Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 66
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم ھٰٓؤُلَآءِ : وہ لوگ حَاجَجْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا فِيْمَا : جس میں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم فَلِمَ : اب کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْمَا : اس میں لَيْسَ : نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کچھ علم وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا : نہٰیں تَعْلَمُوْنَ : جانتے
تم وہ لوگ ہو کہ تم نے ان باتوں میں جھگڑا کیا جن کا تمہارے پاس علم تھا ، تو اب اس بارے میں بھی جھگڑا کرتے ہو جس کا تمہارے پاس کوئی علم نہیں ہے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے تم کچھ نہیں جانتے
اہل کتاب سے کہا جا رہا ہے کہ ہر بات میں ٹانگ اڑانا تم نے کہاں سے سیکھ لیا ؟ 142: ” مٰا اَنْتُم “ میں ھا قائم مقام ہمزہ استفہام کے ہے اور استفہام اس جگہ تعجب کے لیے ہے۔ تم وہ لوگ ہو کہ ان باتوں میں بھی تم نے جھگڑا کیا جن کا تم کو علم تھا “ جا کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ تم نے جان بوجھ کر ٹانگ اڑانے کی کوشش کی۔ مراد اس سے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اور ان کی تعلیم ہے کہ یہود سیدنا عیسیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اور نصاریٰ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق جھگڑا کرچکے ہیں۔ یہود کے جھگڑوں کا ذکر سورة بقرہ میں بتفصیل گزر چکا اور نصاریٰ کے جھگڑے کا ذکر اس سورة آل عمران میں پیچھے پڑھتے آ رہے ہو حالانکہ ان دونوں نبیوں کے اصل حالات واقعات اور حسب و نسب سے یہ لوگ اچھی طرح واقف تھے انہوں نے جہاں جہاں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی صرف شرارۃً اور استہزاء کی اور خصوصاً ” فِیْمَا لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ “ سے مراد وہ پیش گوئیاں بھی ہو سکتی ہیں جو ان کی کتابوں میں ہمارے نبی کریم محمد رسول ﷺ کے متعلق تھیں یعنی پیش گوئیوں کے بارے میں تم نے جھگڑا کرلیا جن کے متعلق تم کو علم تھا۔ ” تو اب اس بارے میں بھی جھگڑا کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ “ یعنی اب دین ابراہیمی اور دعائے ابراہیمی کے بارے میں کیوں جھگڑا کرتے ہو اور کیوں کٹ ججتیوں پر لتے ہوئے جس کے بارہ میں کوئی شائبہ علم بھی تمہیں حاصل نہیں۔ پھر یہ کہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ من اللہ ہے کسی انسان کی طرف سے نہیں بیان کیا جا رہا ہے نہ کوئی تاریخی واقعہ کے طور پر بیان ہو رہا ہے اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کیا جا رہا ہے جو یقینی اور حتمی ہے اور یہ بات تم بھی مانتے ہو کہ ” اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ “ مختصر یہ کہ توحید و خدا پرستی کا یہی طریقہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ تھا۔ یہودیت و نصرانیت کی گروہ بندیاں اور ان کے عقائد و رسوم بعد کی پیداوار ہیں اور دراصل دین ابراہیمی سے انحراف کا نتیجہ ہیں اگر یہود و نصاریٰ اس سلسلہ میں حجت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ یہودیت و نصرانیت کا طریقہ تھا تو یہ جہل و تعصب کی انتہا ہوگئی کیونکہ یہ بات تو کسی بحث و دلیل کی محتاج نہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ گروہ بندیاں مطلق نہیں تھیں اور نہ ہی ہو سکتی تھیں۔ یہ گروہ بندیاں تو حضرت موسیٰ عیہد السلام اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام پر کی گئی ہیں اور یہ دونوں حضرت ابراہم (علیہ السلام) کے سینکڑوں برس بعد ہوئے تھے۔
Top