Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
النَّاسُ
: لوگ
اتَّقُوْا
: ڈرو
رَبَّكُمُ
: اپنا رب
الَّذِيْ
: وہ جس نے
خَلَقَكُمْ
: تمہیں پیدا کیا
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّخَلَقَ
: اور پیدا کیا
مِنْھَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: جوڑا اس کا
وَبَثَّ
: اور پھیلائے
مِنْهُمَا
: دونوں سے
رِجَالًا
: مرد (جمع)
كَثِيْرًا
: بہت
وَّنِسَآءً
: اور عورتیں
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو
تَسَآءَلُوْنَ
: آپس میں مانگتے ہو
بِهٖ
: اس سے (اس کے نام پر)
وَالْاَرْحَامَ
: اور رشتے
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
رَقِيْبًا
: نگہبان
اے افراد نسل انسانی ! اپنے پروردگار سے ڈرو وہ پروردگار جس نے تمہیں اکیلی جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بھی پیدا کردیا ، پھر دونوں سے مردوں اور عورتوں کی بڑی تعداد دنیا میں پھیلا دی ، پس دیکھو اللہ سے ڈرو جس کے نام پر باہم دگر سوال کرتے ہو ، نیز قرابتداری کے معاملہ میں بےپروا نہ ہوجاؤ ، یقین رکھو کہ اللہ تم پر نگران حال ہے
سلسلہ حسب و نسب باپ سے ہے ماں سے نہیں لیکن کنیت ماں سے بھی ہو سکتی ہے : 1: انسان اول کی پیدائش کا ذکر قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر کیا گیا ہے۔ لیکن کسی جگہ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان اول فی نفسہ صرف ایک اور وہ بھی مرد ہی ہے۔ اور پھر اس مرد یعنی انسان اول کی بائیں پسلی نکال کر یا وہاں سے ایک گوشت کا ٹکڑا نکال کر یا پسلی کے درمیان سے حوا کو پیدا کر کے اس کی بیوی بنا دیا۔ اس طرح کے سارے تخیلات دراصل ہندو لٹریچر سے لئے گئے اور ان کو الفاظ کا لبادہ پہنا کر قرآن کریم کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پر ان کو چڑھا دیا گیا اور اس طرح آہستہ آہستہ نظریات پیدا ہوتے رہے اور انہیں نظریات کے نیچے حقیقت تک پہنچنے کو ایسا چھپا دیا گیا کہ وہاں تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا اور پھر اگر کسی نے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی تو اس کو فتوں کی ایسی مار پڑی کہ وہ دم بخود ہو کر رہ گیا۔ حالانکہ اس سلسلہ میں قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ دنیا میں پیدا کیا سب جوڑا جوڑا ہی پیدا کیا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا : وَمِنْ کُلِّ شَیئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَ کَّرُوْنَ (الزاریات : 49:51) ” اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق حاصل کرو۔ “ اور اس سے بھی واضح تر حکم یہ ہے جو دوسری جگہ اس طرح فرمایا : سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْن (یٰسین : 36:36) ” پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے۔ خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہو یا خود ان کی اپنی جنس سے یعنی نوع انسانی سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْوَاجَ کُلَّھَا وَجَعَلَ لَکُمْ مُِنْ الْفُلْکِ وَالْانْعَامِ مَا تَرْکَبُوْنَ (الزخوف : 12:43) ” وہی ذات ہے جس نے یہ تمام جو ڑئے پیدا کئے اور جس نے تمہارے لئے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم ان پر سوار ہو۔ “ اگر یمان کا کوئی ذرہ بھی تم میں موجود ہے تو تم خود ہی بتاؤ قرآن کریم کیا کہتا ہے اور تم کیا سمکھ بیٹھے ہو۔ کیا ان آیات پر رکھ رہا ہوں اب تو ان کو غور سے پڑھو۔ تم تو ایک انسان کے جوڑے پر بحث کرتے ہو اور اسی کوشش میں ہو کہ اس ایک کو پیدا کر کے اس سے ہی اس کا جوڑا نکالا لیکن قرآن کیا کہتا ہے ؟۔ وَمِنْ کُلِّ شَْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ ” اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔ “ خَلَقَ الْاَ زْوَاجَ کُلَّھَا ” اس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے۔ “ کیا ہرچیز اور جملہ اقسام میں انسان تو داخل نہیں ؟ اگر ہے تو پھر تم ہی مان لو کہ ہاں اللہ نے اس کو بھی جوڑا ہی بنایا تھا۔ پھر اس نے تم کو مخاطب کر کے یہ جو فرمایا کہ ” وَمَنْ اَنْفُسِھِمْ “ یعنی ہم نے نوع انسانی کو بھی جوڑا بنایا۔ تم تو مسلمان ہو قرآن کریم کو اللہ کی کتاب اور آخری وحی تسلیم کرتے ہو لیکن پھر بھی یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی ؟ غور کرو کہ ان جوڑوں سے مراد صرف نوع انسانی کے زن و مرد اور حیوانات و نباتات کے نرو مادہ نہیں ہیں بلکہ دوسری ساری چیزوں میں بھی خالق کائنات نے ایک دوسرے کا جوڑا بنایا ہے۔ جن کے اختلاط یا امتزاج سے دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں جن کے متعلق خود قرآن کریم ناطق ہے کہ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ ” جن کو یہ ابھی جانتے تک نہیں ۔ “ مثلاً عناصر میں بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا ۔ جن کا جوڑا ایک دوسرے سے لگتا ہے انہی کے جوڑ لگنے سے طرح طرح کی ترکیبیں معرض وجود میں آرہی ہیں۔ یہ منفی اور مثبت کیا ہے ؟ ان کی باہمی کشش نے دنیا میں عجیب و غریب کرشموں کو عام کردیا ہے اور کرتی ہی جا رہی ہے اور دوسرے ان گنت جوڑے ہر قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہیں ان کی ساخت اور ان کی باہمی مناسبتوں اور ان کے تعامل کی گو نا گوں شکلوں اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پرا گر انسان غور کرے تو اس کا دل یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارے کارخانہ عالم میں ہرچیز کے جوڑے ہی جوڑے نظر آرہے ہیں ایک زبردست صانع حکیم کا بنایا ہوا ہے اور اس کی تدبیر اور اس کے بنائے ہوئے اسی اصول پر چل رہا ہے۔ پھر ایک وہ ہیں جو اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سے فائدہ حاصل کرکے نئی نئی اجناس نئی نئی نباتات نئے نئے پھول اور طرح طرح کی ایجادات درا یجادات کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور ایک تم ہو کہ تمہیں فتو وں سے ہی فرصت نہیں۔ خدا کے لئے اس قوم مسلم پر رحم کرو۔ خود بھی اللہ کی آیات پر غور کرو اور دوسروں کو بھی ان پر غور کرنے کی دعوت دو ان اپنے گھڑے ہوئے اصولوں کو اللہ کے زمے نہ لگاؤ ۔ کل اس ذات الٰہ کو کیا جواب دو گے ؟ کیا مرنے کا یقین نہیں یا دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان نہیں ؟ ساری کائنات کا تزوج کے اصول پر بنایا جانا اور دنیا کی تمام اشیاء کا زوج زوج ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو آخرت کے وجوب پر صریح شہادت دے رہی ہے اگر تم غور کرتے تو اس سے بھی تمہاری عقل یہ نتیجہ اخز کرسکتی تھی۔ کہ جب دنیا کی ہرچیز کا ایک جوڑا ہے اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی تو دنیا کی یہ زندگی کیسے بےجوڑ ہو سکتی ہے ؟ اور اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے اور آخرت بھی تم کو یہی درس دے رہی ہے کہ دنیا میں ہرچیز اللہ نے جوڑا جوڑا بنائی ہے۔ اس کا تفصیلی بیان ہم نے عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 37 کے بعد ” قصہ آدم “ کے عنوان کی شق 5 ص 206 پر کردیا ہے وہاں ملاحظہ کرلیں۔ اس صورت حال نے افراد کے باہمی اجتماع و اتحاد کے لئے صلہ رحمی یعنی نسلی قرابت کا رشتہ پیدا کردیا ہے اور پوری سوسائٹی کا نظام اس پر قائم ہے۔ اگر اس طرح رشتے کے موثرات نہ ہوتے تو انسان کی زندگی میں انفرادیت کی جگہ اجتماعیت پدتا نہ ہوتی۔ اس لئے اس جگہ ارشاد الٰہی ہوا کہ ” اے افراد نسل انسانی ! اپنے پروردگار کی نافرمانی کے نتائج سے ڈرو۔ وہ پروردگار جس نے تمہیں اکیلی جان سے پیدا کیا یعنی باپ سے اور اس کا جوڑا بھی پیدا کردیا۔ یعنی جس طرح مرد کی نسل سے لڑکا پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح سے ان کے آپس میں جوڑے بنتے آئے ہیں بن رہے ہیں اور تا نظام دنیا اسی طرح بنتے رہیں گے۔ مختصر یہ کہ مرد اور عورت دونوں ایک ہء جنس کی دو الگ الگ اصناف میں من حیث الجنس ایک ہیں اور من حیث الصنف دو ہیں۔ ہاں ! دونوں میں مرد اصل ہے کیونکہ نسل اس سے ہے عورت سے نہیں۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اس بات کی تشریح کہ مذکر و مونث میں اصل مذکر ہے خود نبی اعظم و آخر ﷺ کی زبان اقدس سے بھی بہت سے طریقوں سے کردی گئی اور قرآن کریم میں بھی اس پر بیسیوں مثالیں بیان کی گئی ہیں اور یہی اصول ہر مذکر و مونث میں پایا جاتا ہے جس میں انسان بھی شامل ہے۔ اگرچہ مخاطب جب کیا جائے گا تو انسان ہی کو کیا جائے گا کیونکہ وہی قابل خطاب ہے۔ قرآن کریم میں یہ امر واضح ہے کہ ذریت کا تعلق باپ سے ہوتا ہے ماں سے نہیں۔ اور ذریت کیا ہے ؟ وہی نسل ہے جس کا اوپر بیان ہوا۔ دودھ ماں سے ہوتا ہے اور ہیں سے بچہ دودھ حاصل کرتا ہے جو بچہ کیلئے ساری غذائوں سے بہتر غذا ہے اور اس دودھ کی نسبت بھی رسول اللہ ﷺ نے باپ سے دی ہے ماں سے نہیں۔ چناچہ آپ ﷺ کا ارشاد واضح ہے کہ ” لبن الفحل “ یعنی دودھ نر سے ہے۔ مطلب صاف ہے کہ جب تک مادہ سے نر ملاپ نہیں کرے گا دودھ پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسلام کی زبان میں علاقی بہن بھائی ان ہی بہن بھائیوں کو کہا جاتا ہے جو باپ کی طرف سے بہن بھائی ہوں خواہ ان کی مائیں الگ الگ ہی ہوں اور ان کے سارے احکام بھی حقیقی بہن بھائیوں کی طرح ہوں گے جو ایک ماں باپ سے ہوتے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ اصل علت باپ ہے۔ سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحٰق دونوں نبی ہوئے اس لئے کہ دونوں ہی ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں داخل ہیں اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ دونوں کی مائیں الگ الگ ہیں۔ اگر ذریت ماں کی طرف سے ہوتی تو یہ دونوں نبی نہ ہو سکتے اس لئے کہ نبوت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ابراہیم علہ السلام کی ذریت سے مخصوص تھی کوئی دوسری ذریت سے تعلق رکھنے والا نبی ہیں بن سکتا تھا۔ (العنکبوت : 27:29) اس طرح سلسلہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے ماں کی طرف سے نہیں۔ ایک عورت مختلف اوقات میں دو تین آدمیوں کی بیوی رو سکتی ہے اور پھر ان سب سے اس کی اولاد بھی ممکن ہے تا ہم یہ اولاد بھائی کہلانے کے باوجود ایک سلسلہ نسب سے متعلق نہیں ہوں گے وہ اپنے باپ کے سلسلہ نسب سے ہی متعلق ہوں گے اگرچہ ان سب کی ماں ایک ہے۔ اسی طرح مرد ایک ہی وقت میں یا مختلف اوقات میں دو تین عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے اور ساری عورتوں سے اولاد بھی ممکن ہے اور پھر اس ساری اولاد کا سلسلہ نسب ایک ہی شمار ہوگا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اصل علت یعنی باپ ان سب کا ایک ہے۔ بلاشبہ اس جگہ اکثر مفسرین نے سیدنا آدم (علیہ السلام) مراد لئے ہیں جو انسان اول تھے۔ ہاں ! آدم (علیہ السلام) انسان اول ضرور تھے۔ لیکن اس جگہ اس آیت سے یا کسی دوسری آیت سے ثابت نہیں ہوتا اور اس کی تفصیل ہم قبل ازیں کرچکے ہیں جیسا کہ ابھی اوپر مذکور ہوا۔ اس کے لئے سورة بقرہ ہی کی طرف مراجعت کریں انشاء اللہ تفہیم ہوجائے گی۔ اس جگہ ہر خاندان کا مورث اعلیٰ مراد لیا جاسکتا ہے اور زمانہ کے ساتھ ساتھ نئے نئے مورث بنتے رہتے ہیں اور وہ سب اس آیت سے مراد لئے جاسکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا کہ ان سب کو مراد لیا جاسکے تاکہ انسانوں کو جو سمجھانا مقصود ہے وہ اچھی طرح ان کو سمجھ میں آجائے۔ اس لئے کہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَا لًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئَ اور یہی تنکیر اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ یہاں مورث اعلیٰ مراد لیا جائے۔ مثلاً زید کی ہندہ سے شادی ہوجائے اور ان کے چھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور ان چھ بیٹوں کی شادیاں ہوگئیں ان کے ہاں چھ چھ آٹھ آٹھ بچے بچیاں پیدا ہوئے پھر ان بچوں کی شادیاں ہوگئیں۔ اس طرح یقینا زید ان سب کا مورث اعلیٰ ہوا اور اس طرح زید کی اولاد اور اولاد در اولاد میں سینکڑوں مرد اور عورتیں بن گئیں جن پر رِجَا لًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئَصادق آگئے۔ پھر اس کی مزید تشریح قرآن کریم نے خود ہی دوسرے مقامات پر کردی ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا : ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات : 13:49) ” اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک جنس کی دواصناف یعنی مرد و عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو اور اللہ کے نزدیک تم سب میں عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃًاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْن (الروم : 21:30) ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ “ جوڑا اپنی جنس ہی سے ہو سکتا ہے غیر جنس سے نہیں : انسان کا جوڑا وہی کہلائے گا جو اس کی جنس سے ہو۔ پھر جنس سے مذکر و مونث ہی کو جوڑا قرار دیا جائے گا۔ دو مذکر یا دو مونث کا جوڑا نہیں کہلا سکتا بلکہ دو مرد یا دو عورتیں ہی کہا جاسکتا ہے۔ گویا ہر میاں بیوی کا تعلق ایک جنس سے ہوگا تو وہ میاں بیوی ہو سکتے ہیں کسی دوسری جنس سے ممکن نہیں۔ قرآن کریم نے اس کی وضاحت اس لئے کردی کہ سارے انسان ایک جنس کہلاتے ہیں یہ خاندان اور قبیلوں کی تقسیم محض پہچان کے طور پر رکھی گئی اس لئے یہ ضروری نہیں کہ ایک خاندان کسی دوسرے خاندان سے شادی بیاہ کو حرام قرار دے لے جیسا کہ آج کل ہم نے کر ہی لیا ہے جیسے سید اور غیر سید یا جاٹ اور غیر جاٹ کی تقسیم یہ رسم و رواج ہندوئوں سے آیا ہے اسلام کا بنایا ہوا نہیں۔ دوسری بات یہ واضح ہوگئی کہ جس طرح پڑھی لکھی بےو قوف قومیں قوانین بنا رہی ہیں کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی رچا سکتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انسان چونکہ ایک حیوان ہی ہے اس لئے اس کو ہر حیوان سے شادی رچانے کا حق حاصل ہونا چاہئے اس طرح کی ساری قباحتوں کا حل قرآن کریم نے صرف دو لفظوں میں پیش کردیا۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے یہ انسان کا اپنا کام ہے۔ بہر حال اس طرح کے نظریات نے پہلے ہم صنفی کا مرض پیدا کیا اور کتنی قومیں اس میں غرق ہوئیں اور اب انسانوں نے حیوانی مطابقت سے مزید آگے بڑھنے کی سعی شروع کی ہے اور شاید آہستہ آہستہ ننگے دھڑنگے رہنے اور کچا گوشت کھانے اور غاروں کے اندر رہنے والے زمانے کی طرف مراجعت چاہتا ہے حالانکہ خود اس کو دور جاہلیت سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ ابھی اس انسان کو کیا کیا سوجھے گا ؟ اللہ جانے۔ اچھا فرمایا جتنا بھی تو اسے انسان پیچھے ہٹتا چلا جائے ہٹ لے لیکن ایک بات اچھی طرح یاد رکھ کہ تیری نسل اس وقت آگے بڑھے گی جب فطرت انسانی کے مطابق تیرا عقد ہوگا اور تیری خواہشات کا ازالہ ایک جنس کی دونوں الگ الگ اصناف سے ہوگا۔ علاوہ ازیں تیری نسل آگے نہیں بڑھے گی اور نہ ہی تو اولاد جیسی چیز کسی اور طریقہ سے حاصل کرسکے گا۔ اس لئے حقیقت کو بھولنا تیرا کمال نہیں بلکہ تیرے زوال کی نشانی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ” دونوں کی نسل سے یعنی میاں بیوی سے مردوں اور عورتوں کی بڑی تعداد کو دنیا میں پھیلا دیا۔ “ اس مقصد کیلئے جو الفاظ ارشاد فرمائے ان کو ایک بار پھر نظر میں لائو کہ فرمایا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَا لًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئَ اگر اس جگہ آدم (علیہ السلام) اور حواہی مراد ہوتے تو پھر عبادت اس طرح ہوتی کہ وبث منھما جمیع الرجال والنساء یعنی تنکیر کی بجائے معرفہ بنایا جاتا کیونکہ آدم و حوا معروف نام ہی ہیں نکرہ نہیں۔ اور ان الفاظ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ نسل کے لئے ایک ہی جنس کی دونوں اصناف ضروری ہیں جب تک دونوں اصناف کا ملاپ نہیں ہوگا نسل آگے نہیں بڑھے کی۔ خوب سمجھ لو کہ نسل کی ایک طرف نسبت دینے سے دوسری طرف معدوم نہیں ہوجاتی بلکہ لازم ہوجاتی ہے اور چیزیں لازم و ملزوم ہوں ان میں سے ایک کا ذکر کرنا دوسرے کے ذکر کا اثبات ہوتا ہے۔ اللہ کے نام سے سوال کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اس جگہ اس کی ضرورت کیوں ؟ 3 ۔ اس بیان سے دو چیزوں کی وضاحت ہوگئی ایک یہ کہ اللہ کا تصور فطرت انسانی میں داخل ہے۔ دوسری یہ کہ اس فطری تصور کا غیر فطری استعمال ہی انسان کو مشرک بنا دیتا ہے۔ انسان شرک کا مرتکب بھی اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ کا تصور اس کے دل و دماغ میں موجود ہوتا ہے اور پھر جب وہ اپنے فطری تصور کو کسی شکل و صورت کے مجسمہ میں دیکھنا چاہتا ہے تو شرک کا مرتکب ہوجاتا ہے گویا شرک اس فطری تصور کے غلط استعمال کا دوسرا نام ہے۔ نہ کہ اللہ کے عدم تصور کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مشرک انسان فی نفسہ اللہ کا اقراری ہوتا ہے انکاری نہیں اور یہ بھی کہ اللہ کا منکر فطرت انسانی سے انکاری ہے اس لئے وہ منکر یا کافر ہے۔ مطلب واضح ہوگیا کہ اللہ کے نام سے طلب کرنا یعنی ایک دوسرے سے سوال کرنا فطرت انسانی ہے اور اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کا واسطہ کے کر مانگنا شرک بھی ہے اور فطرت انسانی کے خلاف یعنی غیر فطری بھی۔ اس طرح غیر اللہ کے نام کی دوہائی ، غیر اللہ کے نام کی پکار ، جب کہ وہ موجود نہیں غیر اللہ کے نام کی نذرو نیاز ، غیر اللہ کے نام کی منت و چڑھاوا ، غیر اللہ کے نام کی قسم ، غیر اللہ کے نام واسطہ و وسیلہ سب حرام اور شرد ہیں اور غیر فطری چیزیں ہیں اور غیر فطری افعال کا مرتکب کیا ہوتا ہے ؟ سب پر واضح ہے۔ اس جگہ اس کے بیان کی ضرورت اس طرح ہوئی کہ جس ایک ہی جنس کی دواصناف کا یہاں ذکر شروع کیا گیا ہے ان کو بتانا مقصود ہے کہ تم دونوں اصناف ایک دوسرے کی محتاج ہو اور یہ احتیاج تمہاری ہے۔ محتاج کون ہے ؟ وہی جو کمزور ہو اور ہر کمزور کو اپنی کمزوری کا ازالہ بھی فطری ہے لہٰذا تم دونوں اصناف کو اپنی کمزوری کے ازالہ کے لئے ایک دوسرے کی طلب ہوگی لہٰذا اپنی اپنی اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے وہی راستہ اختیار کرنا جو اللہ نے فطرت انسانی میں رکھا ہے اگر اس راستے سے بھٹک گئے تو تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو ایک اللہ کا تصور رکھنے والے کے بھٹکنے کا ہوا۔ وہ اس طرح بھٹکا تو مشرک ہوگیا اور اس طرح بھٹکے گا تو اس کا نام زانی ہوگا اور زانی اور مشرک دونوں کی ایک مثال ہے۔ جب تصور کے لحاظ سے ایک جگہ تصور کو قائم نہ رکھ سکا بلکہ در در کی ٹھوکریں کھا کر مشرک کہلایا اور بالکل اسی طرح اس فطری خواہش کے ازالہ کے لئے جو جگہ متعین تھی اور جو طریقہ مقرر کیا گیا تھا اس کو چھوڑ کر دوسری طرف نگاہ اٹھائی تو زانی ہوگیا۔ ازالہ دونوں نے فطری چیز کا کیا لیکن اس فطری ازالہ کے لئے دونوں نے غیر فطری راستہ اختیار کیا۔ پھر اس غیر فطری راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے ایک مشرک کہلایا اور دوسرا زانی۔ اب آپ کا سوال یہ ہوگا کہ یہ جو کچھ میں نے کہا وہ میرے سے پہلے کسی دوسرے نے بھی کہا ؟ اگر نہیں تو آخر مجھے کیا حق ہے کہ میں ایسی بات کہوں جو میرے پہلے کسی نے نہ کہی ہو۔ سو گزارش ہے کہ اس جگہ اس آیت کی تفسیر میں خواہ کسی نے نہ کہا ہو لیکن فی نفسہ جو میں نے کہا ہے وہ میں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے اس لئے مجھے کہنے کی جرات ہوئی ورنہ میں کون ہوں کہ ایسی بات کہوں ؟ چناچہ ارشاد الٰہی ہے۔ اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُہَا اِِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (النور : 3:24) ” کوئی زانی مرد ہی کسی زانیہ یا مشرکہ عورت کو پسند کرسکتا ہے تاکہ اس سے نکاح کرے اور اس طرح کوئی زانیہ عورت ہی پسند کرے گی کہ وہ کسی زانی مرد یا مشرک مرد سے نکاح کرلے۔ اہل ایمان کے لئے تو یہ بات حرام ہے۔ “ رہی یہ بات کہ میں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ مشرک اللہ کے تصور سے خالی نہیں ہوتا ؟ اللہ کا تصور بھی رکھے اور پھر مشرک بھی ہو ؟ ہاں ! بالکل صحیح ہے کہ مشرک کبھی بھی اللہ کے تصور فطری سے خالی نہیں ہوتا بلکہ اللہ کا تصور یقینا اس میں موجود ہوتا ہے اور جس میں وہ فطری قوت موجود ہی نہ ہو وہی عینین ہوتا ہے۔ صحیح احادیث میں آیا ہے کہ ایک غلام پر حد جاری کرنے کے لئے طلب کیا گیا کہ اس کے خلاف شہادت تھی کہ وہ زنا کا مرتکب ہوا۔ اس کو حاضر کرنے کے لئے آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس کو پیش کریں۔ جب آپ اس کو بلانے کے لئے گئے تو وہ غسل کر رہا تھا آپ کی اتفاقی نظر جو پڑی تو اس عینین پایا اور اس عنانت کی وجہ سے اس سے حد ساقط کردی گئی اور شہادت دینے والوں پر حد جاری کی گئی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس میں وہ چیز موجود ہی نہ تھی جس سے انسان زنا کا مرتکب ہوتا ہے۔ جس زنا سے حد جاری ہوتی ہے۔ رہی مشرک کی یہ بات کہ وہ کبھی اللہ کا تصور سے خالی نہیں ہوتا اور یہ بھی میں نے نہیں کہا بلکہ خود اللہ کریم کا ارشاد قرآن کریم میں ہے کہ : قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَا اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ (المومنون : 84:23) ” اے پیغمبر اسلام ! ان مشرکوں سے کہہ دے۔ اچھا اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ کہ زمین اور وہ تمام مخلوق جو اس میں ہے کس کے لئے ہے ؟ وہ فوراً کہیں گے اللہ کے لئے۔ تو کہہ پھر کیا ہے تم کو تم غور کیوں نہیں کرتے ؟ تو ان سے پوچھ وہ کون ہے جو ساتوں آسمانو کا پروردگار ہے ؟ اور جہاں داری کے عرش عظیم کا مالک ہے ؟ وہ فوراً کہیں گے یہ سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے تو کہو پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ شرک و نکار کے نتیجہ سے تم ڈرتے نہیں ہو ؟ “ اس سے آگے بھی بیان جاری ہے۔ مطلب اس جگہ یہ ہے کہ کیا یہ مشرک اللہ کے تصور سے خالی ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ مشرک کیوں ہیں اس لئے کہ اللہ کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کہ بھی ان صفات میں شریک جانتے ہیں جن سے صرف اللہ ہی کی ذات متصف ہے۔ وہ اللہ کو حاجت روا مشکل کشا جانتے ہیں لیکن ساتھ ہی دوسروں کو بھی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا قرار دیتے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ جب وہ حقیقی مشکل کشا ان کو نظر نہیں آتا تو وہ اپنے تصور کو جو فطری طور پر ان میں موجود ہے ان شخصیتوں کی طرف پھیر دیتے ہیں جن کو وہ اللہ کا مقرب جانتے ہیں اور اس طرح گویا فطری تصور کو غیر فطری طریقہ کی طرف پھیر دیتے ہیں اور ان صفات میں اللہ کا شریک قرار دے لیتے ہیں اس لئے وہ مشرک کہلاتے ہیں۔ رشتہ داریوں اور قرابت داریوں سے بےپروانہ ہو جائو : :4 دیکھو جب ہی تم نے اس دنیا میں قدم رکھا تو لازم ہوگیا کہ کوئی تمہارا باپ ہے اور کوئی ماں۔ اس طرح دادا ، دادی اور نانا ، نانی۔ پھر کوئی تمہارا ماموں ہوگا تو کوئی چچا اس طرح کوئی تمہاری خالہ ہوگی تو کوئی پوپھی۔ پھر تمہارے کتنے بھائی ہوں گے اور کتنی بہنیں اور اس طرح تم قدم رکھنے ہی کئی ایک رشتہ داریوں اور قرابت داریوں میں گھر جائو گے۔ یہ سارے لوگ تمہارے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتے ہیں اور تم ان سے۔ اس لئے یاد رکھو ان تعلقات کی وجہ سے تم سب کے ایک دوسرے پر حقوق و فرائض لازم آتے ہیں اور ان حقوق و فرائض کو اللہ کی رضا کے مطابق ادا کرنا تم پر لازم و ضروری ہے اگر تم نے اس میں کوتاہی کی تو تم سے باز پرس ہوگی۔ گویا تمہاری پیدائش نے بہت سے لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی یعنی نسلی قرابت کا رشتہ پیدا کردیا ہے اور سوسائٹی کا نظام اس پر قائم ہے۔ اگر اس رشتے کے موثرات نہ ہوتے تو انسان کی زندگی میں انفرادیت کی جگہ اجتماعیت پیدا نہ ہوتی۔ یہ رشتہ ہی ہے جو باہمی الفت و مساعدت کے جذبات پیدا کرتا ہے اور ایک فرد کو دوسرے فرد کے ساتھ ملائے رکھتا ہے۔ پس نظام معاشرت کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ صلہ رحمی کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا گیا : وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلیٰ بِبِعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ (الا انفال : 78:8) ” اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق ادا ہیں۔ “ یہ ارشاد اس لئے فرمایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد جو مواخات کرائی تھی اس سے مسلمانوں میں ایک ایسا ولولہ پیدا ہوگیا تھا کہ خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ رشتہ حق کے زن عزیزوں کو اپنا سمجھنے لگے اور ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ “ یہ ارشاد اس لئے فرمایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد جو مواخات کرائی تھی اس سے مسلمانوں میں ایک ایسا ولولہ پیدا ہوگیا تھا کہ خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ رشتہ حق کے ان عزیزوں کو اپنا سمجھنے لگے اور ایک دوسرے کے وارث ہونے لگے۔ اس طرح انہوں نے اپنے سارے پچھلے رشتے بھلا دیئے تھے اور ان کے دل میں صرف ایک ہی رشتہ کی لگن باقی رہ گئی تھی یعنی سب اللہ کے رسول ﷺ کے شیدائی اور سب اس کے حسن جہاں آراء پر اپنا سب کچھ نثار کردینے والے ہوگئے۔ تو نخل خوش ثمر کیستی ؟ کہ باغ و چمن ہمہ زخویش بریدند ودر تو پیو سند یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح اعلان کرنا پڑا کہ جو قرابت دار ہیں وہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قرابت دار ہیں اور اس صلہ رحمی کا رشتہ کسی حال میں بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اور ایک جگہ قریبی رشتہ داروں کی رشتہ داری کا خیال نہ رکھنے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا : وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ (الرعد : 25:13) ” اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد بپا کرتے ہیں۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ (محمد :22:47) ” کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم لوگ حاکم بن گئے تو زمین میں پھر فساد کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔ “ فرمایا جا رہا ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لئے تمہارے اندر کوئی وفاداری نہیں ہے اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لئے تم تیار نہیں ہو تو اخلاقی حالت کے ساتھ اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات باگیں تمہارے ہاتھ میں آجائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کو توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی ہے۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار خواہ وہ دور کے ہوں یا قریب کے اس کے زوی الارحام ہیں۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ صلہ رحمی کیا ہے ؟ کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ برا سلوک کرے یا جو بھلائی کرنا اس کے لئے ممکن ہو اس سے قصداً پہلو تہی کرے۔ پھر یہ صلہ رحمی کے حقوق کس نے ٹھہرائے ؟ اس ذات نے جو ہمارا خالق ہے اور تم سے پہلوں سب کا بھی۔ یہ سب اس کے ٹھہرائے ہوئے حقوق ہیں جو شخص ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے۔ وہ احکام الٰہی سے سرتابی کرتا ہے اور اس طرح گویا وہ ظلم و معصیت کا مرتکب ہوتا ہے۔ ان حقوق کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے انہی حقوق میں انسان نے جنم لیا اور انہی میں اس کی موت ہوئی۔ دیکھو والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ، تعلیم و تربیت کے حقوق ، رضاعت و حضانت کے حقوق ، زوجین کے حقوق ، اہل قرابت کے حقوق ، ہمسایہ کے حقوق ، یتیموں کے حقوق ، بیواؤں کے حقوق ، حاجت مندوں کے حقوق ، بیماروں کے حقوق ، غلاموں کے حقوق ، مہمانوں کے حقوق ، مسلمانوں کے باہمی حقوق ، انسانی برادری کے حقوق اور جانوروں کے حقوق ، غلاموں کے حقوق۔ فرمایا ان حقوق کی ادائیگی میں بےپروانہ ہوجاؤ ۔ مکلّفین کی ہر حرکت سے اللہ بذاتہ واقف ہے اور ایک سلسلہ نگرانی کا اس نے قائم کردیا ہے : 5: مکلفین کی ہر حرکت سے اللہ واقف ہے۔ اس لئے کہ مکلفین ہی وہ جنس عظیم ہے جو اپنی ہر حرکت کا جواب دہ ہے۔ باقی مخلوق کی حرکات و سکنات سے بھی اللہ خوب واقف ہے لیکن مکلفین کے علاوہ دوسری کوئی مخلوق ایسی نہیں جو اپنے اعمال کی جواب دہ ہو۔ ایسا کیوں ؟ اس لئے کہ جو عقل وفکر اور سمجھو سوچ اور تدبر اس کو دیا گیا ہے وہ کیس دوسری مخلوق کو نہیں اور یہ بھی کہ اس کائنات ارض میں جو کچھ ہے وہ صرف اور صرف اس کے استفادہ کے لیے ہے اور آخرت میں جو کچھ ہوگا وہ بھی صر اسی کی خاطر۔ گویا پوری کائنات میں مقصود حقیقی اور اشرف المخلوقات صرف یہی ہے اور اسی اصول کے مطابق جتنا کوئی زیادہ اشرف ہوگا اتنا ہی زیادہ جواب دہ ہوگا۔ کاش ! کہ یہ بات لوگوں سمجھ میں آجائے تو شرک کی ساری جڑیں کٹ جائیں۔ انبیائے کرام کی زندگیوں پر غور کرو باوجود اس کے ہر رسول معصوم تھا اور کوئی نبی و رسول کسی صغیرہ گناہ میں بھی مبتلا نہیں ہو۔ نسیان و بھول جو انسانیت کا خاصہ ہے وہ جس کو لاحق ہوا فوراً اللہ سے معافی طلب کی اور سارے انبیاء کرام کے سردار رسول مکرم و نبی اعظم و آخر ﷺ کا درجہ و مقام سارے انبیاء سے بڑھ کر ہے پھر بھی آپ ﷺ کی عبادت ، آپ ﷺ کی خشیت الٰہی ، آپ ﷺ کی توبہ و استغفار کا کوئی مقابلہ ؟ ساری ساری رات کا قیام ، پے درپے روزے ، پیغام نبوت کی مسلسل گردش یہ سارا کچھ کیوں ؟ یہ محض اس لئے کہ آپ ﷺ پوری کائنات کے انسانوں سے ارفع و اعلیٰ اور بلند مقام رکھتے تھے۔ اور آپ ﷺ پر یقینا ذمہ داری اللہ نے رکھی تھی۔ جس کے پورے کرنے میں وہ اپنی مثال آپ ﷺ ہی تھے ؟ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کو جو امہات المؤمنین ہیں مخاطب کر کے اللہ نے فرمایا ” اے پیغمبر اسلام کی بیویو ! تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ کے لئے یہ بہت آسان کام ہے اور تم میں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کمائے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے۔ “ (الاحزاب :30 , 29:33) بلاشبہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات سے کشی فحش حرکت کرنے کا اندیشہ تھا بلکہ اس سے مقصود آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں۔ اس لئے ان کا اخلاقی رویہ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے خود نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ : لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ “ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہوجائے گا “ (الزمر : 65:39) اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ آپ ﷺ کے واسطہ سے عام انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ شرک کتنا خطرناک جرم ہے جس سے سخت احترام لازم ہے۔ پھر غور کرو کہ گناہ پر دوہرے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی بلند مرتبے ج پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور بندگان خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور برائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے۔ ان کی برائیاں تنہا انہی کی برائیاں نہیں ہوتیں بلکہ ایک پوری قوم کے بگاڑ کا موجب ہوتی ہیں اور اس طرح ان کی بھلائیاں بھی تنہا انہی کی بھلائیاں نہیں ہوتیں بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بنتی ہیں اس لئے جب وہ برے کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انہوں نے دوسروں بھلائی کی روہ دکھائی۔ اس لئے فرمایا کہ ” خوب اچھی طرح جان لو کہ اللہ تم پر نگران حال ہے۔ “ اس لئے تمہیں جو احکام دئیے جا رہے ہیں ان کی خلاف ورزی کرو گے تو اللہ کے قانون مکافات سے بےپروانہ ہونا یقینا اس کی پکڑ بھی بری سخت ہے۔
Top