Tafseer-e-Majidi - Al-Ghaafir : 50
قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ
قَالَ : س نے کہا اِنَّكُمْ : بیشک تم قَوْمٌ : لوگ مُّنْكَرُوْنَ : اوپرے (نا آشنا)
نیز وہ لوگ کہ جب ان سے کوئی سخت برائی کی بات ہوجائے یا اپنی جانوں کو کسی مصیبت میں ڈال لیں تو فوراً اللہ کی یاد ان میں جاگ اٹھتی ہے وہ اپنے اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور جو کچھ ہوچکا ہے اس پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے اور انہیں یقین ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا ہو ؟
اپنی برائی کو خود دیکھ کر اپنی ضمیر کو ملامت کرنے والے لوگ : 249: ” فَاحِشَۃٌ “ ایسا فعل یا قول جس کی قباحت بہت بھاری ہو اور ہر کوئی اس کی برائی کو محسوس کرے جیسے زنا یا متعلقات زنا یا متعلقات زنا اس طرح کی دوسری ناپاکیاں ایسی برائیاں جن کا اثر دوسروں پر بھی پڑے۔ ” ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُم “ ایسے گناہ جن کا بداثر اگرچہ دوسروں پر نہ پڑے مگر اپنے آپ کو ان کا نقصان ہو۔ اس آیت سے پہلے جو نشانیاں متقین کی بیان فرمائی تھیں وہ تو نہایت ہی اعلیٰ درجہ کے متقین کی تھیں۔ ان درجات تک سب لوگوں کا پہنچنا بلاشبہ مشکل تھا اب اس آیت میں بھی متقین ہی کی نشانیاں بتائی گئی ہیں لیکن وہ متقین جو ان پہلے متقین سے کم درجہ کے متقین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے کبھی کوئی ایسی بھاری لغزش بھی ہوجاتی ہے لیکن وہ جلد ہی اپنی کمزوری کو سمجھ جاتے ہیں اور اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے لگتے ہیں اور جب کبھی اپنی جان پر کوئی ظلم کر بیٹھتے ہیں تو استغفار کرنے لگتے ہیں۔ ان سے کوئی برائی کا کام ہوجاتا ہے تو فوراً اس کے بعد نیکی کرنے کی جستجو کرتے ہیں یعنی جب بھی اور جو بھی لغزش ہوگئی تو اس کے بداثرات سے بچنے کی دعا کرتے ہیں اور آئندہ ایسے گناہ میں پڑنے سے بچنے کی دعا کرتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ اپنے قصوروں پر پختہ نہیں ہوتے اور یہ بھی کہ ایک قصور کو بار بار نہیں کرتے۔ گناہ کرنا اور گناہ ہوجانا دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پھر جب گناہ ہوجائے تو اس پر ندامت یقینا انسانوں کے ہاں بھی وہ گناہ کو ہلکا کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تو ایسا انسان مقبولین میں شمار ہوتا ہے۔ گناہ ہوجائے تو اس کا افشاء کرنا اور خود لوگوں کو فخریہ بتانا اس گناہ کو اور زیادہ بڑا اور مضبوط کردیتا ہے بلکہ اکثر اوقات یہ گناہ کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اس آیت میں ان ہی لوگوں کا ذکر ہے جن سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس پر وہ نادم ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں یعنی اللہ سے اپنے گناہ کی معافی طلب کرتے ہیں اور اس گناہ پر پردہ ڈالنے کی اپیل کرتے ہیں اور اپنے قصوروں کی بخشش طلب کرتے ہیں اور وہ اس بات کا بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو ہماری غلطیوں اور قصوروں کو معاف کر دے اور جو غلطی ان سے ہوجاتی ہے یا غلطی جس کو وہ کر بیٹھتے ہیں اس پر اصرار نہیں کرتے اور نہ ہی اس غلطی کی عادت کو پختہ کرتے ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ وَ اِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ (الاعراف : 202:7) ” جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے بھائی بند تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ “ ایک جگہ ارشاد ہے کہ : وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدِھَا وَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (الاعراف : 153:7) ” اور جن لوگوں نے برائیوں کے ارتکاب کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو بلاشبہ تمہارا پروردگار توبہ کے بعد بخش دینے والا اور رحمت والا ہے۔ “ وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا ہو : 250: متقی لوگ وہ ہیں جو یہ بھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ گناہوں کی معافی دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں خواہ وہ کوئی ہو یعنی وہ کسی نبی ، ولی ، فرشتہ اور جن کو گناہوں کا بخشنے والا تصور نہیں کرتے اور اس آیت میں خصوصاً رد ہے اس مسیحی عقیدے کا کہ گناہوں کی معافی مسیح (علیہ السلام) بلکہ اس کے ناکبوں کے اختیار میں ہے۔ چناچہ آج بھی انجیل میں موجود ہے کہ ” جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے میں تمہیں بھیجتا ہوں اور یہ کہ ان پر پھونکا اور ان سے کہا کہ روح القدس کو لو ، جن کے گناہ تم بخشو ، ان کے بخشے گئے اور جن کے گناہ تم قائم رکھو ان کے قائم رکھے گئے۔ (یوحنا : 24 ۔ 21:20) اور دیکھو تم سے پہلے بھی دنیا میں دستور اور قانون رہ چکے ہیں۔ پس دنیا کی سیر کرو : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی بندہ نے گناہ کیا پھر عرض کیا کہ اے میرے رب ! مجھ سے ایک گناہ ہوگیا ہے تو اسے معاف فرما دے۔ اللہ کہتا ہے کہ میرے بندہ نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور چاہے تو پکڑ بھی کرتا ہے۔ میں نے اپنے بندہ کا گناہ معاف کردیا۔ کچھ مدت کے بعد اس شخص نے پھر ایک گناہ کیا اور عرض کیا پروردگار ! مجھ سے ایک اور گناہ ہوگیا تو معاف فرما دے۔ اللہ نے فرمایا :ـ میرا وہ بندہ واقف ہے کہ اس کا ایک مالک ہے جو گناہ بخش دیتا ہے اور کبھی چاہے تو گرفت بھی کرلیتا ہے۔ میں نے اپنے بندہ کا گناہ بخش دیا۔ کچھ وقت کے بعد اس بندہ نے ایک اور گناہ کیا اور پھر عرض کی کہ اے میرے پروردگار ! مجھ سے ایک گناہ اور ہوگیا تو معاف فرما دے اللہ نے فرمایا : میرا بندہ سمجھتا ہے کہ اس کا ایک مالک ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گرفت بھی کرلیتا ہے تو میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا۔ (رواہ بخاری و مسلم) ایک لحاظ سے یہ فطرت انسانی کا بیان ہے کہ انسان گناہ کرتا ہے پھر نادم ہوتا ہے پھر کرتا ہے پھر نادم ہوتا ہے اور اسی طرح جب تک اس کو ندامت ہوتی رہتی ہے اس کا گناہ معاف کردیا جاتا ہے اور سب برائیوں سے بڑی برائی اور سارے گناہوں سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان سے جب گناہ ہوجائے تو پھر گناہ کرتا ہی جائے لیکن معافی کی طلب اس کے اندر پیدا ہی نہ ہو تو گویا وہ صرف گناہ گاری ہی نہ ہوا بلکہ دائرہ انسانیت سے بھی خارج ہوگیا اس لیے کہ وہ فطرت انسانی پر قائم نہ رہا۔
Top