Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 200
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا١۫ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَصَابِرُوْا : اور مقابلہ میں مضبوط رہو وَرَابِطُوْا : اور جنگ کی تیاری کرو وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : مراد کو پہنچو
اے مسلمانو ! صبر کرو ، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاؤ ، اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو
خلاصہ کلام سن لو اور ہدایات پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ دین و دنیا کی بھلائی اسی میں ہے : 365: یہ سورة آل عمران کی آخری آیت ہے جس میں خاتمہ کلام کے طور پر تمام بنیادی ہدایات جمع کردی گئی ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے اور اس راستہ میں پیش آنے والی ساری مشکلات سے عہدہ برا ہونے کے لیے ضروری ہیں اور ان ہدایات کا ماحصل چار چیزیں ہیں ان کو اختیار کر کے مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے میں دین و دنیا کی ساری کامیابیاں ہیں۔ ان چار چیزوں میں پہلے صبر ہے ، دوسری مصابرت ، تیسری مرابطہ اور چوتھی تقویٰ ۔ سورة فاتحہ میں صبر اور تقویٰ دونوں کی تفصیل آ چکی ہے تاہم ان چاروں کا مختصر ذکر یہاں بھی علی الترتیب کردیا جاتا ہے۔ صبر کیا ہے ؟ صبر کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح ہے کہ ” الصبر ردائی “ صبر میرا لباس یعنی اوڑھنا ہے۔ گویا صبر اسلام کا دیا ہوا لباس ہے جس نے پہن لیا اس نے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا اور جس نے اتار دیا وہ ننگا ہوگیا۔ صبر انسان اور خصوصاً مسلمان کی پوری زندگی پر محیط ہے اسی طرح صبر یہ ہے کہ آدمی نیکی پر قادر ہوجائے اور معصیت سے رک جائے یا جو مصائب و مشکلات قضاء و قدر سے یا اسلام کے دشمنوں کی طرف سے پیش آئیں ان کو برداشت کرتے ہوئے اسلام پر کاربند رہے اور ان مصائب و مشکلات کے سامنے ہمت نہ ہارے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرتا رہے اور دیکھتا رہے کہ آپ ﷺ نے اس لباس کو ہر حال میں پہنے رکھا اور اپنے صحابہ ؓ کو بھی اس کے اوڑھنے کی نصیحت کی اور انہوں نے بھی اس نصیحت کے قبول کرنے میں دیر نہ لگائی اور پوری زندگی اسی کو اوڑھے ہی رہے۔ پھر اس بیان کو چند سطروں میں کس طرح بند کیا جاسکتا ہے ؟ اس لیے اس جگہ قرآن کریم کی ایک آیت پر اکتفا کیا جاتا ہے اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ہم کو بھی یہ لباس پہننے کی توفیق عطا فرمائے جو پوری زندگی نہ اتر سکے۔ قرآن کریم کی آیت میں فرمایا : وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ وَمَا یُلَقّٰہَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ (فصلت : 35 ۔ 34) ” اور پیغمبر اسلام ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کا دفاع اس نیکی سے کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔ “ یہ تو اس آیت کے معنی ہیں لیکن اس ارشاد کو پوری معنویت کے ساتھ سمجھنے کے لیے وہ حالات بھی نگاہ میں رہنے چاہئیں جن میں نبی اعظم و آخر ﷺ اور آپ ﷺ کے واسطے سے آپ ﷺ کے پیروؤں کو یہ ہدایت دی گئی تھی۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہاء ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا جس میں اخلاق ، انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ دی گئی تھیں۔ ہر جھوٹ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے آپ ﷺ کو بدنام کرنے اور آپ ﷺ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے طرح طرح کے الزامات آپ ﷺ پر لگائے جا رہے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والوں کی ایک فوج کی فوج آپ ﷺ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو پہنچائی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوگئی تھی۔ پھر آپ ﷺ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گفروہ ہر وقت آپ ﷺ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ ﷺ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں تو اتنا شور بپا کردیا جائے کہ کوئی آپ ﷺ کی بات نہ سن سکے۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے اس وقت مخالفتوں کو توڑنے کا یہ نسخہ آپ ﷺ کو بتایا گیا۔ اس میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں یعنی بظاہر تمام مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جن کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بےبس محسوس ہوتی ہو لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخرکار اس کا بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ کیونکہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بدی کے ساتھ ہی نہیں خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں ، ظالم ہیں اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں۔ یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو درکنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بےبس نظر آتی ہے مسلسل کام کرتی چلی جائے تو آخرکار وہ غالب آ کر رہتی ہے کیونکہ اول تو نیکی بجائے خود ہی ایک طاقت ہے جو دلوں کو مسخر کرتی ہے اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہوجائیں ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہوجائیں۔ زیرنظر آیت میں دوسری یہ بات فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ محض نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجہ کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو یہ محض نیکی ہے اعلیٰ درجے کی نیکی نہیں۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو۔ اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بدترین دشمن بھی آخرکار جگری دوست بن جائے گا۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بنے شک یہ نیکی ہوگی مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کرسکے گی۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بےحیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بدکلامی کے لیے کھلے گی۔ ایک شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر مزید دلیر ہوجائے لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیک کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے۔ تاہم قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر شخص جگری دوست ہی بن جائے گا دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے درگزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کم یاب ہیں۔ ہاں ! یہ نسخہ تو بڑا ہی کارگر ہے مگر اس کا استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں۔ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ اس کے لیے یہ بڑا عزم ، بڑا حوصلہ ، بڑی قوت برداشت اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بدمست ہو رہے ہوں وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا پختہ عزم کرچکا ہے۔ جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کرلیا ہو اور جس کے اندر نیکی اور راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہوں کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتراونے میں کامیاب نہ ہو سکتی ہو۔ یہ تو اس وقت کے حالات کی ایک جھلک تھی جب نبی اعظم و آخر ﷺ مبعوث ہو کر دعوت دے رہے تھے اب اس آیت کی مختصر ہدایات پر نظر کرو کہ : 1۔ اس آیت میں ایک اصول بتایا گیا ہے کہ بھلائی اور برائی برابر نہیں ان دونوں کا فرق بالکل نمایاں ہے۔ 2۔ اس آیت میں جس نیکی اور حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ کرنے کی ہے جو تمہارے دشمن ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ تمہارے اس نیک طرز عمل سے تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے گا۔ 3۔ اس آیت میں دشمن کے اس نیکی کرنے کو صبر کا انتہائی درجہ کہا گیا ہے اور اس کو عظیم الشان خوش قسمتی سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوگا کہ اخلاق محمدی ﷺ کے صحیفہ میں اس کا کیا درجہ ہے ؟ 4۔ اس آیت میں دشمن کے ساتھ برائی کرنے کو شیطانی تحریک بتایا گیا ہے اور اس سے خوش قسمت مسلمانوں کو اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ جو صحابہ ؓ میں سب سے بڑے مفسر ہیں اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں۔ ” اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیظ و غضب کی حالت میں صبر کا اور کسی کی برائی کرنے پر علم اور عفو و درگزر کا حکم دیا ہے۔ وہ ایسا کریں گے تو اللہ ان کو شیطان کے پنجہ سے چھڑا دے گا اور ان کا دشمن بھی دوست کی طرح ان کے آگے سر جھکا دے گا۔ “ (صحیح بخاری ، ج : 2 ، ص : 712) ہاں ! عملی مثالیں دیکھنا چاہتے ہو تو اسلام کے اس داعی اعظم و آخر ﷺ میں ان مثالوں کی کوئی کمی نہیں پاؤ گے بلکہ اس سے بڑھ کر دنیا کے کسی انسان میں نہیں مل سکیں گی جس نے فاتح بن کر مفتوح ہو کر نہیں۔ حاکم ہو کر محکوم بن کر نہیں بیک وقت مکہ کے ان ہزاروں دشمنوں کو معاف کردیا جن میں سے ہر ایک اس کے خون کا پیاسا رہ چکا تھا۔ (صحیح بخاری ، باب فتح مکہ) جس نے اس کو معاف کیا جس نے اس کے قتل یا گرفتاری کے لیے اہل مکہ کا اشتہار و انعام سن کر اس کا تعاقب کیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب الہجرۃ) جس نے خیبر میں اپنے زہر دینے والی یہودیہ کو معاف کردیا تھا۔ (صحیح بخاری باب فتح خیبر و ذکر اخلاق النبی) جس نے اپنے چچا کے قاتل کو معاف کیا تھا۔ (صحیح بخاری فتح مکہ) یہ وہی قاتل تھا جس نے حمزہ کی لاش کو بےحرمت کیا اور اس کے جگر کو چبانے والی کو معاف کردیا۔ (صحیح بخاری باب فتح مکہ) جس نے تنعیم کی وادی میں قریش کے اس گرفتار دستہ کو معاف کیا جو اس کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا۔ (جامع ترمذی التفسیر سورة الفتح) جس نے نجد کے ایک نخلستان میں جب وہ محو خواب تھا اپنے اوپر ایک تیغ بکف حملہ آور کو قابو میں پا کر معاف کردیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد ، ص : 208) جس نے ان طائف والوں کے حق میں دعائے خیر کی جنہوں نے اس پر پتھروں کی وہ بارش کی تھی جس سے اس کے پاؤں خون آلودہ ہوگئے تھے۔ جس نے احد کے میدان میں اپنے چہرہ کے زخمی کرنے والوں کو نیک دعا دی۔ (فتح الباری ، ج : 7 ، ص : 286 باب احد) جس نے دشمنوں کے حق میں بددعا کرانے والوں کو کہا کہ میں دنیا میں لعنت کے لیے نہیں بلکہ رحمت کے لیے آیا ہوں۔ (صحیح بخاری ، مشکوٰۃ ، اخلاق النبی ﷺ بحوالہ مسلم) یہ تھا وہ صبر جس کی ہدایت لے کر نبی اعظم و آخر ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور اس کو پوری زندگی اپنا لباس بنا کر دنیا کو دکھا دیا کہ داعی اسلام کا کہنا اور کرنا ایک ہے اس میں کوئی تضاد تم نہیں پاؤ گے۔ مصابرت کیا ہے ؟ ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرنا یا اپنی خواہشات کے ساتھ جہاد کرنا یا اپنوں ، قریبیوں اور ہمسایوں سے جو دکھ پیش آئیں ان کو برداشت کرنا یا مصائب اور تکالیف کی برداشت میں اپنے دشمن سے فوقیت لے جانا۔ گویا دشمن کے مقابلہ میں اس سے بڑھ کر مصائب کو برداشت کرنا اور اپنے آپ کو اس کا عادی بنا لینا پھر یہ ساری باتیں ہی آپ ﷺ میں ایک سے ایک بڑھ کر تھیں جو محتاج بیان نہیں۔ رَابِطُوْا کیا ہے ؟ رَابِطُوْا ربط سے ہے اور ربط الفرس کے معنی ہیں گھوڑے کو حفاظت کے لیے مکان پر باندھنا اور رباط اس مکان کو کہتے ہیں جس میں محافظین کا قیام ہو جیسے چھاؤنیاں اور فوجی چوکیاں۔ مفردات میں ہے کہ مرابطہ جس سے راَبِطُوْا ہے کے دو معنی ہیں ایک مراد گھوڑوں کا باندھنا یعنی دشمن کے مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہنا اور دوسرے معنی انسان کے نفس کے متعلق ہیں گویا نفس کو خود پر کھڑا رکھنا تاکہ وہ انسان کی حفاظت کرے اور کوئی بری یا فضول حرکت اس کو نہ کرنے دے۔ پہلے معنوں کی تائید قرآن کریم سے ہوتی ہے اور دوسری معنوں کی حدیث شریف سے اور دونوں معنی اپنے اپنے مقام پر صحیح اور درست ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ : وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ (الانفال : 60:8) ” اور جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے تیار رکھو تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو۔ “ مطلب واضح ہے کہ تمہارے پاس سامان جنگ اور ایک مستقل فوج ” Standing Army “ ہر وقت تیار رہنی چاہئے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کرسکو۔ یہ نہ ہو کہ خطر سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضاکار ، اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنا شروع کرو اور اس اثناء میں کہ تمہاری تیاری مکمل ہو دشمن اپنا کام کر جائے۔ اس طرح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سامان جنگ جو زمانہ کے حالات کے مطابق نئی نئی صورت بدلتا جائے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں زیدہ سے زیدہ اور اچھے سے اچھا ہر وقت تیار رکھنا نہایت ضروری ہے اور قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق اس کے بیان کی یہی غرض ہے۔ اس طرف سے تساہل برت کر مسلمانوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے اور ابھی تک اس نقصان کو پورا کرنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی اور اس کوتاہی کا جو نتیجہ ہے وہ عالم اسلام کے سارے مذہبی اور سیاسی لیڈروں پر واضح ہے۔ یہ کوتاہی کیوں ہوئی ؟ اس کا علاج کیوں نہ کیا گیا ؟ اور آج بھی اس پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی ؟ اس کے اسباب و وجوہ پر ان شاء اللہ کسی دوسرے مقام پر روشنی ڈالی جائے گی۔ دوسرے معنی قیام صلوٰۃ کے کیے گئے ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منظتر رہنا بلکہ اس کے لیے تیار رہنا مرابطہ کہلاتا ہے اور نماز بذاتہ جنگی تیاری کی ایک نہایت عمدہ مشق ہے جو ڈسپلن ، وقت کی پابندی ، نظم و ضبط ، حرکات و سکنات کی باقاعدگی اور خصوصاً آرڈر کی پابندی اور جنگی مشقوں کا بہترین نمونہ ہے اور خصوصاً اللہ رب العزت کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے نئے سرے سے وعدوں کا میثاق ہے۔ لیکن ہم نے اس کو جو کچھ بنا دیا ہے وہ کسی پر بھی پوشیدہ نہیں۔ تقویٰ کیا ہے ؟ ہر اچھے کام کے کرنے اور برائی سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ضمیر کا احساس بیدار اور دل میں خیر و شر کی تمیز کے لیے خلش ہو۔ بس اس کا نام تقویٰ ہے۔ اگر رسول مکرم نبی اعظم و آخر ﷺ کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ہم صرف ایک لفظ میں ادا کرنا چاہیں تو ہم اس کو ” تقویٰ “ سے ادا کرسکتے ہیں۔ اسلام کی ہر تقلیم کا مقصد اپنے ہر عمل کے قالب میں اس تقویٰ کی روح کو پیدا کرنا ہے۔ اس طرح ہم اسلام کے کسی کام کسی عمل کا نام تقویٰ سے لے سکتے ہیں کیونکہ اسلام کی ساری عبادتوں کا منشاء اس تقویٰ کا حصول ہے۔ کسی عمل کا نام تقویٰ سے لے سکتے ہیں کیونکہ اسلام کی ساری عبادتوں کا منشاء اس تقویٰ کا حصول ہے۔ ہدایت کن لوگوں کو حاصل ہو سکتی ہے ؟ متقین کو۔ (البقرہ : 2:2) اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تمہارے پہلوں کو پیدا کیا تاکہ تم متقی ہوجاؤ ۔ (البقرہ : 22:2) تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح پہلوں پر فرض کیا گیا تھا ، روزہ اس لیے ہے کہ تم متقی ہوجاؤ ۔ (البقرہ : 183:2) جو شخص حج کے ارکان و مقامات کی عزت کرتا ہے اس کا منشاء بھی دل کا تقویٰ ہے۔ (الحج : 23:32) اللہ کے پاس تمہاری قربانیوں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا لیکن جو پہنچتا ہے وہ تقویٰ ہے۔ (الحج : 37:32) مسجدیں بنانے اور نمازیں ادا کرنے کا اصل مقصد تقویٰ ہی ہے۔ (توبہ : 108:9) حج و جہاد کے سفر میں جو زاد راہ لے کر چلنے کی ہدایت ہے وہ بھی تقویٰ ہی ہے۔ (البقرہ : 197:2) معاف کردینا کیا ہے ؟ فرمایا وہ تقویٰ ہے۔ (البقرہ : 227:2) انصاف کرنا کیا ہے ؟ فرمایا وہ بھی تقویٰ ہے۔ (المائدہ : 8:5) سارے کاموں میں سے عزم و ہمت کا کام کیا ہے ؟ فرمایا وہ بھی تقویٰ ہی ہے۔ (الانعام : 186:6) نیکی کیا ہے ؟ وہی جو تمہارے اعمال میں سے ایک بہترین عمل ہے جو حقیقت میں تقویٰ ہے۔ (النساء : 128:4) تقویٰ کی حقیقت کیا ہے ؟ تقویٰ اصل میں وقویٰ ہے۔ عربی زبان میں اس کے لغوی معنی بچنے ، پرہیز کرنے اور لحاظ کرنے کے ہیں لیکن وحی محمدی ﷺ کی اصطلاح میں یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ حاضر و ناظر ہونے کا یقین پیدا کر کے دل میں خیر و شر کی تمیز کی خلش اور خیر کی طرف رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات کہ تقویٰ اصل میں دل کی اس کیفیت کا نام ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت سے ظاہر ہے جو ارکان حج کے موقع پر ہے۔ ” اور جو شعائر الٰہی کی تعظیم کرتا ہے تو وہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ “ (الحج) گویا تقویٰ کا اصلی تعلق دل سے ہے اور وہ سلبی کیفیت (بچنا) کی بجائے ایجابی اور ثبوتی کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ امور خیر کی طرف دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے اور شعائر الٰہی کی تعظیم سے ان کو معمور کرتا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : ” بلاشبہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے واسطے جانچا ہے۔ ان کو معافی ہے اور بڑا بدلہ ہے۔ “ غور کرو کہ اِمْتَحِنَ اللّٰہُ قُلُوْبُھُمْ لِلتَّقْوٰی کے الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ تقویٰ کا تعلق دل ہی سے ہے اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کا احساس تقویٰ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ : ” فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا “ کہ نفس یعنی جان میں اسکا فجور اور اس کا تقویٰ الہام کردیا۔ “ جس طرح فجور گناہ گاری اور نافرمانی کی جڑ ہے ٹھیک اسی طرح تقویٰ تمام نیکیوں کی بنیاد اور اصل الاصول ہے اور دونوں بندہ کو فطرۃ و دیعت ہیں۔ اب بندہ اپنے عمل اور کوشش سے ایک کو چھوڑتا اور دوسرے کو اختیار کرتا ہے مگر ہر حال میں یہ دونوں الہام فطری ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ الہام فطری کا مرکز بھی دل ہے اور اس لیے یہی تقویٰ کا مقام ہے۔ یہ اختیار اللہ کی طرف سے انسان کو دیا گیا ہے کہ وہ چاہے نیکی اختیار کرلے چاہے برائی اگرچہ نیکی اللہ کو پسند ہے اور برائی ناپسند ہے۔ جس طرح انسان کا فجور بری تعلیم ، بری صحبت اور برے کاموں کی مشق اور کثرت سے بڑھا جاتا ہے اسی طرح اچھے کاموں کے شوق اور عمل سے نیکی کا ذوق بھی پرورش پاتا ہے اور اس کی قلبی کیفیت میں ترقی ہوتی ہے۔ اس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : ” جو لوگ راہ پر آئے اللہ نے ان کی سوجھ بوجھ اور بڑھا دی اور ان کو ان کا تقویٰ عنایت کردیا۔ “ (محمد) اس سے ظاہر ہوگیا کہ تقویٰ ایک ایجابی اور ثبوتی کیفیت ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ عنایت فرماتا ہے اور جس کا اثر یہ ہوتاے کہ اس کو ہدایت پر ہدایت اور فطری تقویٰ پر مزید دولت تقویٰ مرحمت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے مجمع میں ارشاد فرمایا : ” التقویٰ ھھنا “ تقویٰ یہاں سے ہے۔ اور یہ فرماتے ہوئے دل کی طرف اشارہ کیا جس سے بلاشبہ یہ واضح ہو جھاتا ہے کہ تقویٰ دل کی پاکیزہ ترین اور اعلیٰ ترین کیفیت کا نام ہے۔ جو تمام نیکیوں کی محرک ہے۔ وہی دراصل مذہب کی جان ہے اور دینداری کی روح ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ قرآن کریم کی راہنمائی کی غایت ساری ربانی عبادتوں کا مقصد اور تمام اخلاقی تعلیموں کا ماحصل قرار پایا۔ اسلام میں تقویٰ کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا اثر یہ ہے کہ تعلیم محمدی نے نسل ، رنگ ، وطن ، خاندان ، دولت ، حسب و نسب ، غرض نوع انسنای کے ان صدہا خود ساختہ عزازی مرتبوں کو مٹا کر صرف ایک ہی امتیازی معیار قائم کردیا جس کا نام تقویٰ ہے اور جو ساری نیکیوں کی جان ہے اور اس لیے وہ معیاری امتیاز بننے کے لائق ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے بہ آواز بلند یہ اعلان فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ۔ (الحجرات) ” ہم نے تم کو مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے یہ صرف اس لیے ہے کہ باہم شناخت ہو سکے تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ “ اس اعلان کو نبی اعظم و آخر ﷺ نے ان دو مختصر لفظوں میں ادا فرمایا۔ ” الکرم التقویٰ “ یعنی بزرگی و شرافت تقویٰ کا نام ہے اور اس کے لیے حجۃ الوداع کے اعلان عام میں پکار کر فرمایا کہ عرب کو عجم پر اور گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں برتر وہ ہے جس میں سب سے زیادہ تقویٰ ہے۔ الحمدللہ کہ آپ کے اس اعلان پر ہم آل عمران کے مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ ہاں ! اس فضیلت کا ذکر بھی سن لیجئے کہ آپ ﷺ نے اس میں کیا ارشاد فرمایا۔ حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بقرہ اور آل عمران کو بغور پڑھا کرو کیونکہ قیامت کے روز یہ دونوں پڑھنے والے کے لیے ایسی ہوں گی جیسے دو بدلیاں یا دو سائبان یا چھپائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ اور اپنے پڑھے والے کی یہ دونوں سورتیں حمایت کریں گی۔ (رواہ مسلم) حضرت نواس بن سمعان کی روایت ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ قیامت کے دن قرآن اور قرآن والوں کو پیش کیا جائے گا جو قرآن کریم پر عمل کرتے تھے سب سے آگے سورة بقرہ اور آل عمران ہوں گی۔ “ کیونکہ دوسری سورتوں کے نسبت احکام ان ہی دونوں سورتوں میں زیادہ دیے گئے ہیں اور آل عمران میں خصوصاً ان لوگوں کا عقلی طور پر رد کیا گیا ہے جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا۔ اللہ یا اللہ کا تیسرا حصہ مان لیا۔ اور خصوصاً سورة بقرہ کا آخری رکوع اور آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت کرنے کی بہت فضیلت احادیث میں آئی ہیں۔ ثم الحمدللہ کہ رمضان المبارک کی اکیسویں اور فروری 1995 ء کی بائیسویں شب کو یہ مضمون ختم ہوا۔
Top