Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 40
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کہاں يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے لیے غُلٰمٌ : لڑکا وَّقَدْ بَلَغَنِىَ : جبکہ مجھے پہنچ گیا الْكِبَرُ : بڑھاپا وَامْرَاَتِيْ : اور میری عورت عَاقِرٌ : بانجھ قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكَ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
زکریا (علیہ السلام) نے جب یہ سنا تو کہا اے میرے رب ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جب کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہوچکی ہے ؟ حکم الٰہی ہوا اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے
زکریا (علیہ السلام) لڑکے کی بشارت سن کر متعجب کیوں ہوئے ؟ : 100: زکریا (علیہ السلام) نے لڑکے کی بشارت سن کر فرمایا : ” اے اللہ ! اے میرے رب ! میرے ہاں ! لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ؟ “ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب مریم [ کے حجرہ اطہر میں زکریا (علیہ السلام) نے مناجات کی تھیں جس میں لڑکے کے لیے دعا تھی اس میں اور اس بشارت میں کچھ مدت یقینی طور پر گزر چکی تھیں خواہ وہ پانچ سات سال ہو یا آٹھ دس سال۔ تب ہی تو آپ کو تعجب ہوا کہ مدت درازتک تو دعائیں کرتارہا لیکن اب تو ظاہری حالات مایوس کن حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پھر سوال تعجب کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے استعظام پر اور ایک ایسے بڑے نشان کے ظاہر ہونے پر ہے جو انسان فطرتاً کرتا ہے۔ کیونکہ ظاہر حالات اس کے مخالف تھے اور ایک مدت مدیر شادی کو گزر چکی تھی۔ اگرچہ اب بھی فی زماننا ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں اور جن کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ شادی ہوئے اٹھارہ بیس سال گزر گئے اور حالات مایوسی کی حد تک پہنچ گئے جوانی گئی اور کہل آنے لگا اور اولاد ہوگئی۔ لیکن ان کے ہاں ! اولاد کی خبر پا کر ہر سننے والے کو ایک بار تعجب سا ہوا کیونکہ یہ فطری بات ہے۔ ہاں ! یہ بات ضروری ہے کہ اگر دعا کرنے کے دونوں ہی میں یعنی دو چار یا سات آٹھ روز تک بلکہ ایک ماہ تک بھی یہ بشارت آئی ہوتی تو یقیناً اتنا تعجب یا ایسا استفسار بھی نہ ہوتا۔ جو بات بنتی نظر آتی ہے کیونکہ اگر دعا کی قبولیت اتنی جلدی ہوئی ہوتی تو جواب یقیناً یہ ہوتا کہ کل تو بچے کے لیے دعائیں کر رہے تھے اور آج خوشخبری پر اظہار حیرانی کیوں ؟ بالکل اسی طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اپنے وطن مالوف سے ہجرت کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعافرماتے ہیں کہ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ 00100 (الصفت 37 : 100 ) ” اے میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطافرما۔ “ اور ایک مدت کے بعددعا کی مقبولیت کا نتیجہ برآمد ہونے کی آپ کو خوشخبری دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرستدہ کہتے ہیں : اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ 0053 (الحجر 15 : 53) ” اے ابراہیم ! ہم آپ کو بیٹے کی خوشخبری دینے کے لیے حاضر ہیں۔ “ تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) فرماتے ہیں : اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰۤى اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ 0054 (الحجر 15 : 54) ” تم مجھے اس بات کی خوشخبری دیتے ہو حالانکہ مجھ پر بڑھاپا طاری ہوگیا ہے۔ کوئی امید اب رہ گئی ہے کہ یہ خوشخبری مجھے سناؤ ؟ “ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اس کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ 0055 (الحجر 15 : 55) ” ہم نے تمہیں سچائی کے ساتھ خوشخبری سنائی ہے۔ تمہیں ناامید نہ ہونا چاہیے۔ بالکل اسی طرح کا معاملہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ہوا۔ چونکہ ایک مدت گزر چکی تھی اور حالات مایوس کن تھے اس لیے زکریا (علیہ السلام) نے بھی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح جواب فرمایا۔ حالات کا مایوس کن ہونا اور بات ہے اور خود انسان کا مایوس ہوجانا دیگر امر ہے۔ نہ ابراہیم (علیہ السلام) ہی مایوس تھے اور نہ ہی زکریا (علیہ السلام) ہاں ! حالات کا تقاضا تھا کیونکہ ایک مدت گزر چکی تھی کہ اولاد نہ ہوئی۔ جب حالات و وقت کا تقاضا تھا اس وقت تو اولاد نہ ہوئی اور اب ! حالانکہ اب تو بیوی بھی بانجھ ہوچکی ہے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا زکریا یہ بھی علم الٰہی میں موجود ہے کیونکہ ” وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ “ ہم نے تیری بیوی کی اصلاح کردی ہے۔ هر ہونے والے کام کے لیے قانون الٰہی میں ایک وقت طے ہے : 101: ارشاد الٰہی ہوا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے یعنی علم الٰہی میں جس کام کا ہونا تحریر ہے وہ ہو کر ہی رہے گا اور پھر ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے اگر سویر سے دینے والا وہ ہے تو دیر سے دینے والا بھی وہی ہے اور جو بات قانون الٰہی میں طے ہے اس کا وقت بھی یقیناً معین ہے اور جو روک تیرے ذہن میں ہے ہم بھی اس کو اچھی طرح جانتے ہیں ہم تجھے یہ بات بھی بتا دیں کہ آپ کی وہ روک بھی دور کردی گئی ہے اس لیے کہ آپ کی بیوی کو بھی آپ کے لیے تندرست کردیا گیا ہے۔ ” غُلٰمٌ “ آپ قرآن کریم کے قصص پر غور کریں گے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے لڑکوں کی خوشخبری دی ہے وہ جس نبی کو بھی دی ہے ” غُلٰمٌ “ کے لفظ ہی سے دی ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو یکے بعد دیگر دو بچوں کی خوشخبری دی گئی تو ایک کے متعلق فرمایا : ” فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ “ اور دوسرے بیٹے کی خوشخبری کے ساتھ فرمایا ” فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ “ زیر نظر آیت میں ” غُلٰمٌ “ کا لفظ آیا ہے اور سیدہ مریم کو جس لڑکے کی بشارت دی گئی تھی فرمایا ” لِاَھَبَ لَكِ غُلٰمَّا “ جس سے یہ بات معلوم ہوا جاتی ہے کہ چونکہ یہ سب ایک طرح کی پیشگوئیاں ہیں لہٰذا ان پیشگوئیوں میں ان کے والدین کو یہ بات بھی ضمناً بتا دی ہے کہ جن بچوں کی تم کو خوشخبری دی جارہی ہے یہ یقیناً جوانی کو پہنچ گے اور ان میں کوئی بچہ بھی ایسا نہیں ہوگا جو پیدا ہو کر جوانی تک پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جائے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ وضاحت اس لیے عرض کرنا پڑی کہ دراصل غلام کہتے ہی اس لڑکے کو ہیں جس کی مونچھیں نکل چکی ہوں یعنی جوانی کو پہنچ چکا ہو گویا ان بشارات کے ساتھ ہی ان کی زندگی کے لیے بھی ارشاد کردیا گیا ۔ ” كَذٰلِكَ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ “ اصل ترکیب اس جملہ کی اس طرح ہے کہ ” الامرکزلک “ یعنی ایسا ہی ہونا ہے : ” اَللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ “ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ پس یہ دو الگ جملے ہیں اور پہلے میں مبتدا محذوف ہے۔ (راغ)
Top