Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 29
اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ١ۚ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ
اِنِّىْٓ : بیشک اُرِيْدُ : چاہتا ہوں اَنْ تَبُوْٓاَ : کہ تو حاصل کرے بِاِثْمِيْ : میرا گناہ وَاِثْمِكَ : اور اپنا گناہ فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے مِنْ : سے اَصْحٰبِ النَّارِ : جہنم والے وَذٰلِكَ : اور یہ جَزٰٓؤُا : سزا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے اور پھر دوزخیوں میں سے ہوجا کہ ظلم کرنے والوں کو یہی بدلہ ملنا ہے
ہابیل کی مزید وضاحت کہ میں ایسا کیوں کروں گا کہ اپنے قاتل کا قاتل بھی نہ بنوں : 100: اس لئے کہ یہاں کوئی کھلے دشمن کے ساتھ میدان جنگ میں مقابلہ نہیں یہاں تو ایک بھائی کی غلط فہمی ، بےوقوفی اور ہٹ دھرمی کی صورت ہے اس صورت میں صحیح اور مومنانہ رویہ یہی ہے کہ آدمی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا ایک بھائی اس کے درپے قتل ہے وہ ایسے قاتل بھائی کے قتل کے لئے تیار نہ ہو بلکہ اس سے جو کچھ ہو سکے مدافعانہ طور پر ہو وہ اس کے وار کو اپنے اوپر سے بچائے گا اور اس پر وار کرتے ہوئے یہ خیال رکھے گا کہ وہ کہیں اس کے ہاتھ سے قتل نہ ہوجائے۔ ہاں ! اگر احتیاط کے باوجود مارنے والا اس کے ہاتھ سے مر بھی گیا تو یہ مارنے کے گناہ میں یقیناً نہیں آئے گا کیونکہ ہر عمل کا تعلق نیت کے ساتھ خاص ہے ۔ اگر انسان کسی کی نیت سے واقف نہیں تو اللہ تو سب کی نیتوں سے واقف ہے اور اس کے ہاں یقیناً اندھیر بھی نہیں۔ ابوداؤد شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ ” ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر ایک شخص میرا مال چھینتا ہے تو میں اس کے ساتھ کیا معاملہ کروں ؟ ارشاد ہوا کہ خدا کا خوف دلاؤ ؟ اس نے کہا اگر وہ خدا کا خوف نہ مانے ، ارشاد ہوا کہ اپنے اردگرد کے مسلمانوں سے اس کے مقابلہ کے لئے مدد چاہو سائل نے کہا اگر میرے گردوپیش میں ایسے لوگ موجود ہی نہ ہوں فرمایا پھر حکومت سے مدد کی اپیل کرو ، اس نے کہا کہ اگر حکومت کی ذمہ داری بھی دور ہو فرمایا اپنے مال کی حفاظت کے لئے لڑو تاآنکہ اپنے مال کو بچا لویا پھر شہید ہوجاؤ ۔ “ اس اللہ کے بندے نے بھی یہی کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے اور پھر جہنم رسید ہوجائے کہ ظلم کرنے والوں کو یہی بدلہ ملتا ہے۔ “ بِاِثْمِیْ کے معنی ہیں باثم قتلی مطلب یہ ہے کہ جو گناہ تو نے پہلے کئے ہیں ان کا بار تو تیرے سر پر ہے ہی اب میرے خون ناحق کا بار بھی تیرے سر پر لادا جائے گا ۔ پھر ایک گناہ ارادہ قتل کا ہے اور ایک گناہ قتل کردینے کا۔ میرے قتل کرنے کا جو تو نے ارادہ کیا تو اس کا گناہ تو تو نے اٹھاہی لیا۔ اب اگر میں بچ جاتا ہوں قتل نہیں ہوتا تو بھی ارادہ قتل کے گناہ کا تو تو مستحق ہوگیا اور اس کے برعکس جب کہ میں نے تیرے قتل کرنے کا ارادہ ہی نہ کیا حالانکہ میں جانتا ہوں کہ تو مجھے قتل کرنے کے درپے ہے تو اس کا اجر بھی مجھے یقیناً ملے گا جس کا باعث بھی تو ہی ہے اور اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ ” قیامت کے دن کا ظالم اور مظلوم جب بار گارہ الٰہی میں حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ مظلوم کی دادرسی کے لئے ظالم کی نیکیاں مظلوم کو عطا فرمائیں گے اور اگر اس سے بھی داد رسی میں کسررہ جائے گی تو مظلوم کے گناہ ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ “ (ابو داؤد شریف) ہو سکتا ہے کہ باثمی سے اس بات کی طرف اشارہ ہو۔
Top