Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 24
اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ قِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس۔ جو يَّتَّقِيْ : بچاتا ہے بِوَجْهِهٖ : اپنا چہرہ سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برے عذاب سے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : قیامت کے دن وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو ذُوْقُوْا : تم چکھو مَا : جو كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ : تم کماتے (کرتے) تھے
کیا پس وہ شخص جو قیامت کے دن برے عذاب کو اپنے منہ پر روک رہا ہوگا (اس کا حال کیا ہوگا ؟ ) اور (اس وقت) ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب (اس کا) مزہ چکھو جو تم کماتے رہے تھے
24۔ دنیاوی کامیابیوں سے کون ناواقف ہے ؟ بلا شبہ ہم میں سے ایک نہیں جو ان دنیوی کامیابیوں سے ناواقف ہو یا اپنی بساط و طاقت کے مطابق ان کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں نہ ہو لیکن افسوس کہ آخروی کامیابیوں کی طرف ہم میں سے شاید کسی ایک کا دھیان بھی نہ ہو اور ان کامیابیوں کو شاید ہی کوئی کامیابی سمجھتا ہو حالانکہ قرآن ِ کریم کی زبان میں دنیوی زندگی کی کامیابیوں کی اس لیے کوئی وقعت نہیں کہ دنیوی زندگی بھی عارضی اور دنیوی کامیابیاں بھی عارضی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اخروی کامیابی ہی کو اصل کامیابی قرار دیتا ہے تا ہم دنیوی کامیابیوں کا تعلق بھی انسان کے کسب وکمائی سے ہے اور آخرت کی کامیابیوں کا تعلق بھی انسان کے کسب وکمائی سے ہے کیونکہ (کسب) قرآۃ نِ کریم کی اصطلاح میں جزا وسزا کا وہ استحقاق ہے جو آدمی اپنے عمل کے نتیجے میں کماتا ہے نیک عمل کرنے والے کی اصلی کمائی یہ ہے کہ وہ اللہ کے اجر کا مستحق بنتا ہے اور گمراہی وبدراہی اختیار کرنے والے کی کمائی وہ سزا ہے جو اسے آخرت میں ملنے والی ہے اس لیے بلاشبہ ظالموں اور مشرکوں کو قیامت کے روز ان کی کمائی ہی کے بدلہ میں دوذخ کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔
Top