Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 149
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اِنْ تُطِيْعُوا : اگر تم اطاعت کرو الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دیں گے تم کو عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اوپر تمہاری ایڑیوں کے فَتَنْقَلِبُوْا : تو لوٹ جاؤ گے تم۔ پلٹ جاؤ گے تم خٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے ہوکر
اے مسلمانو ! اگر تم ان لوگوں کے کہنے میں آگئے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تمہیں راہ حق سے الٹے پاؤں پھرا دیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ تباہی و بربادی و نامرادی میں جا گرو گے
مسلمانوں کو غیروں کی چالوں میں نہ آنے کی ہدایت الٰہی : 271: غزوہ احد مئیں مسلمانوں کی عارضی ہزیمت اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کی افواہ گرم ہونے منافقین نے جب جنگ کا پانسہ پلٹتے ہوئے دیکھا تو ان کو شرارت کا موقعہ مل گیا۔ مسلمانوں سے کہنے لگے کہ جب محمد رسول اللہ ﷺ ہی نہ رہے تو ہم اپنا دین ہی کیوں نہ اختیار کرلیں جس سے سارے جھگڑے مٹ جائیں۔ اس سے منافقین کی خباثت اور مسلمانوں کا بد خواہ ہونا بالکل واضح ہے اس لئے آیت مذکورہ میں ہدایت دے دی گئی کہ ان شمنوں کی بات پر کان نہ دھریں اور ان کو اپنے کسی مشورہ میں شریک بھی نہ کریں اور نہ ہی ان کے کسی مشورہ کا اتباع کریں گویا گزشتہ آیت میں اللہ والوں کا اتباع کرنے کی ہدایت تھی اس میں منافقین اور مخالفین اسلام کے مشورہ پر عمل نہ کرنے اور ان سے بچتے رہنے کی ہدایت ہے۔ اطاعت سے اس جگہ یا تو کافروں کے سامنے کمزور ہو کر عاجزی اختیار کرلینا اور ان کی ماتحتی قبول کرلینا ہے جیسا کہ آیت 145 میں فرمایا تھا۔ کہ یاد رکھو نبی کے ساتھی ایسے نہیں ہوتے کہ دشمن کو ذرا غلاب دیکھا تو فوراً اس کے آگے جھک گئے اور یہ اس لئے کہ وہ منافق جو رستہ سے واپس ہوگئے تھے۔ اب اس مصیبت کو دیکھ کر اس بات پر تلے بیٹھے تھے کہ ابو سفیان مدینہ کا رخ رکے تو فوراً اس کی اطاعت کرلیں اس لئے مومنوں کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ ان کافروں اور منافقوں کی اطاعت کا نتیجہ صر فایک ہی ہو سکتا ہے کہ وہ دین اسلام سے تم کو پھیردیں جیسا کہ سورة بقرہ میں بیان کردیا گیا تفصیل کے لئے دیکھو عروۃ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة بقرہ آیت 217 ۔ اور اس سے یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ ان کی رائے دین کے بارے میں مت قبول کرو اور ان کو اپنے خیر خواہ سمجھ کر ان کے پیچھے مت چلو۔ اور فی الحقیقت دونوں معنی درست ہیں۔ اگر مسلمانون کو کفار کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے یا وہ کسی میدان میں جنگ سے نبرد آزما ہو کر غالب بھی آجائیں تو مسلمانوں کو یہ نہیں چاہیے کہ فوراً ہمت ہار کر ان کی اطاعت قبول کرلیں اور اس طرح امور دینی میں بالخصوص اور ویسے بھی ہر حال میں کافروں کے تتبع سے بچنا ہی چاہیے۔
Top