Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 79
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ١٘ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب قَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آئے رَسُوْلُنَا : ہمارے رسول يُبَيِّنُ : وہ کھول کر بیان کرتے ہیں لَكُمْ : تمہارے لیے عَلٰي : پر (بعد) فَتْرَةٍ : سلسلہ ٹوٹ جانا مِّنَ : سے (کے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اَنْ : کہ کہیں تَقُوْلُوْا : تم کہو مَا جَآءَنَا : ہمارے پاس نہیں آیا مِنْ : کوئی بَشِيْرٍ : خوشخبری دینے والا وَّلَا : اور نہ نَذِيْرٍ : ڈرانے والا فَقَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آگئے بَشِيْرٌ : خوشخبری سنانے والے وَّنَذِيْرٌ : اور ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اے اہل کتاب ! ایسی حالت میں کہ رسولوں کا ظہور مدتوں سے بند تھا ، ہمارا رسول تمہارے پاس آیا وہ تم پر واضح کر رہا ہے تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہماری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا گیا ، نہ تو بشارت دینے والا ، نہ متنبہ کرنے والا تو اب بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا تمہارے پاس آگیا ہے اور اللہ ہر بات پر قادر ہے
ایک مدت سے رسالت کا سلسلہ بند تھا اور اب رسالت بنی اسماعیل پر تمام کی جا رہی ہے : 85: سلسلہ بنی اسرائیل کے آخری نبی سیدنا مسیح (علیہ السلام) تھے اور ان کے بعد ایک مدت جوتقریباً سارھے پانچ صد سال سے بھی متجاوز ہے کے بعد رسالت کا سلسلہ بھی بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں جاری کرنے کے بعد تا قیامت بند کرنے کا اعلان جاری کیا جا رہا ہے اب نہ ہی کوئی نیا رسول آئے گا اور نہ ہی کوئی نیا پیغام۔ فترت کیا ہے ؟ فترت کے لفظی معنی سست ہونے ، ساکن ہونے اور کسی کام کو معطل کرنے کے ہیں اور مراد اس سے یہ ہے کہ ایک مدت تک سلسلہ وحی بندرہا یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نبی اعظم و آخر ﷺ کے درمیانی عرصہ میں کوئی رسول نہ آیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار سات سو سال کا زمانہ ہے اس تمام مدت میں انبیاء کرام کی بعثت کا سلسلہ برابر جاری رہا اس میں کبھی فترت نہیں ہوئی اور صرف بنی اسرائیل میں 7 ہزار انبیاء اس عرصہ میں مبعوث ہوئے اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری اولاد بنو قطورا اور بنو عیسو سے جو نبی ہوئے۔ وہ اس کے علاوہ تھے پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت ہوئی ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ کے درمیان کی مدت میں جو تقریباً چھ سو سال کے قریب زمانہ تھا کوئی نبی مبعوث نہ ہوا۔ صحیح بخاری میں حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء ﷺ کے درمیان کا زمانہ جو تقریباً چھ صدسال کا تھا اس پوری مدت میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوئے۔ “ اور مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ بخاری و مسلم حدیث موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِیسَى یعنی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں اور خود ہی فرمایا یہ اس لئے کہ : وَلَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَ ہمارے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہے اس لئے اس زمانہ کو فترت کا زمانہ کہا گیا ہے یعنی وہ مدت یا وہ عرصہ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی رسول بن کر نہ آیا۔ اس طرح نبی نوع انسان پر حجت بھی قائم ہوگئی کہ اب تمہارا کوئی عذر باقی نہ رہا : 86: اس لئے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ سے قبل ہر نبی کسی ایک قوم یا ایک بستی کی طرف مبعوث ہوا اور یہ شرف صرف اور صرف ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ کے ساتھ خاص ہے کہ وہ کَآفَّةً لِّلنَّاسِ کی طرف رسول و پیغمبر بنا کر بھیجے گئے اور یہ بات خود اس بات کی علامت ہے کہ آپ ﷺ پر رسالت کا منصب تمام کردیا گیا ۔ اس لئے آپ (علیہ السلام) کے بعد کوئی نیا یا پرانا یقیناً نہیں آئے گا اس لئے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو پوری دنیا کے لئے اور رہتی دنیا کے لئے رسول بنا کر مبعوث کیا گیا اور اب جب تک اس آسمان و زمین کا حساب قائم ہے اور یہ نظام جاری وساری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی و رسول نہیں آئے گا اور رسالت محمد ﷺ تا قیامت جاری رہے گی اور اس وقت بھی تم پر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ ” کل تم یہ نہ کہو کہ ہماری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا گیا نہ بشارت دینے والا ، نہ ڈرانے والا۔ “ حجت کیا قائم ہوئی ؟ یہ کہ ختم الرسل تمہاری طرف بھیج دیا گیا جو پوری کائنات کا رسول ہے : 87: فرمایا نبی اعظم وآخر ﷺ کو تمہاری طرف بھیجا جا رہا ہے کہ اب وہ وقت ہے کہ سابق انبیاء کی تعلیم مٹ چکی ہے اور ان کی راہیں بےنشان ہوچکی ہیں اور دنیا توحید کو بھلا چکی ہے ۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو انبیائے کرام کا وارث قرار دیتے ہیں ان کے پاس صرف نام ہی باقی رہ گاو ہے اور جگہ جگہ مخلوق پر ستی ہو رہی ہے اور مخلوق پرستی کی حدیہ ہے کہ وہ انبیاء کرام جو لوگوں کو ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے اور توحید کا درس دیتے تھے ان ہی لوگوں نے پرستش شروع کردی ہے۔ پھر دنیا کی وہ کیا چیز ہے جو پوجی نہیں گئی۔ سورج ، چاند ، ستارے انسان اور آگ جیسی چیز کی پرستش ہو رہی ہے ۔ اللہ کا دین بدل دیا گیا ہے کفر کی تاریکی نوردین پر چھا چکی ہے۔ دنیا کا چپہ چپہ سر کشی اور طغیانی سے بھر گیا ہے ۔ عدل و انصاف بلکہ انسانیت بھی فنا ہوچکی ہے۔ جہالت وغباوت کا دور دورہ ہے فرمایا تمہاری اسی حالت کے پیش نظر ہم نے بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا تمہارے پاس بھیج دیا اور یہ اس قادر مطلق کا بہت بڑا احسان ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی اعظم و اخر ﷺ نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا کہ ” مجھے میرے رب کا حکم ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں سکھاؤں جن سے تم ناواقف ہو اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ باتیں بتائی ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنے بندوں کو جو کچھ عنایت فرمایا ہے وہ ان کے لئے حلال کیا ہے اور میں نے اپنے سب بندوں کو موحد پیدا کیا ہے لیکن پھر شیطان ان کے پاس آتا ہے اور ان کو بہکاتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ میرے ساتھ باوجود دلیل نہ ہونے کے وہ شرک کریں۔ “ اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ حجت قائم ہوگئی اور دنیا کے آخری ڈرانے والے نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا ایسا پیغام جس کی نظر پوری دنیا میں نہیں تھی نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی اور یہ اس کی کرشمہ سازیوں میں سے ایک بڑا کرشمہ ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔
Top