Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 63
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١٘ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَتُصْبِحُ : تو ہوگئی الْاَرْضُ : زمین مُخْضَرَّةً : سرسبز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَطِيْفٌ : نہایت مہربان خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
کیا تم نے (اپنی آنکھوں سے یہ منظر) نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی ہے یقین کرو اللہ بڑا ہی لطف کرنے والا ، خبر رکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو بادل سے بارش نازل کرتا ہے اور زمین کو ہرا بھرا کردیتا ہے : 63۔ (الم تر) کے الفاظ قرآن کریم میں تقریبا 32 ‘ 33 بار آئے ہیں جیسے سورة البقرہ 25 کی آیت 107 ‘ 243 ‘ 256 ‘ سورة آل عمران کی آیت 22 سورة النساء 4 : 43 ‘ 47 ‘ 58 ‘ 75 ‘ سورة ابراہیم 14 کی آیت 19 ‘ 24 ‘ 28 ‘ سورة الحج 22 کی آیت 18 : 63 ‘ 65 : 70 ‘ سورة مریم 19 کی آیت 88 سورة النور 24 کی آیت 41 ‘ 43 ‘ سورة الفرقان 25 کی آیت 45 ‘ سورة الشعراء کی آیت 225 ‘ سورة القمان کی آیت 20 ‘ 29 سورة الفاطر 35 ‘ کی آیت 25 ‘ سورة الزمر کی آیت 31 ‘ سورة ال مومن : 40 کی آیت 69 ‘ سورة المجادلہ کی آیت 7 ‘ 8 ‘ 14 ‘ سورة الحشر کی آیت 11 ‘ سورة نوح کی آیت 10 ‘ سورة الفجر کی آیت 6 ‘ سورة الفیل کی آیت اول میں جس کے معنی ہیں ” کیا تو نے نہیں دیکھا “ اور یہ دیکھنے کا اثبات ہے ‘ نہ کہ نفی اور ہر جگہ اس سے مراد ہر فرد لیا گیا ہے اور ہر ہر فرد کو مخاطب کر کے کوئی نہ کوئی بات اس سے کی گئی ہے اور جو بات بھی کی گئی ہے اس میں یہ سوالیہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ یہ کام اللہ نے کیا ہے یعنی اللہ کے سوا کسی نے نہیں کیا جیسا کہ اس جگہ ارشاد فرمایا ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی آسمان سے پانی نازل کرتا ہے “ اور بات وہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جو اس کو اتار سکتا ہو ۔ جس کا احتصار یہی ہے کہ ” تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بارش کوئی نہیں برسا سکتا “ یعنی تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو بارش برساتا ہے ۔ پھر اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ اگر زمین ذرا بھی اگانے کی صلاحیت ہو تو وہ اس سے ہری بھری ہوجاتی ہے اگر اس میں کچھ بویا گیا ہے تو اس سے اور اگر کچھ نہیں بویا گیا تو مختلف قسم کی بوٹیوں سے اور اس میں انسانوں کو تفہیم کرایا جا رہا ہے کہ تم لوگ ظاہری حالات کی ناسازگاری کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ظہور کو بعید از امکان نہ سمجھو کیونکہ اس بات کو ہر آدمی نہیں سمجھ سکتا کہ رب ذوالجلال والاکرام کی شان کس طرح ظاہر ہوگی اور اس کے ہاتھ کدھر سے نمودار ہوں گے تم زمین کو دیکھتے ہو کہ وہ بالکل خشک اور چٹیل میدان پڑی ہوتی ہے کہ اس پر سبزہ وروئیدگی کا نشان تک کہیں نظر نہیں آتا اور نہ ہی افق پر کہیں بادل دکھائی دیتا ہے اور ہوائیں اس بادل کو جتنے حصے میں اس نے حکم دیا ہے پھیلا دیتی ہیں اور اس طرح بادلوں کے قافلے پر قافلے چلے آتے ہیں کہ تم ان کو کے مختلف رنگ دیکھتے ہو پھر آنکھ جھپکنے میں زمین پر وہ ٹپکنے لگتے ہیں اور آج سے ابھی کل نہیں آتا کہ زمین جل تھل ہوجاتی ہے اور پھر کیا ہوتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اس زمین کو ہرا بھرا کردیتا ہے اور درختوں کی کو نپلیں نکل آتی ہیں اور چند ہی دنوں میں وہ پھلوں سے لدے ہوئے نظر آتے لگتے ہیں بس اس سے سمجھ لو کہ وہ جب چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق وحی الہی کی بارش سے دلوں کی زمینوں کو بھی آباد کردیتا ہے اور اس طرح وہ اپنے قانون کے مطابق لوگوں کی حالت کو بھی بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ مکہ کے حالات تم سے پوشیدہ نہیں لیکن اس پروردگار حقیقی نے جب چاہا اپنے بندے محمد رسول اللہ ﷺ کو پیدا فرما کر اپنے قانون کے مطابق وحی الہی کی بارش برسانا شروع کردی پھر جہاں جہاں شور زمین تھی اس کے شور کو جب چاہا دور فرما کر ان کے دلوں کی زمین کو وحی الہی سے زندہ کردیا فرمایا وہ لطیف وخبیر ہے اس لئے وہ اپنی تدبیروں کو بروئے کار لاتا ہے تو اس طرح لاتا ہے کہ کسی کو سان و گمان بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک کام کرکے دکھا دیتا ہے اور وہ ہرچیز کے مال سے اچھی طرح واقف ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
Top