Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 68
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک اَوْلَى : سب سے زیادہ مناسبت النَّاسِ : لوگ بِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم سے لَلَّذِيْنَ : ان لوگ اتَّبَعُوْهُ : انہوں نے پیروی کی انکی وَھٰذَا : اور اس النَّبِىُّ : نبی وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّ : کارساز الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
ابراہیم (علیہ السلام) سے نزدیک تر لوگ تو وہ تھے جو اس کے قدم بقدم چلے نیز اللہ کا یہ نبی ﷺ اور وہ لوگ جو اس نبی ﷺ پر ایمان لائے ہیں ، یاد رکھو اللہ انہی کا مددگار ہے جو ایمان رکھنے والے ہیں
ابراہیم (علیہ السلام) کے قریب ترین تو وہی تھے جو حقیقت میں آپ کے متبع تھے : 144: سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے قریب بہ لحاظ دین و عقائد تو وہ لوگ تھے جنہوں نے آپ کے زمانے میں آپ کے پیروی کی تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ موجود ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ۔ (الممتحنہ : 4:60) ” تم لوگوں کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو صاف صاف کہہ دیا کہ ” ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی طور پر بیزار ہیں ، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ ۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی مخصوص صفت کا یہاں خاص کر ذکر کیا گیا وہ صرف اور صرف یہی ہے کہ انہوں نے برملا قوم سے خطاب کیا اور بےدھڑک کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ ۔ “ پھر جب قوم نے ہٹ دھرمی کی تو انہوں نے اپنی قوم اور اپنے علاقہ سے عملاً بیزاری کا اظہار کردیا اور سب کچھ چھوڑ کر فی سبیل اللہ ہجرت کر آئے۔ قوم کو برملا یہ کہنا کہ ہم تمہارے کافر ہیں نہ تمہیں حق پر مانتے ہیں نہ تمہارے دین کو اس لیے کہ اللہ پر ایمان کا لازمی تقاضا طاغوت سے فکر ہے ایمان دراصل وہی ہے جو طاغوت سے کفر کرنے کے بعد ہو۔ گویا ایمان باللہ کے لیے پہلے کفر بالطوغوت لازم و ضروری ہے۔ یہی درس و وعظ ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کا تھا اور یہی وعظ و درس قرآن کریم میں محمد رسول اللہ ﷺ نے دیا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا۔ (البقرہ : 256:2) ” پس جو کوئی طاغوت سے انکار کرے یعنی سرکش اور فساد کی قوتوں سے بےزار ہوجائے اور اللہ پر ایمان لائے تو بلاشبہ اس نے فلاح وسعادت کا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے کا نہیں۔ “ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے سچے متبعین کا طریقہ بھی وہی ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا : 145: اور اس وقت ” یہ نبی “ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ماننے والے یعنی مسلمان بھی اسی نسبت کے حق دار ہیں اور بحمداللہ فرنگی مورخین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قدیم اسرائیلی مذہب کا جانشین اب اگر کوئی ہے تو وہ مسیحیت نہیں جس کے اندر یونانی اور رومہ کے جاہلی مشرکانہ عقائد جمع ہوگئے ہیں بلکہ اسلام ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ” مورخین کی تاریخ عالم “ قدیم اسرائیلی مذہب وہی تھا جو اس گروہی مذہب جس کو یہودیت اور نصرانیت کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے پہلے اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد موجود پایا جاتا ہے۔
Top