Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 200
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا١۫ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠ ۧ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: ایمان والو
اصْبِرُوْا
: تم صبر کرو
وَصَابِرُوْا
: اور مقابلہ میں مضبوط رہو
وَرَابِطُوْا
: اور جنگ کی تیاری کرو
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: مراد کو پہنچو
اے مسلمانو ! صبر کرو ، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاؤ ، اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو
خلاصہ کلام سن لو اور ہدایات پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ دین و دنیا کی بھلائی اسی میں ہے : 365: یہ سورة آل عمران کی آخری آیت ہے جس میں خاتمہ کلام کے طور پر تمام بنیادی ہدایات جمع کردی گئی ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے اور اس راستہ میں پیش آنے والی ساری مشکلات سے عہدہ برا ہونے کے لیے ضروری ہیں اور ان ہدایات کا ماحصل چار چیزیں ہیں ان کو اختیار کر کے مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے میں دین و دنیا کی ساری کامیابیاں ہیں۔ ان چار چیزوں میں پہلے صبر ہے ، دوسری مصابرت ، تیسری مرابطہ اور چوتھی تقویٰ ۔ سورة فاتحہ میں صبر اور تقویٰ دونوں کی تفصیل آ چکی ہے تاہم ان چاروں کا مختصر ذکر یہاں بھی علی الترتیب کردیا جاتا ہے۔ صبر کیا ہے ؟ صبر کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح ہے کہ ” الصبر ردائی “ صبر میرا لباس یعنی اوڑھنا ہے۔ گویا صبر اسلام کا دیا ہوا لباس ہے جس نے پہن لیا اس نے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا اور جس نے اتار دیا وہ ننگا ہوگیا۔ صبر انسان اور خصوصاً مسلمان کی پوری زندگی پر محیط ہے اسی طرح صبر یہ ہے کہ آدمی نیکی پر قادر ہوجائے اور معصیت سے رک جائے یا جو مصائب و مشکلات قضاء و قدر سے یا اسلام کے دشمنوں کی طرف سے پیش آئیں ان کو برداشت کرتے ہوئے اسلام پر کاربند رہے اور ان مصائب و مشکلات کے سامنے ہمت نہ ہارے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرتا رہے اور دیکھتا رہے کہ آپ ﷺ نے اس لباس کو ہر حال میں پہنے رکھا اور اپنے صحابہ ؓ کو بھی اس کے اوڑھنے کی نصیحت کی اور انہوں نے بھی اس نصیحت کے قبول کرنے میں دیر نہ لگائی اور پوری زندگی اسی کو اوڑھے ہی رہے۔ پھر اس بیان کو چند سطروں میں کس طرح بند کیا جاسکتا ہے ؟ اس لیے اس جگہ قرآن کریم کی ایک آیت پر اکتفا کیا جاتا ہے اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ہم کو بھی یہ لباس پہننے کی توفیق عطا فرمائے جو پوری زندگی نہ اتر سکے۔ قرآن کریم کی آیت میں فرمایا : وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ وَمَا یُلَقّٰہَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ (فصلت : 35 ۔ 34) ” اور پیغمبر اسلام ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کا دفاع اس نیکی سے کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔ “ یہ تو اس آیت کے معنی ہیں لیکن اس ارشاد کو پوری معنویت کے ساتھ سمجھنے کے لیے وہ حالات بھی نگاہ میں رہنے چاہئیں جن میں نبی اعظم و آخر ﷺ اور آپ ﷺ کے واسطے سے آپ ﷺ کے پیروؤں کو یہ ہدایت دی گئی تھی۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہاء ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا جس میں اخلاق ، انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ دی گئی تھیں۔ ہر جھوٹ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے آپ ﷺ کو بدنام کرنے اور آپ ﷺ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے طرح طرح کے الزامات آپ ﷺ پر لگائے جا رہے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والوں کی ایک فوج کی فوج آپ ﷺ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو پہنچائی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوگئی تھی۔ پھر آپ ﷺ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گفروہ ہر وقت آپ ﷺ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ ﷺ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں تو اتنا شور بپا کردیا جائے کہ کوئی آپ ﷺ کی بات نہ سن سکے۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے اس وقت مخالفتوں کو توڑنے کا یہ نسخہ آپ ﷺ کو بتایا گیا۔ اس میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں یعنی بظاہر تمام مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جن کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بےبس محسوس ہوتی ہو لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخرکار اس کا بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ کیونکہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بدی کے ساتھ ہی نہیں خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں ، ظالم ہیں اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں۔ یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو درکنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بےبس نظر آتی ہے مسلسل کام کرتی چلی جائے تو آخرکار وہ غالب آ کر رہتی ہے کیونکہ اول تو نیکی بجائے خود ہی ایک طاقت ہے جو دلوں کو مسخر کرتی ہے اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہوجائیں ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہوجائیں۔ زیرنظر آیت میں دوسری یہ بات فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ محض نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجہ کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو یہ محض نیکی ہے اعلیٰ درجے کی نیکی نہیں۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو۔ اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بدترین دشمن بھی آخرکار جگری دوست بن جائے گا۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بنے شک یہ نیکی ہوگی مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کرسکے گی۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بےحیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بدکلامی کے لیے کھلے گی۔ ایک شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر مزید دلیر ہوجائے لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیک کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے۔ تاہم قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر شخص جگری دوست ہی بن جائے گا دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے درگزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کم یاب ہیں۔ ہاں ! یہ نسخہ تو بڑا ہی کارگر ہے مگر اس کا استعمال کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں۔ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ اس کے لیے یہ بڑا عزم ، بڑا حوصلہ ، بڑی قوت برداشت اور اپنے نفس پر بہت بڑا قابو درکار ہے۔ وقتی طور پر ایک آدمی کسی بدی کے مقابلے میں بڑی نیکی برت سکتا ہے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن جہاں کسی شخص کو سالہا سال تک ان باطل پرست اشرار کے مقابلے میں حق کی خاطر لڑنا پڑے جو اخلاق کی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کرتے ہوں اور پھر طاقت اور اختیارات کے نشے میں بھی بدمست ہو رہے ہوں وہاں بدی کا مقابلہ نیکی اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی نیکی سے کرتے چلے جانا اور کبھی ایک مرتبہ بھی ضبط کی باگیں ہاتھ سے نہ چھوڑنا کسی معمولی آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو ٹھنڈے دل سے حق کی سربلندی کے لیے کام کرنے کا پختہ عزم کرچکا ہے۔ جس نے پوری طرح سے اپنے نفس کو عقل و شعور کے تابع کرلیا ہو اور جس کے اندر نیکی اور راستی ایسی گہری جڑیں پکڑ چکی ہوں کہ مخالفین کی کوئی شرارت و خباثت بھی اسے اس کے مقام بلند سے نیچے اتراونے میں کامیاب نہ ہو سکتی ہو۔ یہ تو اس وقت کے حالات کی ایک جھلک تھی جب نبی اعظم و آخر ﷺ مبعوث ہو کر دعوت دے رہے تھے اب اس آیت کی مختصر ہدایات پر نظر کرو کہ : 1۔ اس آیت میں ایک اصول بتایا گیا ہے کہ بھلائی اور برائی برابر نہیں ان دونوں کا فرق بالکل نمایاں ہے۔ 2۔ اس آیت میں جس نیکی اور حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ کرنے کی ہے جو تمہارے دشمن ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ تمہارے اس نیک طرز عمل سے تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے گا۔ 3۔ اس آیت میں دشمن کے اس نیکی کرنے کو صبر کا انتہائی درجہ کہا گیا ہے اور اس کو عظیم الشان خوش قسمتی سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوگا کہ اخلاق محمدی ﷺ کے صحیفہ میں اس کا کیا درجہ ہے ؟ 4۔ اس آیت میں دشمن کے ساتھ برائی کرنے کو شیطانی تحریک بتایا گیا ہے اور اس سے خوش قسمت مسلمانوں کو اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ جو صحابہ ؓ میں سب سے بڑے مفسر ہیں اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں۔ ” اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیظ و غضب کی حالت میں صبر کا اور کسی کی برائی کرنے پر علم اور عفو و درگزر کا حکم دیا ہے۔ وہ ایسا کریں گے تو اللہ ان کو شیطان کے پنجہ سے چھڑا دے گا اور ان کا دشمن بھی دوست کی طرح ان کے آگے سر جھکا دے گا۔ “ (صحیح بخاری ، ج : 2 ، ص : 712) ہاں ! عملی مثالیں دیکھنا چاہتے ہو تو اسلام کے اس داعی اعظم و آخر ﷺ میں ان مثالوں کی کوئی کمی نہیں پاؤ گے بلکہ اس سے بڑھ کر دنیا کے کسی انسان میں نہیں مل سکیں گی جس نے فاتح بن کر مفتوح ہو کر نہیں۔ حاکم ہو کر محکوم بن کر نہیں بیک وقت مکہ کے ان ہزاروں دشمنوں کو معاف کردیا جن میں سے ہر ایک اس کے خون کا پیاسا رہ چکا تھا۔ (صحیح بخاری ، باب فتح مکہ) جس نے اس کو معاف کیا جس نے اس کے قتل یا گرفتاری کے لیے اہل مکہ کا اشتہار و انعام سن کر اس کا تعاقب کیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب الہجرۃ) جس نے خیبر میں اپنے زہر دینے والی یہودیہ کو معاف کردیا تھا۔ (صحیح بخاری باب فتح خیبر و ذکر اخلاق النبی) جس نے اپنے چچا کے قاتل کو معاف کیا تھا۔ (صحیح بخاری فتح مکہ) یہ وہی قاتل تھا جس نے حمزہ کی لاش کو بےحرمت کیا اور اس کے جگر کو چبانے والی کو معاف کردیا۔ (صحیح بخاری باب فتح مکہ) جس نے تنعیم کی وادی میں قریش کے اس گرفتار دستہ کو معاف کیا جو اس کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا۔ (جامع ترمذی التفسیر سورة الفتح) جس نے نجد کے ایک نخلستان میں جب وہ محو خواب تھا اپنے اوپر ایک تیغ بکف حملہ آور کو قابو میں پا کر معاف کردیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد ، ص : 208) جس نے ان طائف والوں کے حق میں دعائے خیر کی جنہوں نے اس پر پتھروں کی وہ بارش کی تھی جس سے اس کے پاؤں خون آلودہ ہوگئے تھے۔ جس نے احد کے میدان میں اپنے چہرہ کے زخمی کرنے والوں کو نیک دعا دی۔ (فتح الباری ، ج : 7 ، ص : 286 باب احد) جس نے دشمنوں کے حق میں بددعا کرانے والوں کو کہا کہ میں دنیا میں لعنت کے لیے نہیں بلکہ رحمت کے لیے آیا ہوں۔ (صحیح بخاری ، مشکوٰۃ ، اخلاق النبی ﷺ بحوالہ مسلم) یہ تھا وہ صبر جس کی ہدایت لے کر نبی اعظم و آخر ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور اس کو پوری زندگی اپنا لباس بنا کر دنیا کو دکھا دیا کہ داعی اسلام کا کہنا اور کرنا ایک ہے اس میں کوئی تضاد تم نہیں پاؤ گے۔ مصابرت کیا ہے ؟ ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرنا یا اپنی خواہشات کے ساتھ جہاد کرنا یا اپنوں ، قریبیوں اور ہمسایوں سے جو دکھ پیش آئیں ان کو برداشت کرنا یا مصائب اور تکالیف کی برداشت میں اپنے دشمن سے فوقیت لے جانا۔ گویا دشمن کے مقابلہ میں اس سے بڑھ کر مصائب کو برداشت کرنا اور اپنے آپ کو اس کا عادی بنا لینا پھر یہ ساری باتیں ہی آپ ﷺ میں ایک سے ایک بڑھ کر تھیں جو محتاج بیان نہیں۔ رَابِطُوْا کیا ہے ؟ رَابِطُوْا ربط سے ہے اور ربط الفرس کے معنی ہیں گھوڑے کو حفاظت کے لیے مکان پر باندھنا اور رباط اس مکان کو کہتے ہیں جس میں محافظین کا قیام ہو جیسے چھاؤنیاں اور فوجی چوکیاں۔ مفردات میں ہے کہ مرابطہ جس سے راَبِطُوْا ہے کے دو معنی ہیں ایک مراد گھوڑوں کا باندھنا یعنی دشمن کے مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہنا اور دوسرے معنی انسان کے نفس کے متعلق ہیں گویا نفس کو خود پر کھڑا رکھنا تاکہ وہ انسان کی حفاظت کرے اور کوئی بری یا فضول حرکت اس کو نہ کرنے دے۔ پہلے معنوں کی تائید قرآن کریم سے ہوتی ہے اور دوسری معنوں کی حدیث شریف سے اور دونوں معنی اپنے اپنے مقام پر صحیح اور درست ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ : وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ (الانفال : 60:8) ” اور جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے تیار رکھو تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو۔ “ مطلب واضح ہے کہ تمہارے پاس سامان جنگ اور ایک مستقل فوج ” Standing Army “ ہر وقت تیار رہنی چاہئے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کرسکو۔ یہ نہ ہو کہ خطر سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضاکار ، اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنا شروع کرو اور اس اثناء میں کہ تمہاری تیاری مکمل ہو دشمن اپنا کام کر جائے۔ اس طرح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سامان جنگ جو زمانہ کے حالات کے مطابق نئی نئی صورت بدلتا جائے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں زیدہ سے زیدہ اور اچھے سے اچھا ہر وقت تیار رکھنا نہایت ضروری ہے اور قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق اس کے بیان کی یہی غرض ہے۔ اس طرف سے تساہل برت کر مسلمانوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے اور ابھی تک اس نقصان کو پورا کرنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی اور اس کوتاہی کا جو نتیجہ ہے وہ عالم اسلام کے سارے مذہبی اور سیاسی لیڈروں پر واضح ہے۔ یہ کوتاہی کیوں ہوئی ؟ اس کا علاج کیوں نہ کیا گیا ؟ اور آج بھی اس پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی ؟ اس کے اسباب و وجوہ پر ان شاء اللہ کسی دوسرے مقام پر روشنی ڈالی جائے گی۔ دوسرے معنی قیام صلوٰۃ کے کیے گئے ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منظتر رہنا بلکہ اس کے لیے تیار رہنا مرابطہ کہلاتا ہے اور نماز بذاتہ جنگی تیاری کی ایک نہایت عمدہ مشق ہے جو ڈسپلن ، وقت کی پابندی ، نظم و ضبط ، حرکات و سکنات کی باقاعدگی اور خصوصاً آرڈر کی پابندی اور جنگی مشقوں کا بہترین نمونہ ہے اور خصوصاً اللہ رب العزت کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے نئے سرے سے وعدوں کا میثاق ہے۔ لیکن ہم نے اس کو جو کچھ بنا دیا ہے وہ کسی پر بھی پوشیدہ نہیں۔ تقویٰ کیا ہے ؟ ہر اچھے کام کے کرنے اور برائی سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ضمیر کا احساس بیدار اور دل میں خیر و شر کی تمیز کے لیے خلش ہو۔ بس اس کا نام تقویٰ ہے۔ اگر رسول مکرم نبی اعظم و آخر ﷺ کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ہم صرف ایک لفظ میں ادا کرنا چاہیں تو ہم اس کو ” تقویٰ “ سے ادا کرسکتے ہیں۔ اسلام کی ہر تقلیم کا مقصد اپنے ہر عمل کے قالب میں اس تقویٰ کی روح کو پیدا کرنا ہے۔ اس طرح ہم اسلام کے کسی کام کسی عمل کا نام تقویٰ سے لے سکتے ہیں کیونکہ اسلام کی ساری عبادتوں کا منشاء اس تقویٰ کا حصول ہے۔ کسی عمل کا نام تقویٰ سے لے سکتے ہیں کیونکہ اسلام کی ساری عبادتوں کا منشاء اس تقویٰ کا حصول ہے۔ ہدایت کن لوگوں کو حاصل ہو سکتی ہے ؟ متقین کو۔ (البقرہ : 2:2) اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تمہارے پہلوں کو پیدا کیا تاکہ تم متقی ہوجاؤ ۔ (البقرہ : 22:2) تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح پہلوں پر فرض کیا گیا تھا ، روزہ اس لیے ہے کہ تم متقی ہوجاؤ ۔ (البقرہ : 183:2) جو شخص حج کے ارکان و مقامات کی عزت کرتا ہے اس کا منشاء بھی دل کا تقویٰ ہے۔ (الحج : 23:32) اللہ کے پاس تمہاری قربانیوں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا لیکن جو پہنچتا ہے وہ تقویٰ ہے۔ (الحج : 37:32) مسجدیں بنانے اور نمازیں ادا کرنے کا اصل مقصد تقویٰ ہی ہے۔ (توبہ : 108:9) حج و جہاد کے سفر میں جو زاد راہ لے کر چلنے کی ہدایت ہے وہ بھی تقویٰ ہی ہے۔ (البقرہ : 197:2) معاف کردینا کیا ہے ؟ فرمایا وہ تقویٰ ہے۔ (البقرہ : 227:2) انصاف کرنا کیا ہے ؟ فرمایا وہ بھی تقویٰ ہے۔ (المائدہ : 8:5) سارے کاموں میں سے عزم و ہمت کا کام کیا ہے ؟ فرمایا وہ بھی تقویٰ ہی ہے۔ (الانعام : 186:6) نیکی کیا ہے ؟ وہی جو تمہارے اعمال میں سے ایک بہترین عمل ہے جو حقیقت میں تقویٰ ہے۔ (النساء : 128:4) تقویٰ کی حقیقت کیا ہے ؟ تقویٰ اصل میں وقویٰ ہے۔ عربی زبان میں اس کے لغوی معنی بچنے ، پرہیز کرنے اور لحاظ کرنے کے ہیں لیکن وحی محمدی ﷺ کی اصطلاح میں یہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ حاضر و ناظر ہونے کا یقین پیدا کر کے دل میں خیر و شر کی تمیز کی خلش اور خیر کی طرف رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات کہ تقویٰ اصل میں دل کی اس کیفیت کا نام ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت سے ظاہر ہے جو ارکان حج کے موقع پر ہے۔ ” اور جو شعائر الٰہی کی تعظیم کرتا ہے تو وہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ “ (الحج) گویا تقویٰ کا اصلی تعلق دل سے ہے اور وہ سلبی کیفیت (بچنا) کی بجائے ایجابی اور ثبوتی کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ امور خیر کی طرف دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے اور شعائر الٰہی کی تعظیم سے ان کو معمور کرتا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : ” بلاشبہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے واسطے جانچا ہے۔ ان کو معافی ہے اور بڑا بدلہ ہے۔ “ غور کرو کہ اِمْتَحِنَ اللّٰہُ قُلُوْبُھُمْ لِلتَّقْوٰی کے الفاظ ثابت کر رہے ہیں کہ تقویٰ کا تعلق دل ہی سے ہے اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کا احساس تقویٰ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ : ” فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا “ کہ نفس یعنی جان میں اسکا فجور اور اس کا تقویٰ الہام کردیا۔ “ جس طرح فجور گناہ گاری اور نافرمانی کی جڑ ہے ٹھیک اسی طرح تقویٰ تمام نیکیوں کی بنیاد اور اصل الاصول ہے اور دونوں بندہ کو فطرۃ و دیعت ہیں۔ اب بندہ اپنے عمل اور کوشش سے ایک کو چھوڑتا اور دوسرے کو اختیار کرتا ہے مگر ہر حال میں یہ دونوں الہام فطری ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ الہام فطری کا مرکز بھی دل ہے اور اس لیے یہی تقویٰ کا مقام ہے۔ یہ اختیار اللہ کی طرف سے انسان کو دیا گیا ہے کہ وہ چاہے نیکی اختیار کرلے چاہے برائی اگرچہ نیکی اللہ کو پسند ہے اور برائی ناپسند ہے۔ جس طرح انسان کا فجور بری تعلیم ، بری صحبت اور برے کاموں کی مشق اور کثرت سے بڑھا جاتا ہے اسی طرح اچھے کاموں کے شوق اور عمل سے نیکی کا ذوق بھی پرورش پاتا ہے اور اس کی قلبی کیفیت میں ترقی ہوتی ہے۔ اس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : ” جو لوگ راہ پر آئے اللہ نے ان کی سوجھ بوجھ اور بڑھا دی اور ان کو ان کا تقویٰ عنایت کردیا۔ “ (محمد) اس سے ظاہر ہوگیا کہ تقویٰ ایک ایجابی اور ثبوتی کیفیت ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ عنایت فرماتا ہے اور جس کا اثر یہ ہوتاے کہ اس کو ہدایت پر ہدایت اور فطری تقویٰ پر مزید دولت تقویٰ مرحمت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے مجمع میں ارشاد فرمایا : ” التقویٰ ھھنا “ تقویٰ یہاں سے ہے۔ اور یہ فرماتے ہوئے دل کی طرف اشارہ کیا جس سے بلاشبہ یہ واضح ہو جھاتا ہے کہ تقویٰ دل کی پاکیزہ ترین اور اعلیٰ ترین کیفیت کا نام ہے۔ جو تمام نیکیوں کی محرک ہے۔ وہی دراصل مذہب کی جان ہے اور دینداری کی روح ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ قرآن کریم کی راہنمائی کی غایت ساری ربانی عبادتوں کا مقصد اور تمام اخلاقی تعلیموں کا ماحصل قرار پایا۔ اسلام میں تقویٰ کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا اثر یہ ہے کہ تعلیم محمدی نے نسل ، رنگ ، وطن ، خاندان ، دولت ، حسب و نسب ، غرض نوع انسنای کے ان صدہا خود ساختہ عزازی مرتبوں کو مٹا کر صرف ایک ہی امتیازی معیار قائم کردیا جس کا نام تقویٰ ہے اور جو ساری نیکیوں کی جان ہے اور اس لیے وہ معیاری امتیاز بننے کے لائق ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے بہ آواز بلند یہ اعلان فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ۔ (الحجرات) ” ہم نے تم کو مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے یہ صرف اس لیے ہے کہ باہم شناخت ہو سکے تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ “ اس اعلان کو نبی اعظم و آخر ﷺ نے ان دو مختصر لفظوں میں ادا فرمایا۔ ” الکرم التقویٰ “ یعنی بزرگی و شرافت تقویٰ کا نام ہے اور اس کے لیے حجۃ الوداع کے اعلان عام میں پکار کر فرمایا کہ عرب کو عجم پر اور گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں برتر وہ ہے جس میں سب سے زیادہ تقویٰ ہے۔ الحمدللہ کہ آپ کے اس اعلان پر ہم آل عمران کے مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ ہاں ! اس فضیلت کا ذکر بھی سن لیجئے کہ آپ ﷺ نے اس میں کیا ارشاد فرمایا۔ حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بقرہ اور آل عمران کو بغور پڑھا کرو کیونکہ قیامت کے روز یہ دونوں پڑھنے والے کے لیے ایسی ہوں گی جیسے دو بدلیاں یا دو سائبان یا چھپائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ اور اپنے پڑھے والے کی یہ دونوں سورتیں حمایت کریں گی۔ (رواہ مسلم) حضرت نواس بن سمعان کی روایت ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ قیامت کے دن قرآن اور قرآن والوں کو پیش کیا جائے گا جو قرآن کریم پر عمل کرتے تھے سب سے آگے سورة بقرہ اور آل عمران ہوں گی۔ “ کیونکہ دوسری سورتوں کے نسبت احکام ان ہی دونوں سورتوں میں زیادہ دیے گئے ہیں اور آل عمران میں خصوصاً ان لوگوں کا عقلی طور پر رد کیا گیا ہے جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا۔ اللہ یا اللہ کا تیسرا حصہ مان لیا۔ اور خصوصاً سورة بقرہ کا آخری رکوع اور آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت کرنے کی بہت فضیلت احادیث میں آئی ہیں۔ ثم الحمدللہ کہ رمضان المبارک کی اکیسویں اور فروری 1995 ء کی بائیسویں شب کو یہ مضمون ختم ہوا۔
Top