Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 2
عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ
عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ : اس نے تعلیم دی قرآن کی
(جس نے) قرآن کی تعلیم دی
جس نے قرآن کریم کی تعلیم دی 2۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اگر شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کرسکتے لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی ساری نعمتوں سے ارفع و اعلیٰ نعمت قرآن کریم کی ہے اور لاریب جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم سے نوازا اس پر بہت بڑا احسان کیا گیا کیونکہ یہی وہ آفتاب ہے کہ جب مطلع حیات پر طلوع ہوتا ہے تو زندگی کی شب ویجور صبح سعادت سے آشنا ہوتی ہے۔ انسان جب اس کی ہدایت کو خضر راہ بناتا ہے تو شرف انسانی کی منزل تک پہنچ جاتا ہے اس سے انسان کی دنیوی زندگی سنورتی ہے اور اس سے آخرت کی زندگی درست ہوتی ہے۔ یہی وہ کتاب ہے کہ جو تھیوری (Theory) نظام کائنات کی ہے اس میں وہ اشارات واستعارات بیان کیے گئے ہیں جن کی وضاحت سائنسی علوم کر رہے ہیں اور ابھی قیامت تک کرتے رہیں گے۔ آپ غور کریں گے تو ایک سائنس دان کی مثال آپ ایک ٹھیٹ زبان بولنے والے سے دے سکتے ہیں۔ کہ وہ جو زبان بھی بولتا ہے بولنے میں وہ بالکل صحیح اور درست ہوتا ہے لیکن اس کو قطعاً یہ معلوم نہیں کہ از روئے گرائمر وہ کیا وہ بول رہا ہے اور جو اس نے بولا گرائمر کے لحاظ سے کتنے قواعد و ضوابط ہیں جن کی اس نے پوری پوری ترجمانی کردی ہے۔ یہی حال ایک سائنسدان کا ہے کہ اس نے جو دریافت کیا اور جس کی تلاش اس نے کی ہے اس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ قرآن کریم کے کس اشارہ واستعارہ کی وضاحت ہے۔ اگر ایک سائنسدان اسلامی اصولوں سے پوری پرح آشنا ہوتا وہ سائنسی علوم میں جو ترقی بھی کرتا اس کو معلوم ہوتا کہ وہ قرآن کریم کے کونسے اشارات و استعارات کی وضاحت کر رہا ہے تو لاریب وہ ایمان میں پختہ اور کامل ہوجاتا اور وہ دین و دنیا کی بھلائیاں اکٹھی کرلیتا۔ لیکن افسوس کہ ایک سائنس دان اور علوم قرآنی سے واقفیت رکھنے والے کے درمیان اتنا بعد ہوگیا کہ اب ان دونوں کے اکٹھا ہونے کی بظاہر کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی اور دونوں ایک دوسرے کو جاہل اور بیوقوف جانتے اور سمجھتے ہیں اور جب تک ان دونوں کی ایک ایک آنکھ نکال نہیں دی جائیگی۔ جس آنکھ سے وہ دونوں ایک دوسرے کو جاہل اور بیوقوف جانتے ہیں اس وقت تک ان دونوں کی جنگ جاری رہیگی لیکن ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان دونوں کی جنگ جاری رہی تو بھی ایک نہ ایک روز کوئی تیسرا طبقہ پیدا ہوجائے گا جو ان دونوں کی مثبت آنکھ کو لے لے گا اور منفی کو چھوڑ دے گا اور آہستہ آہستہ حالات اس طرف جا رہے ہیں کہ اب وہ طبقہ پیدا ہورہا ہے تاکہ یہ خلا پُر ہوسکے اور فطرت یقیناً اس کو ُ پر کریگی۔ (علم) دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے یعنی کیا سکھایا اور اس کو سکھایا ؟ ان میں سے ایک مفعول تو ذکر کردیا کہ قرآن کریم سکھایا لیکن دوسرا مفعول کہ کس کو سکھایا ، کس کو تعلیم دی ، ذکر نہیں کیا ، کیوں ؟ اس لیے کہ دوسرا مفعول اتنا عیاں ہے کہ عدم ذکر کے باوجود کسی کو اس کے متعلق یہ تردد نہیں کہ وہ کون ہے ؟ سب کو معلوم ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں گویا دونوں آیات کے ان تینوں الفاظ کو جب ملا کر پڑھا جائیگا تو واضح ہوجائیگا کہ سکھانے والا الرحمن یعنی اللہ تعالیٰ ہے اور جو سکھایا گیا وہ قرآن کریم ہے اور جس کو سکھایا گیا وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے اور اس طرح اس کی وضاحت خود بخود ہوگئی کہ یہ قرآن کریم محمد رسول اللہ ﷺ کا اپنا بنایا ہوا اور گھڑا ہو کلام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے جو اس نے محض اس لیے نازل فرمایا ہے کہ وہ مخلوق کی صحیح صحیح راہنمائی کرے اور ظاہر ہے کہ صحیح راہنمائی اس سے زیادہ کوئی نہیں کرسکتا جو خود خالق ہو اور خالق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کے سوا اور کوئی خالق نہیں ہے۔ ایک بار پھر غور کرو کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے تو پھر یہ کائنات بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فعل نہیں ہے ؟ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور کائنات اللہ کا فعل یعنی کام ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے کلام اور کام میں کیسے تضاد مانایا تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار یہ عرض کرتے چلے آرہے ہیں کہ سائنس اور قرآن کریم کبھی آپس میں متضاد چیزیں نہیں ہوست کے بلکہ دونوں میں ہم آہنگی موجود ہے جہاں کہیں ان دونوں میں تضاد نظرآئے گا۔ تو وہ بیان کرنے والے کی غلطی سے ہوگا خواہ وہ قرآن کریم کے بیان کرنے والے کی غلطی سے ہوا یا سائنس کے بیان کرنے والے کی غلطی سے بہرحال دونوں میں سے کسی ایک کی غلطی ہوسکتی ہے۔ فی نفسہ دونوں میں تضاد ممکن نہیں۔ اگر آپ کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ پیدا ہوا ہے سب اللہ رب ذوالجلال والا کرام ہی کی پیدائش ہے تو پھر سائنس کیا ہے ؟ انہی اشیاء کائنات کا آپس میں جوڑ اور میل پھر جن اشیاء میں اللہ تعالیٰ نے جوڑ اور میل کی صلاحیت رکھی ہے جب ان ہی میں جوڑ اور میل ہوسکتا ہے باقی میں ممکن ہی نہیں اور پھر تخلیق انسان کا آپس میں جوڑ اور میل جو فطرت اور دین فطرت کے عین مطابق ہے اس کا فاعل حقیقی کون ہوا ؟ اللہ رب ذوالجلال والا کرام۔ جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کی راہنمائی کے لیے قرآن کریم جیسی کتاب کو نازل کیا جو آج تک راہنمائی کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا جب تک کہ یہ تخلیق خداوندی اس کائنات میں موجود ہے۔
Top