Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 150
بَلِ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ
بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ مَوْلٰىكُمْ : تمہارا مددگار ہے وَھُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہتر النّٰصِرِيْنَ : مددگار (جمع)
تمہارا کارساز تو اللہ ہے ، مدد کرنے والوں میں اس سے بہتر مددگار کون ہوسکتا ہے
جب تمہارا کار ساز حقیقی اللہ تعالیٰ ہے تو پھر اس سے بہتر کون کار ساز ہو سکتا ہے : 272: صحیح بخاری میں ہے کہ احد کے دین جب مسلمان بہت سا نقصان اٹھا چکے اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے گرد ایک مقام پر جمع ہوئے اور اس وقت رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر پھیل چکی تھی تو ابو سفیان ایک گھاٹی پر چڑھا اور آواز دی کہ کیا قوم محمد (رسول اللہ ﷺ ہیں تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے ارشاد فرمایا کہ جواب مت دو ۔ پھر اس پر سیدنا عمر فاروق ضبط نہ کرسکے اور روز سے جواب دیا کہ ہم سب تم کو ذلیل کرنے کے لئے زندہ ہیں۔ اس وقت ابو سفیان نے پکارا ” اھل ھبل “ یعنی ھبل کا نعرہ بلند کیا۔ جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو جواب دو ” واللہ اعلیٰ واجل “ اللہ ہی سب سے بلند اور زیادہ جلالت والا ہے۔ پھر ابو سفیان نے کہا ” لنا العزی ولا عزی لکم “ ہمارے لئے یعنی ہمارا مدد گار عزّٰی ہے اور تمہاری کوئی عزّٰی نہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو جواب دو ” اَللّٰہُ مَوْ لَا نَا وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ “ اللہ ہمارا مدد گار ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیں۔ زیر نظر آیت میں جو الفاظ بیان فرمائے گئے ” بَلِ اللّٰہُ مَوْلٰکُمْ “ بلکہ اللہ تمہارا کار ساز ہے میں اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کو توحید الٰہی کے ساتھ کیسی محبت تھی کہ جب اپنی زندگی اور موت کا سوال ہوا تو خاموشی کا حکم دیا لیکن جب غیر اللہ کی بڑائی کی گئی تو اس طرح گویا اس کا حملہ توحید الٰہی پر تھا اس لئے آپ ﷺ نے فوراً جواب دیا اور بتایا کہ ہم مسلمان کا کار ساز حقیقی اللہ تعالیٰ ہے ہم کبھی ذلیل نہیں ہو سکتے۔ یہ جو کچھ ہوا اس میں ہمارے لوگوں کی غلطی بھی شامل ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ بالآخر کافر ہی ذلیل ہوں گے۔ بلاشبہ ہمارا نقصان بھی ہوا لیکن اسلام کی یہ خوبی زبان زد ہے کہ ” اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے۔ “
Top