بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 1
اَلرَّحْمٰنُۙ
اَلرَّحْمٰنُ : الرحمان
وہ رحمن ہے
رحمٰن کیا ہے ؟ اللہ رب ذوالجلال والا کرام ہی تو ہے 1۔ (رحمن) اللہ تعالیٰ کے ان صفاتی ناموں میں سے جو کسی دوسرے شخص وفرد کے لیے نہیں بولے جاتے بلکہ جس طرح اللہ کا ذاتی نام صرف اور صرف رب کریم کیلئے مخصوص ہے اسی طرح (الرحمن) بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ ہم سورة الفرقان کی آیت 60 میں اس بات کی بحث کر آئے ہیں کہ مشرکین مکہ (الرحمن) کے نام سے الرجک (Allergic) تھے اور جب ان کو کہا گیا کہ (الرحمن) کے لیے سجدہ کرو تو وہ نفرت سے بول اٹھے کہ تعجب ہے تجھ پر کہ اب یہ (الرحمن) تو نے کہاں سے نکال لیا ہے جس کو ہم سجدہ کریں ؟ کیا جس کا نام لے کر تو ہم کو سجدہ کا حکم دے ہم اسی کو سجدہ شروع کردیں ؟ ان کو بتایا گیا کہ تم ” اللہ “ کہویا (الرحمن) کہہ کر پکا رویہ اللہ تعالیٰ ہی کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے اور اللہ تعالیٰ کے سارے نام ہی اچھے ہیں اس لیے تم کسی نام سے بھی اس کو پکار سکتے ہو اس کی وضاحت غزوۃ الوثقٰی جلد پنجم سورة بنی اسرائیل کی آیت 110 میں ملے گی۔ چونکہ (الرحمن) کے نام سے مکہ والوں نے تعجب کا اظہار کیا تھا اور یہ اظہار کرنے والے مشرکین مکہ ہی تھے جیسا کہ جلد ششم سورة الفرقان میں ہم نے بیان کردیا ہے۔ اور پھر ان کے اس اظہار تعجب کے بعد مکی سورتوں میں خاص کر (الرحمن) کے نام ہی سے اللہ تعالیٰ کا ذکر زیادہ تر کیا جانے لگا اگرچہ مدنی سورتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہ نام آیا ہے لیکن بہت کم۔ زیادہ تر مکی سورتوں میں اور خصوصاً ان سورتوں میں جو ان کے اظہار تعجب کے بعد نازل ہوئیں۔ جس سے ہم کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جو کام یا جو بات صحیح اور درست ہو اور دین اسلام کے متعلق ہو وہ کسی کی چڑ کے باعث چھوڑ نہیں دینی چاہئے بلکہ اس صحیح اور درست کام یا بات کو ضرور کرنا چاہئے کیونکہ وہ دین اسلام کے متعلق ہے تاکہ ناجائز چڑ کرنے والوں کی چڑ ختم ہوجائے بشرطیکہ وہ بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی ہو نہ کہ رسم و رواج کی۔ لیکن افسوس کہ آج ہم نے رسم و رواج کو وہ اہمیت دی جو دین اسلام کے کاموں اور باتوں کو دینی چاہئے تھی اور دین اسلام کے متعلق باتوں یا کاموں کو وہ اہمیت بھی نہ دی جو رسم و رواج کو دے رہے ہیں۔ اس طرح گویا ہمارا ہر کام دین اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں سے الگ ہو کر رہ گیا اور پھر صرف الگ ہی نہیں بلکہ مخالف ، کہ جو کرنے کا حکم ہے اس کو ہم کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں اور جس کے نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کو ہم چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کل یہی ایک ہمارے پکا مسلمان ہونے کی نشانی ہے اور خصوصاً اہلسنت والجماعت ہونے کی۔ اللہ تعالیٰ ہم کو حقیقت کے سمجھنے کی توفیق دے اور سیدھی راہ اختیار کرنے اور اسی طرح پر چلتے رہنے کی توفیق بخشے۔ (الرحمن) بہت ہی مہربان ، بہت ہی بخشش کرنے والا چونکہ اس لفظ کے معنی بجزذات باری کے اور کسی پر صادق نہیں آتے کیونکہ اس کی رحمت سب پر عام ہے۔ اس لیے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے لیے اس لفظ کا استعمال نہیں ہوتا۔ علماء عربیت کا اس میں اختلاف ہے کہ (الرحمن) عربی زبان کا لفظ ہے یا نہیں اور عربی ہونے کی صورت میں یہ مشتق ہے یا غیر مشتق ؟ مبرد اور ثعلب جو لغت عربیت کے امام ہیں اسی طرف گئے ہیں کہ یہ عبرانی لفظ ہے اور اس کی اصل حاء معجمہ سے ہے۔ (الاتقان ج اول ص 139 امام خطابی (رح) لکھتے ہیں : رحمن کی تفسیر اور اس کے معنی میں کہ وہ رحمتہ سے مشتق ہے یا نہیں ؟ لوگوں کا اختلاف ہے بعض اس طرف گئے ہیں کہ یہ غیر مشتق ہے کیونکہ اگر یہ رحمتہ سے مشتق ہوتا تو مرحوم کے ذکر کے ساتھ آتا اور جس طرح کہ رحیم لعبادہ کہا جاتا ہے رحمن لعبادہ کہنا جائز ہوتا۔ نیز اس لیے کہ اگر رحمتہ سے مشتق ہوتا تو عرب سنتے ہی اس کا انکار نہ کرتے کیونکہ وہ رحمت پروردگار کے منکرنہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :..................” جب ان کو کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمن کیا ہے ؟ کیا تو جس کو کہے گا ہم سجدہ اس کو کریں گے۔ اس طرح ان کی نفرت میں اور زیادتی ہوجاتی ہے۔ “ اور بعض نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ عبرانی نام ہے اور جمہور اس طرح گئے ہیں کہ یہ رحمتہ سے مشتق ہے اور مبالغہ پر مبنی ہے۔ اس کے معنی رحمت والے کے ہیں لیکن اس سلسلہ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جس طرح رحیم کا تثنیہ اور جمع آتا ہے اس کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا۔ (فعلان) کا وزن کلام عرب میں مبالغہ کا وزن ہے۔ چناچہ شدید الامتلاء کو ملان اور خوب پیٹ بھرے کو شبعان کہتے ہیں۔ (کتاب الاسماء والصفات ، امام بیہقی ص 27 طبع انوار احمد ، الہ آباد) جو لوگ رحمن کو رحمتہ سے مشتق بتاتے ہیں و رحمن اور رحیم میں نہایت دقیق اور نازک فرق بیان کرتے ہیں۔ چناچہ ابن حجر عسقلانی (رح) لکھتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے کہ آیا رحمن اور رحیم ایک ہی معنی رکھتے ہیں جس طرح کہہ ندمان اور ندیم کے ہیں۔ اور ان دونوں کو جو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے تو وہ تاکید کے لیے ہے یا باعتبار تعلق دونوں میں باہم مغائرت ہے۔ پس رحمن ہے دنیا کے لیے اور رحیم ہے آخرت کے لے کیونکہ دنیا میں اس کی رحمت مومن و کافر سب کے لیے عام ہے اور آخرت میں مومن کے ساتھ مخصوص ہے یا مغائرت کسی اور جہت سے ہے کہ رحمن تو اس حیثیت سے زیادہ بلیغ ہے۔ کہ وہ بڑی بڑی نعمتوں اور ان کے اصول پر مشتمل ہے جیسے کوئی غضب میں بھرا ہو تو اسے غضبان کہتے ہیں اور رحیم کو اس کے بعد ہی اس لیے لایا گیا کہ بطور تتمہ ہو کر چھوٹی نعمتوں کو شامل ہوجائے اور بعض کا قول ہے کہ رحیم زیادہ بلیغ ہے کیونکہ فعل کا صیغہ مبالغہ کا مقتضی ہے اور تحقیق یہ ہے کہ مبالغہ کی جہت دونوں میں مختلف ہے۔ (فتح الباری ج 8 ص 118 طبع میریہ مصر) بہرحال یہ واقعہ ہے کہ خدا کے لیے رحمن کا لفظ اسلام سے پہلے عام طور پر عربوں میں مستعمل نہ تھا اور صرف یہود ونصاریٰ اور بعض دیگر ارباب مذاہب اس کو بولتے تھے چناچہ نجد کے آخری کتبات میں رحمن ہی کا نام ملتا ہے۔ سدوم کے عیسائی کتبہ کا آغاز بنعمۃ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام نے جب ابتداء رحمن کا نام لیا تو قریش کو اچنبھا ہوا کہ یہ کون سا نیا نام ہے ؟ صلح حدیبیہ میں جب علی ؓ نے عہد نامہ کی پیشانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا تو قریش نے ماننے سے انکار کردیا کہ ہم رحمن کو نہیں مانتے۔ (ارض القرآن جلد دوم میں 239 طبع معارف پریس اعظم گڑھ) ” رحمن کو رحیم پر اس لیے مقدم کیا گیا ہے کہ رحمن اللہ تعالیٰ کا اسم خاص ہے اور رحیم اسم مشترک ہے کیونکہ رجل رحیم بولتے ہیں مگر رجل رحمن نہیں بولتے اس لیے خاص کو عام پر مقدم کیا گیا ہے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رحمن اور رحیم دو ایسے اسم ہیں جن میں رقت کے معنی ہیں اور ایک میں بنسبت دوسرے کے رقت کا مفہوم زیادہ ہے اور دوسروں کا بیان ہے کہ رحمن میں مدح زیادہ ہے اور رحیم میں رقت زیادہ ہے۔ پس رحیم لطیف کی طرح ہے اور ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ رحیم و رحمن دونوں نعمتیں ہیں پس رحیم رحمتہ سے ہے یعنی برزون فعیل اور رحمن بروزن فعلان ہے۔ اور یہ اسی بنا پر ہے کہ اہل عرب کے نزدیک زبان میں وسعت ہے۔ جیسے ندیم اور ندمان کے ایک ہی معنی ہیں جیسا کہ کہا گیا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں اسم رحمت سے ہیں لیکن رحمت کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ عربی میں فعلان کا باب عموماً ایسی صفات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محض صفات عارضہ ہوتے ہیں فعلی ظہور ان کے لیے ضروری نہیں ہوتا جیسے پیاسے کے لیے عطشان۔ غضب ناک کے لیے غضبان اور سراسیمہ وحیران و پریشان کے لیے حیران۔ مست کے لیے سکران ، لیکن فیعل کے وزن میں صفات قائمہ وفاصلہ کا خاصہ ہے یعنی عموماً ایسی صفات کے لیے بولا جاتا ہے جو جذبات و عوارض ہونے کی جگہ صفات قائمہ ہوتے ہیں اور اپنا فعل ظہور بھی رکھتے ہیں مثلاً کریم کرم کرنے والا عظیم بڑائی رکھنے والا پس (الرحمن) کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں رحمت اور (الرحیم) کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں نہ صرف رحمت ہے بلکہ جس کی رحمت اپنا فعلی ظہور بھی رکھتی ہے اور تمام کائنات اس سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔ “ (ترجمان القرآن ج اول صف 39) شاہ عبدالعزیز صاحب (رح) رقمطراز ہیں کہ ” باید دانست کہ ازلوازم پرورش دو قسم رحمت است۔ قسم اول رحمتے کہ درعین پرورش می باشدو آن رحمت اگر نباشد پرورش متصور نشود حقیقت آن رحمت توجہ نام بدفع حاجات پروردہ خود و تعہد ضروریات اوزر ہر وقت وتفقد بایست ونابایست اودرہر آن ستاوازیں رحمت باسم رحمان تعمیر فرمودہ اندوقسم دوم از رحمت آنست کہ بعد ازپرورش بحصول کمال ثمرات آن کمال رامترتب فرمایندواں کمال را رائیگاں سازند وازیں رحمت تعبیر فرمودہ اندبرحیم۔ “ (تفسیرفتح العزیز ص 2 طبع محمدیہ 1264 ھ) مختصریہ کہ یہ سب نکتہ سنجیاں اس بنیاد پر ہیں کہ رحمن کا اشتقاق رحمت سے ہے اور وہ عربی زبان کا لفظ ہے ورنہ اگر اس کو عبرانی لفظ مان لیا جائے تو پھر کسی دقیقہ سنجی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس صورت میں یہ لفظ اللہ کی لوح ذات باری کا حکم ہوگا۔ قرآن کریم میں سوائے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے یہ لفظ تریپن جگہ مذکور ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا استعمال بطور صفت نہیں بلکہ بطور علم ہوا ہے۔
Top