Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 15
اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
اِذَا : جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِ : اس پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالَ : کہتا ہے اَسَاطِيْرُ : کہانیاں ہیں الْاَوَّلِيْنَ : پہلوں کی
جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں
جب ایسوں کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں 15 ؎ نزول قرآن کریم کے وقت ان لوگوں کی اتنی بہتات نہیں تھی جتنی آج ہے۔ تاہم اس وقت بھی ایسے لوگ بہت تھے اور آج تو ان کا شمار ہی بہت مشکل ہے۔ لیکن قرآن کریم نے ان کا ذکر واحد شخصیت کے طور پر کیا ہے اور جب ایک کی عادت و خصائل معلوم ہوجائیں جو ان عادات و خصائل کے حامل ہوں تو سب پر وہ بات خود بخود فٹ ہونے میں زیادہ اچھی اور زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی اسلام نے انسانیت کا جو احترام کیا ہے اور بتایا ہے وہ کسی دوسرے دین و مذہب میں موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صفات جو اوپر گنائی گئی ہیں کوئی اچھی نہیں ہیں اور انسانیت کے لئے وہ مناسب نہیں ہیں لیکن بڑے لوگوں نے انسانیت کی قدر کب کی ہے اور ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز کب ہوتی ہے۔ اس لئے قرآن کریم نے پھر بھی ان کا ذکر فرد واحد کی صورت میں کیا ہے لیکن اس سے لازم نہیں آتا کہ یہ کوئی واحد شخصیت کا ذکر کیا جا رہا ہے اور اس کی وضاحت میں صرف ایک لفظ (کل) کا استعمال کر کے وضاحت کردی ہے اور بدستور ساری صفات کے ساتھ موجود ہے۔ زیر نظر آیت میں اس کردار کے لوگوں اور ان صفات کے حامل لوگوں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ ان کے سامنے جب قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کو سن کر وہ بول اٹھتے ہیں کہ کیا یہ قرآن ہے ، یہ تو پہلے لوگوں کے قصے اور کہانیاں ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ یہ اس وقت کے مخاطبین کی حالت بیان کی گئی ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کا مفہوم اور زبان کو سمجھتے تھے ، ہمارے ہاں کے اس کردار اور ان صفات کے لوگ سرے سے یہ بات تسلیم ہی نہیں کرتے کہ یہ اس قرآن کریم کا ترجمہ ہے بلکہ وہ صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو اپنی طرف سے اس طرح کا مطلب بیان کرتے ہیں۔ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے بھلا اس کو کوئی سمجھ سکتا ہے یہ تو اللہ نے محض ہمارے ثواب کی خاطر اتاری ہے اور اس کو برکت کے لئے پڑھا جاتا ہے۔ اس کا ترجمہ کرنا تو اللہ تعالیٰ کے پردہ پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایسے آدمیوں کو توبہ کرنی چاہئے اور قرآن کریم کا لوگوں کی کتابوں کی طرح ترجمے کرنے کا ہر آدمی کو حق کیسے مل گیا ؟ یہ اور اس طرح کی باتیں بنا بنا کر اپنے دل کو بہلانے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ آج تک تو ہم نے ایسا ترجمہ کبھی نہیں سنا۔ یہ لوگ نئے پیدا ہوگئے اور اب ان کی سمجھ میں قرآن آیا ہے پہلے کوئی قرآن کریم پڑھنے والا نہیں تھا۔
Top