی اگر مرد نے عورت کو ایک بار طلاق دے دی اگرچہ رجوع کرنے سے عورت کو وہ گھر میں آباد کرسکتا ہے لیکن یہ دی گئی طلاق اپنی جگہ قائم رہے گی جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ شریعت نے مرد کو تین بار طلاق دینے کا حق دیا تھا جس میں دو بار طلاق دے لینے تک تو اس کو رجوع کا بھی حق تھا مگر تیسری بار طلاق دینے کے بعد اس کو رجوع کا حق نہیں رہتا۔ لہٰذا اس نے جو طلاق دی وہ قائم رہی اب مرد نے رجوع کا حق استعمال کر کے عورت کو آباد کرلیا۔ اس طرح زندگی کے کسی حصہ میں اگر دوسرا واقعہ پیش آگیا تو اب دو طلاقیں واقع ہوگئیں لیکن ابھی عدت کے اندر اندر رجوع کا حق مرد کا قائم ہے اس دفعہ بھی مرد نے اپنا رجوع کا حق استعمال کرلیا تو جائز ہے یعنی اس کی بیوی کو دوطلاقیں ہوچکی ہیں اور وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں اور مرد نے دو بار اپنا حق استعمال کرلیا ہے اگر اس کے بعد زندگی کے کسی بھی حصہ میں مرد نے تیسری بار طلاق دے دی تو اب رجوع کر ہی نہیں سکتا کیونکہ رجوع کا حق وہ استعمال کرچکا ہے۔ لہٰذا ” اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ 1۪“ کا جو اصل مطلب تھا اس کو اپنے علمی ہیر پھیر سے کچھ کا کچھ کردیا۔ اس لئے ” مَرَّتٰنِ 1۪“ کا جو مطلب لیا جاتا ہے وہ درج ذیل وجوہ سے صحیح نہیں۔ اولاً لغت عرب میں ” مَرَّتٰنِ 1۪“ کا مطلب مرۃ بعد مرۃ ہے۔ یعنی ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ ، نہ کر محض لفظی تکرار اور اس کی نظیریں قرآن میں ملتی ہیں۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا : اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ (توبہ 9 : 126) ” کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہر سال ایک بار یا دو مرتبہ انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ “ اور دوسری جگہ فرمایا گیا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ 1ؕ (نور 24 : 58) ” اے ایمان والو ! تمہارے مملوک اور تمہارے نابالغ بچے تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں ، ،۔ اس آیت کے بعد تین اوقات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں ” ثَلٰثَ مَرّٰتٍ 1ؕ“ (تین اوقات) مطلب الگ الگ تین اوقات ہیں ، نہ کہ زمانہ واحد میں تین اوقات کا اجتماع۔ اس سے واضح ہوا کہ ” مَرّٰتٍ 1ؕ“ میں تفریق کا مفہوم شامل ہے۔ اگر کوئی مثال اجتماع کی پیش کی جاسکتی ہے تو وہ اعیان کی ہوگی ، نہ کہ افعال کی۔ کیونکہ فعل میں زمانہ واحد میں ” مَرّٰتٍ 1ؕ“ کا اجتماع ممکن نہیں۔ ثانیاً رمی جمار کی مثال ہے۔ سات کنکریاں مارنے کا حکم دیا ہے ، اگر کوئی شخص سات مرتبہ ایک ایک کنکری مارنے کے بجائے ایک ساتھ سات کنکریاں مارے گا تو حکم کی تعمیل نہیں ہوگی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک ہی رمی شمار ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ الفاظ کہے کہ میں تینتیس بار سبحان اللہ کہتا ہوں تو ایک ہی تسبیح شمار ہوگی ، نہ کہ تینتیس مرتبہ۔ ثالثاً چار قسموں کی مثال ہے جس کا حکم لعان کے سلسلہ میں دیا گیا ہے ، اگر کوئی شخص الگ الگ چار قسمیں کھانے کے بجائے ایک ساتھ کہہ دے کہ ” میں چار قسمیں کھا کر کہتا ہوں “ تو اس کی ایک ہی قسم شمار ہوگی ، نہ کہ چار۔ (مرتان کی بحث کے لیے ملاحظہ ہوعلامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعادج 4 ، ص : 59) اگر مذکورہ آیت میں مراد طلاق کا عدد ہوتا تو مَرَّتٰنِ 1۪ کی جگہ لفظ اثنتان استعمال کیا جاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مَرَّتٰنِ 1۪ سے مراد لفظ طلاق کی تکرار یا عدد نہیں ہے بلکہ الگ الگ دو دفعہ طلاق دینا ہے ۔ چناچہ امام رازی لکھتے ہیں : طلقوا مرتین یعنی دفعتین۔ (تفسیر الکبیرج 2 ص : 260) ” دو مرتبہ طلاق دو یعنی دو دفعہ طلاق دو ۔ “ ان اطلاق المشروع متفرق لان المرات لا تکون الا بعد تفرق بالا جماع۔ (ایضًا) مشروع طلاق یہ ہے کہ الگ الگ طلاق دی جائے ، کیونکہ بالا جماع ” مرات “ تفرق کے بعد ہی ممکن ہے۔ “ لہٰذا جب دو طلاقیں جو مجموعی طور پر ایک ہی دفعہ دی گئی ہوں ، دو شمار نہیں ہوں گی تو تین طلاقیں جو مجموعی طور پر ایک ہی دفعہ دی گئی ہوں کس طرح تین شمار ہوں گی ؟ پھر جس پس منظر میں تین طلاقوں کا حکم بیان کیا گیا ہے اس کو بھی اگر ملحوظ رکھا جائے تو بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بیک وقت کئی طلاقیں دینے کا رواج نہیں تھا ، بلکہ بار بار طلاقیں دی جاتی تھیں اور بار بار رجوع کیا جاتا تھا ۔ اس لئے ” اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ 1۪“ کا معہود یہی بار بار کی طلاقیں ہوگا ، نہ کہ بیک وقت دی جانے والی متعدد طلاقیں۔ سورۃ طلاق میں ہدایت کی گئی کہ جب طلاق دی جائے تو عدت کے لئے دی جائے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ 1ۚ (طلاق 65 : 1) ” اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو توعدت کے لئے طلاق دو اور عدت کو شمار کرو۔ “ عدت کے لئے طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے وقت میں طلاق دی جائے جب کہ عدت کا آغاز ہو سکے۔ جو شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا ہے وہ عدت کا لحاظ نہیں کرتا ، کیونکہ پہلی طلاق دیتے ہی عدت شروع ہوگئی ، لیکن دوسری اور تیسری طلاق میں عدت کا لحاظ نہیں رہا حالانکہ ہر طلاق کے لئے عدت کا لحاظ ضروری ہے۔ قرآن نے نہ صرف یہ حکم دیا ہے کہ عدت کا لحاظ کر کے طلاق دی جائے بلکہ عدت کے اندر رجوع کرنے کا بھی حق دیا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ 1۪ (بقرہ 2 : 231) ” جب عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے تو بھلے طریقہ سے انہیں روک لویا بھلے طریقہ سے رخصت کرو۔ “ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ جب عدت پوری ہو رہی ہو تو بھلے طریقہ پر روکا جاسکتا ہے ، یعنی عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کا یہ حق جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے ، کس نے ساقط کیا ؟ اگر کوئی نص ساقط کرنے کے لئے موجود ہے تو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ لیکن اگر ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ تیسری دفعہ کی طلاق سے پہلے عدت کے اندر مرد کو رجوع کا حق ہے۔ لہٰذا بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کے بعد بھی رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ بالفاظ دیگر تیسری دفعہ کی طلاق دو دفعہ دی ہوئی طلاق رجعی کے بعد ہی واقع ہوتی ہے ، نہ کہ بیک وقت ۔ اللہ نے الگ الگ طلاق دینے ہی کا اختیار مرد کو دیا ہے ، جیسا کہ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ 1۪سے ظاہر ہے۔ لہٰذا جب جمع کرنے کا اختیار ہی نہیں دیا گیا تو آن واحد میں دی جانے والی تین طلاقیں کس طرح تین واقع ہوں گی ؟ ایک اور پہلو سے بھی غور کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایلاء (بیوی سے علیحدہ رہنے کی قسم کھانا) کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ 1ؕ۔ ” مطلقہ عورتیں اپنے کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ “ اور اسی سیاق میں فرمایا : وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا 1ؕ (البقرہ 2 : 228) ” ان کے شوہر تعلقات درست کرنے پر آمادہ ہوں تو وہ اس عدت کے دوران انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے حقدار ہیں۔ “ معلوم ہوا کہ ایلاء میں بھی رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ دوسری مثال ظہار کی ہے۔ یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ۔ زمانہ جاہلیت میں اسے طلاق بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید قطع تعلق کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔ چناچہ ظہار کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تھی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ اِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا 1ؕ (مجادلہ 58 : 2) ” یہ لوگ ایک منکر اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ “ ظہار کو منکر اور زور قرار دینے کے باوجود اس کا صرف کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ، یعنی ظہار کو طلاق نہیں ٹھہرایا اور جاہلیت کے اس رواج کو کہ بیوی کو ماں سے تشبیہ دینے کی صورت میں وہ ابدی طور پر شوہر کے لئے حرام ہوجاتی ہے ، باطل قرار دیا۔ اب زیر بحث مسئلہ کو لیجئے ۔ کیا بیک وقت تین طلاق کے الفاظ ادا کرنے پر طلاق مغلظہ کا حکم لگانا ایلاء اور ظہار سے بھی شدید قرار دینے کے مترادف نہیں ہے ؟ درآنحالیکہ اس شدت کے لئے کوئی نص موجود نہیں ہے۔ الغرض مجلس واحد کی تین طلاقوں کا تین واقع ہونا قرآن کی کسی نص سے ثابت نہیں ہے ، کیونکہ صریح طور پر قرآن میں کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ آن واحد کی تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ رہا نصوص قرآنی کی تعبیر کا مسئلہ تو دلائل مذکورہ کی بنا پر یکجا طور پر دی ہوئی طلاقوں کو ایک قراردینا ہی قرآن سے زیادہ مناسبت رکھنے والی بات ہے۔ کیا مجلس واحد کی تین طلاقوں کا وقوع حدیث سے ثابت ہے ؟ جس طرح یکجائی تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر قرآن کی کوئی صریح نص موجود نہیں ہے ، اسی طرح احادیث صحیحہ کی بھی کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔ جن احادیث سے اس کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے ان میں سے بعض احادیث تو وہ ہیں جن میں یکجا طور پر تین طلاقیں دینے کی صراحت موجود نہیں ہے اور بعض احادیث ایسی ہیں جن کا محل دوسرا ہے اس لئے ان سے کوئی دلیل فراہم نہیں ہوتی اور بعض احادیث یا تو مضطرب ہیں یا ضعیف اس لئے ان میں سے کوئی حدیث حجت کی حیثیت نہیں رکھتی۔ چند خاص احادیث کا جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے جن سے عام طور پر مجلس واحد کی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کیا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ عائشہ ؓ کی حدیث ہے : عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهَا جَائَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ الْقُرَظِیِّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ کُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِی فَأَبَتَّ طَلَاقِی فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِیرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ ہُدْبَةِ الثَّوْبِ فَقَالَ أَتُرِیدِینَ أَنْ تَرْجِعِی إِلَی رِفَاعَةَ لَا حَتَّی تَذُوقِی عُسَیْلَتَهُ وَیَذُوقَ عُسَیْلَتَکِ ....(بخاری کتاب الطلاق) ” رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ (کاٹنے والی طلاق) دی اور میں نے اس کے بعد عبد الرحمن بن زبیر قرظی سے نکاح کرلیا لیکن وہ زوجیت کے لائق نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شاید کہ تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے۔ نہیں جب تک کہ (تیرادو سرا شوہر) تجھ سے لطف اندوز نہ ہو لے اور تو اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے۔ “ اس حدیث میں طلاق بتہ (کاٹنے والی طلاق) کا ذکر ہے ، لیکن اس بات کی کوئی صراحت نہیں کہ تین طلاقیں یکجا طور پر دی گئی تھیں۔ لبتہ صحیح مسلم کی حدیث طلاق کی نوعیت کو واضح کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِیقَاتٍ ....۔ (مسلم کتاب الطلاق) ” اس نے اس کو تین طلاقوں کی آخری طلاق دی۔ “ (یعنی تین طلاقوں میں سے جو آخری طلاق رہ گئی تھی ، وہ بھی دے دی) ۔ اس حدیث میں جب مجلس واحد کی تین طلاقوں کی صراحت نہیں ہے تو اس سے اس کے واقع ہونے پر استدلال کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ چناچہ علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ” اس حدیث سے تین یکجائی طلاقوں پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ “ (ملاحظہ ہو فتح الباری ج 7 ص 386) دوسری حدیث عویمر عجلانی کی ہے جس میں لعان کا قصہ بیان ہوا ہے : فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَیْمِرٌ کَذَبْتُ عَلَیْهَا یَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنْ أَمْسَکْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ یَأْمُرَهُ رَسُولُ اللہِ ۔ (بخاری کتاب الطلاق) ” جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا اگر میں اس (بیوی) کو اپنے پاس روک لوں تو جھوٹا ہوں ، پھر اس نے اس کو تین طلاقیں دے دیں قبل اس کے کہ رسول اللہ ﷺ حکم دیں۔ “ اس حدیث کو اس بات کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے کہ جب عویمر نے نبی ﷺ کی موجودگی میں بیک وقت تین طلاقیں دیں اور آپ ﷺ نے نکیر نہیں فرمائی تو مجلس واحد کی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے ، کیونکہ لعان کے بعد تفریق ہو ہی جاتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے اور نہ دوبارہ نکاح کرنے کی۔ عویمر نے جو تین طلاقیں دیں وہ محض تاکید و توثیق کے لئے تھیں ، ورنہ لعان میں اس کے بغیر ہی تفریق ہوجاتی ہے۔ اس لئے نبی ﷺ نے اس پر نکیر کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی ہوگی۔ چناچہ فقہ حنبلی کی کتاب المغنی میں ابن قدامہ لکھتے ہیں : واما حدیث المتلا عنین فغیر لازم لان الفرقۃ لم تقع با لطلاق فانھا وقعت بمجر دلعا نھما۔ (المغنی ج 7 ص 103) رہی لعان والی حدیث تو اس سے لازم نہیں آتا کیونکہ جدائی طلاق سے نہیں ہوئی بلکہ مجرد لعان سے ہوئی۔ تاہم اگر نبی ﷺ کی تقریر سے کوئی چیز ثابت کی جاسکتی ہے تو صرف یہ کہ لعان کے بعد تین یکجائی طلاقیں دی جاسکتی ہیں۔ اس میں عموم پیدا کرنا اور جہاں رجوع کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے وہاں کے لئے تین یکجائی طلاقوں کے وقوع کا جواز نکالنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے۔ تیسری حدیث فاطمہ بنت قیس کی ہے جو صحیح مسلم میں اس طرح بیان ہوئی ہے : عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَیْسٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَیْهَا وَکِیلُهُ بِشَعِیرٍ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ وَاللّٰہِ مَا لَکِ عَلَیْنَا مِنْ شَیْئٍ فَجَائَتْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ لَیْسَ لَکِ عَلَیْهِ نَفَقَةٌ .... (مسلم کتاب الطلاق) ” فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں کہ ابوعمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتہ ( جدا کرنے والی طلاق) دی اور وہ موجود نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے وکیل کو جو (ایک غلہ ہے) دے کر ان کے پاس بھیجا۔ فاطمہ نے اس پر برہمی کا اظہار کیا تو اس نے کہا : قسم بخدا تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں ہے۔ فاطمہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر روداد پیش کی ، آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، تیرا نفقہ اس کے ذمہ نہیں ہے۔ “ اس حدیث میں بھی طلاق بتہ کا ذکر آیا ہے جس کو تین یکجائی طلاقوں کے واقع ہونے کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے ، لیکن صحیح مسلم ہی میں یہ حدیث دوسرے طریقوں سے بھی بیان ہوئی ہے۔ چناچہ ایک روایت میں : فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِیقَاتٍ ۔ ” اس نے اس کو تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی۔ “ اور دوسری روایت میں اس سے زیادہ صراحت ہے : فَأَرْسَلَ إِلَی امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَیْسٍ بِتَطْلِیقَةٍ کَانَتْ بَقِیَتْ مِنْ طَلَاقِهَا (مسلم کتاب الطلاق) ” انہوں نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس کو ایک طلاق جو باقی رہ گئی تھی دے کر اپنے وکیل کو ان کے پاس بھیجا۔ “ جب یہ حدیث تین یکجائی طلاقوں کی صراحت نہیں کرتی تو اس سے ان کے واقع ہونے پر استدلال کرنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ چوتھی حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی ہے جس کو صحیح مسلم نے روایت کیا ہے اور وہ جو بہت مشہور ہے : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِی أَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَهُمْ فِیہِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْهِمْ فَأَمْضَاہُ عَلَیْهِمْ ۔ (مسلم کتاب الطلاق) ” حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ابتدائی دوبرسوں میں تین طلاقیں ایک سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے فرمایا جس معاملہ میں لوگوں کو غور و فکر کرنے کا موقع دیا گیا تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں لہٰذا ہم کیوں نہ اس کو نافذ کردیں۔ چناچہ آپ نے اس کو ان پر نافذ کردیا۔ “ اس حدیث کو مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایقاع کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جب حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں تین یکجائی طلاقوں کو نافذ کردیا تھا اس سے اس کے ایقاع اور اس پر اجماع دونوں کا ثبوت ملتا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کا ایک فیصلہ ثابت ہوتا ہے تو دوسری طرف حضرت ابوبکر ؓ اور عہد رسالت ﷺ کا تعامل بھی تو ثابت ہوتا ہے۔ پھر کس دلیل سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حضرت عمر ؓ کے فیصلہ کو مان لیا جائے لیکن حضرت ابوبکر ؓ اور عہد رسالت کے تعامل کو قبول نہ کیا جائے ؟ جب کہ عہد رسالت کا تعامل بہر حال فوقیت رکھتا ہے۔ پھر حضرت عمر ؓ کے فیصلہ کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں ۔ علامہ ابن قیم (رح) نے اس کی تو جیہ یہ کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے تین یکجائی طلاقوں کی شرعی حیثیت میں تبدیلی نہیں کی تھی بلکہ محض تغریراً ان کو نافذ کیا تھا اور تعزیرات کے باب میں حضرت عمر ؓ کے اجتہادات معلوم ہی ہیں۔ مثلاً شراب کی دکانوں کو جلا دینا ، شرابیوں کو اسّی کوڑوں کو سزا مقرر کرنا اور شہر بدر کرنا وغیرہ۔ صحابہ کرام ؓ نے جب دیکھا کہ حضرت عمر ؓ مصالح امت کے پیش نظر تعزیراً ان کو نافذ کر رہے ہیں تو انہوں نے اس معاملہ میں آپ سے اتفاق کیا۔ یہ حدیث سنن ابی داؤد میں جس طریقہ سے بیان ہوئی ہے اس میں : إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوہَا وَاحِدَةً عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ فَلَمَّا ۔ ” جب کوئی شخص اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دیتا تو انہیں ایک شمار کیا جاتا .....۔ “ کے الفاظ ہیں۔ لیکن امام نووی لکھتے ہیں کہ ابوداؤد کی روایت ضعیف ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی ج 1 ، ص : 478) ان تمام باتوں کے پیش نظر اس حدیث سے تین یکجائی طلاقوں کے وقع پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ پانچویں حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی ہے جو صحیحین میں بیان ہوئی ہے۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِیَ حَائِضٌ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللّٰهِ ۔ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ ۔ مُرْهُ فَلْیُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِیَتْرُکْهَا حَتَّی تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِیضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَکَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ یَمَسَّ فَتِلْکَ الْعِدَّةُ الَّتِی أَمَرَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ ۔ (مسلم کتاب الطلاق) ” حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی۔ حضرت عمر ؓ نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان سے کہو کہ وہ رجوع لیں پھر اسی حالت میں بیوی کو چھوڑ دیں۔ یہاں تک کہ وہ طاہر ہوجائے پھر جب دوسرا حیض آنے کے بعد وہ ظاہر ہوجائے گا تو چاہیں تو روک لیں ، چاہیں تو مجامعت سے پہلے طلاق دیں۔ یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ نے عورتوں کے سلسلہ میں دیا ہے۔ “ یہ حدیث صحیح ہے ، لیکن اس میں تین طلاقوں کا کہیں ذکر نہیں ہے ، اسی لئے مسلم نے اس حدیث کو طلاق الثلاث کے باب میں نہیں بیان کیا ہے بلکہ تحریم طلاق الحائض کے باب میں بیان کیا ہے۔ البتہ بعض روایتوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ بیان ایک سوال کے جواب میں موجود ہے کہ : وَأَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ عَصَیْتَ رَبَّکَ فِیمَا أَمَرَکَ بِهِ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِکَ وَبَانَتْ مِنْکَ ۔ ( مسلم کتاب الطلاق) ” اگر تو نے تین طلاقیں دی ہیں تو اپنی بیوی کے طلاق کے معاملہ میں تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور وہ تجھ سے جدا ہوگئی۔ “ اس جواب میں تین یکجائی طلاقوں کی صراحت نہیں ہے۔ مزید برآں اس کی حیثیت حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے فتوے کی ہے ، یعنی مرفوع حدیث کا یہ جزء نہیں ہے۔ رہا مصنف ابن ابی شیبہ ، دار قطنی اور طبرانی کا مرفوعاً بیان کرنا کہ : فقلت یا رسول اللہ ارایت لو طلق تھا ثلاثا اکان یحل لی ان اراجعھا فقال لا کانت تبین منک و کانت معصیۃ۔ ” (ابن عمر ؓ فرماتے ہیں) میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میں تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے رجوع کرنا جائز ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ! وہ تم سے جدا ہوجاتی اور گناہ بھی ہوتا۔ “ یہ اضافہ والی روایت ضعیف ہے ، جیسا کہ علامہ ابن قیم نے اغاثۃ اللھفان میں لکھا ہے ۔ اس کے ایک روای شعیب ہیں جن کے ثقہ ہونے میں کلام ہے۔ صحیح طریقوں سے حدیث جہاں کہیں روایت کی گئی ہے اس میں یہ اضافہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے تین یکجائی طلاقوں کا ایقاع ثابت نہیں ہوتا۔ چھٹی حدیث محمود بن لبید کی ہے جسے نسائی نے روایت کیا ہے : قَالَ سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِیدٍ قَالَ أُخْبِرَ رَسُولُ اللّٰهِ ۔ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ حَتَّی قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ۔ أَلَا أَقْتُلُهُ ۔ (نسائی ، کتاب الطلاق) ” محمود بن لبید کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو مطلع کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں یکجا طور پر دی ہیں ۔ یہ سن کر آپ ﷺ سخت برہم ہوئے اور فرمایا : کیا اللہ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے درآنحا لی کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ ایک شخص آپ ﷺ کی برہمی کو دیکھ کر اٹھ کھرا ہوا اور کہا ، یا رسول اللہ ﷺ ! میں اسے قتل نہ کر دوں ؟ “ اس میں تین طلاقوں پر آپ ﷺ کے برہم ہونے کا ذکر ہے ، لیکن ان کے ایقاع کی اس میں صراحت نہیں ہے اور آپ ﷺ کا ارشاد : ” أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ “ (کیا کتاب اللہ سے کھیلا جائے گا) واضح کرتا ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا کتاب اللہ سے کھیلنا ہے۔ لہٰذا یہ بات کس طرح باور کی جاسکتی ہے کہ آپ ﷺ اس کو مؤثر مان کر کتاب اللہ سے کھیلنے کی اجازت دیں گے علاوہ ازیں اس روایت کے بارے میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ : فیہ انقطاع (یہ روایت منقطع ہے) ۔ ( تفسیر ابن کثیر ، ج 1 ص : 277) الغرض تین یکجائی طلاقوں کا واقع ہونا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ ساتویں حدیث رکانہ کی ہے جسے ترمذی نے روایت کیا ہے : عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ رُکَانَةَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ ۔ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰه ! ِ إِنِّی طَلَّقْتُ امْرَأَتِیَ الْبَتَّةَ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ بِهَا قُلْتُ وَاحِدَةً قَالَ وَاللّٰهِ قُلْتُ وَاللّٰهِ قَالَ فَهُوَ مَا أَرَدْتَ .... (ترمذی ، کتاب الطلاق) ” رکانہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ (جدا کرنے والی طلاق) دی ہے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے کیا ارادہ کیا تھا ؟ میں نے کہا : ایک طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہو ؟ میں نے کہا : اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر اس کا حکم بھی تمہارے ارادہ کے مطابق ہی ہے (یعنی چونکہ ایک طلاق کی نیت تھی اس سے ایک ہی واقع ہوگی) ۔ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے لکھا ہے : ” لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْهِ “۔ ہم اس حدیث کو اس طریقہ کے سوا کسی اور طریقہ سے نہیں جانتے۔ اس کے ایک راوی زبیر بن سعید ہیں ، جن کے بارے میں علامہ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے کہ لین الحدیث ہیں۔ اسی طرح دوسرے راوی عبداللہ کے بارے میں بھی یہی بات لکھی ہے۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے ، لیکن اس کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے۔ علامہ ابن قیم (رح) نے لکھا ہے کہ ابن جو زی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ حدیث رکانہ کوئی چیز نہیں۔ امام بخاری (رح) نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور علت حدیث کو جاننے والے ائمہ نے کہا ہے کہ اس کے راوی مجہول ہیں۔ (اغاثۃ اللہ فان ، ج 1 ص : 316) اس لیے اس حدیث سے بھی مسئلہ زیر بحث میں استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ برعکس اس کے ابورکانہ کی وہ حدیث جس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور جس میں ابو رکانہ کے تین طلاقیں دینے اور نبی ﷺ کے مراجعت کا حکم دینے کا ذکر ہے : فقال : انی طلقت ثلاثًا یا رسول اللہ ! قال : قد علمت راجھا۔ (ابوداؤد ، ابواب الطلاق) ” ابو رکانہ نے کہا : میں نے اس کو تین طلاقیں دی ہیں ، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا : میں جانتا ہوں ، تم رجوع کرلو۔ “ اس حدیث سے ایک طلاق واقع ہونے کی تائید ہوتی ہے ، لیکن اس کی اسناد میں بعض بنی ابی رافع مذکور ہے جو راوی کے مجہول ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مشہور اور اہم احادیث کا جائزہ اوپر پیش کیا گیا۔ ان کے علاوہ کچھ اور حدیثیں بھی ہیں جو یکجائی تین طلاقوں کے ایقاع کی تائید میں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ دارقطنی وغیرہ کی حدیثیں ہیں جو درجہ اسناد اور متن وغیرہ کے لحاظ سے ایسی نہیں ہیں کہ ان سے حجت قائم ہو سکے۔ اتنے اہم مسئلہ میں کمزور ، غیر مشہور اور غیر واضح احادیث کا سہارا لے کر تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ احادیث کو قبول کرنے کے معاملہ میں اس قدر محتاط تھے کہ آپ ؓ نے فاطمہ بنت قیس کی ، اس مطلقہ کے لیے جسے تین طلاقیں دی گئیں ہوں ، عدم نفقہ کی روایت کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ چناچہ صحیح مسلم میں ہے : قَالَ عُمَرُ انَتْرُکُ کِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِیِّنَا ﷺ بِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِی لَعَلَّهَا حَفِظَتْ أَوْ نَسِیَتْ لَهَا السُّکْنَی وَالنَّفَقَةُ قَالَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِهِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَةٍ مُبَیِّنَةٍ... ۔ (مسلم ، کتاب الطلاق) ” حضرت عمر ؓ نے فرمایا : کیا ایک عورت کے کہنے پر ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیں گے جبکہ ہم نہیں جانتے اس عورت نے یاد رکھا یا بھول گئی ؟ مطلقہ ثلاث کے لیے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے ، ان کو اپنے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الاّ یہ کہ وہ کھلی بےحیائی کی مرتکب ہوں۔ “ اس لیے مسئلہ زیر بحث میں جبکہ کوئی صریح حدیث موجود نہیں ہے ، قرآن کے بیان پر اکتفا کرنا کافی ہے۔ غیر صحیح اور غیر صریح روایتوں سے تین یکجائی طلاقوں کا وقوع شرعاً ثابت نہیں ہوتا۔ کیا تین یکجائی طلاقوں کے وقوع پر اجماع ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ تین یکجائی طلاقوں کے واقع ہونے پر اجماع ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ امت کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے اور دور صحابہ ؓ سے لے کر اب تک اس کے بارے میں اختلاف چلا آ رہا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی میں تین طلاقوں کو ایک طلاق سمجھا جاتا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی کا اجماع کس چیز پر تھا۔ رہا حضرت عمر ؓ کا اجتہاد تو اس کی جو توجیہ علامہ ابن قیم (رح) نے فرمائی ہے ، اوپر مذکور ہوئی۔ یعنی یہ حکم عارضی تھا اور بطور تعزیر تھا۔ محمد حسین ہیکل نے بھی ” الفاروق عمر “ میں اس پر مفصل بحث کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کتاب اللہ کی نص میں اجتہاد کیا تھا جس کی آج ہم مخالفت کرتے ہیں ، کیونکہ نص قرآنی کا مقصود یہ ہے کہ طلاق بالفعل ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ دینے پر واقع ہو اور شوہر کے لیے دو دفعہ رجوع کا موقع باقی رہے۔ کیونکہ اس کے اثرات زندگی پر گہرے مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ : ” تجھے تین طلاقیں ہیں “ تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی کیونکہ طلاق ایک فعل ہے جسے واقع ہونا ہے ، نہ کہ قول جسے زبان سے ادا کرنا ہے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں عراق و شام کی لونڈیوں کی کثرت ہوگئی تھی اس لیے لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دینے میں جلدی کر رہے تھے اور ان کو بیک وقت تین طلاقیں دے کر جن لونڈوں کی طرف ان کے دل راغب ہوجاتے تھے ان کو خوش اور مطمئن کرنا چاہتے تھے۔ اس قسم کے اسباب کی بنا پر حضرت عمر ؓ نے کلمہ واحد کی تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔ موصوف آگے لکھتے ہیں : ” ھذا اجتھاد رای خالف عمر فیہ من بعد غیر واحد من الفقھاء و خالفہ اھل عصرنا الحاضر فی طائفتہ من البلاد الا سلمایتہ ولا ضمیر علی عمر من ذالک ولا ضمیر منہ علی مخالفیہ ، فعمر وغیرہ من الصحابۃ لم یکونوا یفتون برایھم علی سبیل الا لزام ولا علی ان وحدہ الحۡق بل علی انہ رائی ان یکن صوابًا فمن اللہ وان یکن خطا فمن صاحبہ فھو یستغفر اللہ منہ “ ۔ (الفاروق عمر ، محمد حسین ھیکل ج 2 ، ص : 286) ” یہ حضرت عمر ؓ کا اجتہادِ رائے ہے جس کی مخالفت ان کے بعد متعدد فقہاء نے کی ہے اور دور حاضر میں بلاد اسلامیہ کا ایک گروہ اس کا مخالف ہے ، لیکن اس سے نہ صرف حضرت عمر ؓ پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ان سے اختلاف کرنے والوں پر۔ حضرت عمر ؓ اور دیگر صحابہ ؓ اپنی رائے سے جو فتویٰ دیا کرتے تھے وہ نہ بطور لزوم کے ہوتا تھ اور نہ اس طور سے ہوتا تھا کہ وہی حق ہے بلکہ ایک رائے ہے۔ اگر درست ہو تو اللہ کی جانب سے اور اگر غلط ہو تو صاحب رائے کی طرف سے۔ چناچہ آپ اس سلسلہ میں اللہ سے استغفار کرتے تھے۔ “ موصوف لکھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے : ” السنۃ ما سنۃ اللہ و رسولہ لا تجعلوا خطا الرای سنۃ للامۃ “ (ایضًا) ” سنت وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول (a) نے سنت قرار دیا ہے۔ رائے کی غلطی کو امت کے لیے سنت نہ بناؤ ۔ “ مصر کی مشہور کتاب ” کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ “ کا مصنف رقمطراز ہے : ” ولکن الواقع انہ لم یوجد اجماع ، فقد خالفھم کثیر من المسلمین ، ومما لا شک فیہ ان ابن عباس عن المجتھدین الذین علیھم المعمول فی الدین فتقیدہ جائز کما ذ کرنا ولا یجب تقلید عمر فیما راہ لانہ مجتھد و موافقۃ الا کثرین لہ لا تحتم تقلیدہ علی انہ یجوز ان یکون قد فعل ذالک لتحذیر الناس من ایقاع الطلاق علی وجہ مغائر للسنۃ فان السنۃ ان تطلق المراۃؕ فی اوقات مختلفۃ علی الوجہ الذی تقدم بیان فمن بجرا علٰی تطلیقھا دفعۃ واحد فقد خالف السنۃ و جزاء ھذا ان یعامل بقولہ زجر الہ۔ “ ” لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس پر اجماع ثابت نہیں ہے۔ چناچہ بہت سے مسلمانوں نے ان کی مخالفت کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بلاشبہ مجتہدین میں سے تھے جن کے اوپر دین کے معاملہ میں پورا اعتماد کیا جاسکتا ہے لہٰذا آپ کی تقلید کرنا جائز ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اور حضرت عمر ؓ کی ان کی رائے کے معاملہ میں تقلید کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ آپ بھی مجتہد ہی تھے۔ رہا اکثریت کا آپ سے اتفاق کرنا تو اس سے آپ کی تقلید لازم نہیں آتی۔ ممکن ہے آپ نے لوگوں کی تغریر کی غرض سے اسے نافذ کیا ہو جبکہ لوگ خلافِ سنت طریقہ پر طلاق دے رہے تھے کیونکہ سنت یہی ہے کہ عورت کو مختلف اوقات میں طلاق دی جائے۔ جس کے طریقہ کا اوپر بیان ہوچکا۔ تو جو شخص یکبارگی طلاق دینے کی جرأت کرتا ہے وہ سنت کے خلاف کرتا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ اس کے ساتھ زجر کا معاملہ کیا جائے۔ “ ” وبالجملۃ فان الذین قالوا ان اطلاق الثلاث بلفظ واحد یقع بہ واحدۃ لا ثلاث لھم وجہ شدید وھو ان ذالک ھو الواقع فی عھد الرسول و عھد خلیفۃ الاعظم ابی بکر و سنتین من خلافۃ عمر و اجتھاد عمر بعد ذالک خالفہ فیہ غیرہ فیصح تقلید المخالف کما یصح تقلید عمرو اللہ تعالیٰ لم یکلفنا البحث عن الیقین فی الاعمال الفرعیۃ لانہ یکاد یکون مستجیلا “ (کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ج 4 ، ص : 343 ، 344) ” مختصر یہ کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں بلفظ واحد ایک واقع ہوتی ہیں تین نہیں ، ان کا کہنا معقولیت پر مبنی ہے ، کیونکہ عہد رسالت خلیفہ اعظم حضرت ابوبکر ؓ کے عہد اور خلافت عمر ؓ کے ابتدائی دو برسوں تک ایک ہی طلاق واقع ہوتی تھی۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے جو اجتہاد کیا اس کی دوسروں نے مخالفت کی ، لہٰذا مخالفت کرنے والوں کی تقلید بھی اسی طرح درست ہے جس طرح حضرت عمر ؓ کی تقلید درست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فروعی اعمال میں کرید کر یقینی صورتحال معلوم کرنے کا ہمیں مکلف نہیں بنایا ہے کیونکہ ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ “ علامہ ابن تیمیہ (رح) لکھتے ہیں : ” (و کذالک) اذا طلقھا ثلاثًا بکلمۃ او کلمات فی طھر واحد فھو محرم عند جمھور العلماء و تنازعوا فیما یقع بھا فقیل یقع بھا الثلاث و قیل لا یقع بھا الا طلقۃ واحدۃ و ھذا ھو الا ظھر الذی یدل علیہ ال کتاب والسنۃ کما قد بسط فی موضعہ۔ “ ” اگر کوئی شخص ایک طہر میں ایک کلمہ یا تین کلموں میں تین طلاقیں دے تو جمہور علماء کے نزدیک حرام ہے ، لیکن ان کے واقع ہونے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ تین واقع ہوں گی اور ایک قول یہ ہے کہ ایک واقع ہوگی اور یہی زیادہ صحیح ہے جس پر قرآن و سنت دلالت کرتے ہیں ، جیسا کہ دوسری جگہ تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ “ ” (وکذلک) الطلاق المحرم فی الحیض بعد الوطی ھل یلوم ؟ فیہ قولا ان للعلماء والا ظھرانہ ان یلزم النکاح المحرم والبیع المحرم و قد ثبت فی الصحیح عن ابن عباس قال کان الطلاق علی عھد رسول اللہ۔ وابی بکر و صدرًا من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ و ثبت ایضًا فی مسند احمد ان رکانۃ بن عبد یزید طلاق امراتہ ثلاثًا فی مجلس واحد فقال النبی۔ من واحد لم یثبت عن النبی۔ خلاف ھذہ السنۃ بل ما یخالفھا اما انہ ضعیف بل مرجوع واما انہ صحیح لا یدل علی خلاف ذالک کما قد بسط ذالک فی موضعہ واللہ اعلم۔ “ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج 2 ، ص : 86) ” طلاق محرم جو مجامعت کے بعد حالت حیض میں دی جائے کیا وہ مؤثر ہوگی ؟ اس میں علماء کے دو اقوال ہیں۔ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ نکاح حرام اور بیع حرام مؤثر نہیں ہے اور صحیح حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں اور خلافت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں تین طلاقیں ایک سمجھی جاتی تھیں اور مسند احمد کی حدیث سے ثابت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو مجلس واحد میں تین طلاقیں دیں لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک ہی طلاق ہے۔ نبی ﷺ سے اس سنت کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ مروی ہے وہ یا تو ضعیف ہونے کی وجہ سے مرجوع ہے یا صحیح ہے لیکن اس سے اس کے خلاف ثابت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ “ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں : ” فان اللہ سبحنہ انما شرع الطلاق مرۃ بعد مرۃ ولم یشرعہ جملۃ واحدۃ اصلا۔ “ (اغاثۃ اللھفان ج 1 ، ص : 283) ” اللہ سبحانہ نے ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ طلاق دینا مشروع فرمایا ہے۔ مجموعی طور پر تین طلاقیں (بیک وقت) دینا اصل میں مشروع ہی نہیں فرمایا۔ “ امام رازی (رح) لکھتے ہیں : ” (الاول) وھو اختیار کثیر من علماء الدین انہ لوطلقھا اثنین او ثلاثًا لا یقع الا الواحدۃ و ھذا القول ھو الا قیس لان النھی یدل علی اشتعمال المنھی عنہ علی مفسدۃ راجحۃ۔ والقول بالوقوع سعی فی ادخال تلک المفسدۃ فی الوجود وانہ غیر جائز فوجب ان یحکم بعدم الوقوع “ (التفسیر الکبیر ج 2 ، ص : 260) ” یہ قول بہت سے علمائے دین کا ہے کہ اگر مرد نے دو یا تین طلاقیں دی ہوں تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے ، کیونکہ کسی چیز کی ممانعت دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ ممنوعہ چیز بڑے مفسدہ پر مشتمل ہے لہٰذا تطلیقات ثلاثہ کے واقع ہونے کا قول اس مفسدہ کو وجود میں لانے کے مترادف ہے جو جائز نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عدم وقوع کا حکم لگایا جائے۔ “ ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کے وقوع پر اجماع نہیں ہے ، بلکہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ مجلس واحد کی تین طلاقیں کن علماء و فقہاء کے نزدیک ایک واقع ہوتی ہیں ؟ اگرچہ ائمہ اربعہ (رح) مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایقاع کے قائل ہیں ، لیکن علماء و فقہاء کی ایک تعداد صرف ایک طلاق کے وقوع کی قائل ہے۔ مثلاً ابن عباس ؓ ، عکرمہ ، طاؤس ، ابن اسحٰق ، امام رازی ، امام ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم ، داؤد ظاہری ؓ وغیرہ۔ علامہ شوکانی (رح) لکھتے ہیں : ” اور اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق ، طلاق کے پیچھے نہیں واقع ہوتی اور ایسی صورت میں صرف ایک طلاق پڑتی ہے۔ صاحب بحر نے اس کو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور ایک روایت حضرت علی ؓ سے اور حضرت ابن عباس ؓ ، امام طاؤس ، امام عطاء ، جابر ابن یزید ، ہادی ، قاسم ، ناصر ، احمد بن عیسیٰ ، عبداللہ ؓ اور ایک روایت زید بن علی سے نقل کی ہے۔ اسی طرف متاخرین کی بھی ایک جماعت گئی ہے جس میں ابن تیمیہ ، ابن قیم اور محققین کی ایک جماعت شامل ہے اور ابن المنذور نے اس کو اصحاب ابن عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت زبیر بن العوام ؓ سے بھی نقل کیا ہے۔ نیز ابن مغیث نے اپنی کتاب (الوثائق) میں اسی کو محمد بن وضاح سے بھی نقل کیا ہے اور مشائخ قرطبہ میں سے محمد بن تقی ، محمد بن عبدالسلام وغیرہ کی ایک جماعت کا بھی فتویٰ اس قول پر نقل کیا ہے۔ “ (الجواہر الغالیہ ، از مولانا ابو عبیدہ اعظمی بحوالہ نیل الاوطار ج 2 ، ص : 245) اہلحدیث نقطہ نظر بھی یہی ہے۔ علاوہ ازیں اثنا عشریوں کا بھی یہی مسلک ہے اور امامیہ کے یہاں تو تین یکجائی طلاقیں دینے سے طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی۔ حجاج بن ارطاۃ اور محمد بن مقاتل (حنفی) بھی اسی کے قائل ہیں کہ اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ (شرح مسلم للنووی ج 1 ، ص : 478) تین یکجائی طلاقوں کے وقوع کا اثر اسلام کے نظام طلاق پر درحقیقت تین یکجائی طلاقوں کے وقوع کو تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ رجوع کا جو حق اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے اس کو ساقط کردیا جائے۔ پھر معاملہ یہیں پر نہیں رکتا بلکہ اس کو تسلیم کرنے کے بعد دوسرے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص ایک طلاق رجعی کی بجائے ایک طلاق بائن دے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے رجوع کے حق کو خود ہی ساقط کر دے تو اس کے وقوع کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور غالباً اسی لیے کچھ فقہاء کو ایک طلاق بائن کی گنجائش نکالنا پڑی ہے۔ حالانکہ قرآن و سنت کی رو سے مدخول بہا کی ایک طلاق رجعی ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح دیکھا جائے تو اسلام کا پورا نظام طلاق فقہیت اور قانونی الٹ پھیر کی زد میں آجاتا ہے جس سے شرعی احکام کی روح مجروح ہوجاتی ہے ، جو عظیم مصالح معاشرتی زندگی کی تعمیر میں اسلام نے ملحوظ رکھے ہیں ، وہ متاثر ہوجاتے ہیں ، اعتدال باقی نہیں رہتا اور مسلمانوں کے معاشرتی ڈھانچہ کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے اس انداز فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک میں ایک طلاق کا قانون مسلم ممالک نے تطلیقات ثلاثہ کے سلسلہ میں جو قوانین بنائے ہیں ان کی حیثیت شرعی حجت کی ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے ان قوانین کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ معلوم کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ کن ممالک نے اس سلسلہ میں اقدامات کیے ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر یعنی بغرض معلومات اس کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔ سب سے پہلے مصر نے 1929 ء میں آن واحد کی تین طلاقوں کے اصول کو ختم کردیا اور قانون یہ بنایا کہ متعدد طلاقیں صرف ایک طلاق شمار ہوں گی اور وہ رجعی ہوگی۔ A Divorce Accomanied By A Number Expressly Or Impliedly. Shall Count Only A Single Divorced Such Divorce Shall Be Revocable. (Egyption Family Laws Of 1929. Artical 3). ” ایک وقت میں بار بار واضح طور پر یا کنایتاً طلاق کہنے سے صرف ایک طلاق گنی جائے گی اور ایسی طلاق عدت کے اندر اندر قابل واپسی ہوگی۔ “ (مصری فیملی قانون 1929 ء آرٹیکل 3) اسی قسم کا ایک قانون سوڈان نے 1935 ء میں ، اردن نے 1951 ء میں ، شام نے 1953 ء میں ، مراکش نے 1958 ء میں ، عراق نے 1959 ء میں اور پاکستان نے 1961 ء میں نافذ کیا۔ (ملاحظہ ہو طاہر محمود کی کتاب Muslim Law Reform: ) محض تاکید کے لیے طلاق کا لفظ دہرانا کبھی محض تاکید کے لیے طلاق کا لفظ دہرایا جاتا ہے اور حالت غصہ میں انسان کو کچھ نہیں سوجھتا اور وہ ایک بات کو کئی بار دہرا دیتا ہے۔ مثلاً خالد محمود کی کسی بات پر تکرار ہوگئی اور اس الجھاؤ میں ایک نے دوسرے کو گالی بک دی اور بکتا ہی چلا گیا۔ جو گندی بات اس کے منہ سے نکلی اس نے بیسیوں بار دہرا دی۔ جب بات رفع دفع ہوئی تو عرف عام میں یہی کہا جائے گا کہ ایک بار خالد محمود کی تکرار ہوگئی تھی اور اس کو یوں نہیں کہا جاسکتا کہ خالد محمود کی دس بار لے دَے ہوئی۔ بعینہٖ مرد طلاق دیتے وقت اسی غصہ کی حالت میں ، انت طالق ، انت طالق ، یا طلاق ، طلاق ، طلاق کہتا ہے ، جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو اس سے پوچھا جائے کہ تو نے بار بار جو طالق ، طالق کا لفظ استعمال کیا یا طلاق ، طلاق بار بار کہا وہ کیوں کہا ؟ تو یقیناً کہے گا کہ غصے میں بس کہتا گیا۔ اس سے پوچھو کہ تو نے تین طلاق دینے کا فیصلہ کیا تھا ؟ تو وہ یقیناً کہے گا کہ میں نے فیصلہ کر کے کوئی بات کی ہی نہیں بلکہ غصہ میں کی۔ کیا تیری نیت تین طلاق دینے کی تھی یا تاکیداً کہتا رہا ہے ؟ جواب اس سے سن لو کہ کیا کہتا ہے ؟ ایسی صورت میں متعدد فقہائے اسلام ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل ہیں۔ ملاحظہ کریں حنبلی مسلک کی کتاب ” المغنی “ (علامہ ابن قدامہ ج 7 ، ص : 232) شافعی مسلک کی کتاب ” منہاج الطالبین “ (امام نووی ص : 107) وغیرہ۔ بالکل اس سے ملتی جلتی صورت یہ ہے کہ لوگ شرعی احکام سے ناواقفیت کی بنیاد پر تین کے عدد کی صراحت کے ساتھ طلاق دیتے ہیں لیکن بعد میں جب اس کا علم ہوجاتا ہے تو ایسا شخص کہتا ہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ تین طلاق کے الفاظ استعمال کیے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اس صورتحال کو واقعیت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے اور اس کے اس بیان کے پیش نظر تین طلاقوں کو تاکید پر محمول کر کے ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگانا چاہیے۔ اس سلسلہ کی سب سے بڑی برائی وہ ہے جس کا نام حلالہ رکھا گیا جس چیز کا نام حلالہ رکھا گیا ہے وہ ایسی بےغیرت چیز ہے جس کا کوئی شریف اور خود دار شخص تصور بھی نہیں کرسکتا ، اس لیے نکاح شرعی کا اعلان و اشتہار ہوتا ہے جس پر خوشی اور مبارکبادی کا اظہار ہوتا ہے۔ تقریبات اور ولیمہ کا اہتمام ہوتا ہے لیکن ” حلالہ “ کو لوگ کانوں کان چھپاتے ہیں۔ کتنی ڈھٹائی کی بات ہے جو صرف مذہبی اپچ میں برداشت کرلی جاتی ہے۔ تعجب ہے کہ طلاق ، طلاق ، طلاق لفظ مرد نے اپنی زبان سے ادا کیا تھا جس میں آخر عورت کا کوئی قصور۔ عورت تو اس وقت بھی مجبور محض تھی جب طلاق ، طلاق کا ڈنڈا برس رہا تھا۔ خدا را ! کچھ تو خیال کرو کہ گناہ کسی نے کیا اور سزا کسی پر پڑی ؟ بےشرمو ! اگر شرم نہیں آتی تو حلالہ نکالو اور اس مرد کا جس نے یہ فعل کیا۔ آخر اس آدم زادی نے کیا قصور کیا تھا جس کی اس کو سزا دے رہے ہو۔ کیا حلالہ نکالنا سزا نہیں ؟ کیا اپنی بیوی کسی دوسرے کو ایک رات کے لیے مشروط طور پر دینے والا بےغیرت نہیں ؟ کیا اندر بیٹھ کر اندر ہی اندر یہ سب کچھ طے کرنے اور کرانے والے سب مسلمان ہیں ؟ عورت کے نکاح کا داعیہ اس کے دین ، حسب و نسب اور مال و جمال سے ہوتا ہے ، کیا حلالہ کرنے والا بھی ان میں سے کسی بات کا طالب ہے ؟ نکاح کرنے والا حق مہر ادا کرتا ہے۔ عورت کو گھر بسانے کے لیے ایک خلوص نیت سے عہد کرتا ہے۔ نکاح کرنے والا بارات کی شکل میں لڑکی والوں کے گھر دن مقرر کر کے پہنچتا ہے ، کیا حلالہ کرنے والے نے بھی حق مہر ادا کیا ہے ؟ نہیں ! بلکہ اس نے تو ایک اچھی خاصی رقم آپ سے بطور اجرت وصول کی ہے۔ ذرا حلالہ نکالنے والے سے پوچھو تو بات واضح ہوجائے گی۔
Top